حوثیوں کی بڑھتی طاقت: کون ہے پس پردہ؟

پس آئینہ: شمس تبریز قاسمی
یمن مشرق وسطی کے اہم ترین ممالک میں سے ایک ہے ، سعودی عرب کی ڈیڑھ ہزار کلومیٹر طویل سرحد یمن سے ملتی ہے۔ یہاں کی 70 فیصد آبادی سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ 20 فیصد آبادی زیدی شیعہ کی ہے۔ جبکہ 5 فیصد حوثی قبیلہ کی آبادی ہے ۔1990 سے قبل یہ ملک دو حصوں میں تقسیم تھا ،ایک حصے پر شیعہ کی حکومت تھی اور دوسرے پر سنی جماعت سے تعلق رکھنے والوں کا اقتدار ہوتا تھا ،انٹر نیٹ پر دستیاب تاریخی حقائق کے مطابق 1962 میں مشرقِ وسطیٰ میں جاری عرب سوشلسٹ نیشنلسٹ تحریک کے نتیجے میں مصر کے جمال عبدالناصر کے حامی فوجی افسران نے شمالی یمن میں شیعہ زیدی امامت کے خلاف بغاوت کردی، سعودی عرب کی حکومت نے اس وقت زیدی امام کا ساتھ دیا جبکہ باغیوں کی امداد کے لئے مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے مصری فوج اور بڑی مقدار میں اسلحہ یمن بھیجا ، یمن کی یہ خانہ جنگی 5 سالوں تک جاری رہی۔ 1967 کی اسرائیل جنگ میں بدترین شکست سے دوچار ہونے کے نتیجے میں جمال عبدالناصر شمالی یمن سے مصری افواج کے انخلا پر مجبور ہوگیا ۔ یوں سعودی عرب اور مصر کے درمیان ایک مفاہمت کے نتیجے میں پہلے کی طرح یمن دو حصوں میں تقسیم ہو گیا ۔ ایک طرف شمال میں جمہوری یمن معرض وجود میں آیا ،دوسری طرف جنوبی یمن میں جاری نیشنلسٹ سوشلسٹ کی گوریلا تحریک کی وجہ سے برطانیہ کو عدن اور جنوبی یمن کی دوسری نوآبادیوں کو چھوڑنا پڑا۔ اس خطہ میں یمن عرب جمہوریہ نام سے ایک نئی حکومت قائم ہوئی ۔1990 میں ایک معاہدے کے تحت شمالی اور جنوبی یمن میں اتحاد ہوگیا اور 22 مئی 1990 کو علی عبداللہ الصالح متحدہ یمن کے پہلے صدر منتخب کرلئے گئے ۔
نوے کی دہائی میں عراق ۔ کویت جنگ کے دوران عراق کا ساتھ دینے کی وجہ سے عرب ممالک کی توجہ یمن سے ہٹ گئی ،ایران نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاسی اور مالی امداد کا دروازہ کھول دیا ۔حسین بدرالدین حوثی نام کے ایک نوجوان نے ایران کے تعاون سے ’شباب المومنین‘ نامی تنظیم کی داغ بیل ڈال دی، اپنی تقریری صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے اس نے سب سے پہلے نوجوانوں کے اندر اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔ ایران کی امداد سے شیعہ اکثریتی علاقوں میں ہسپتال، اسکولز اور سماجی کاموں کے دوسرے منصوبے پر کام کیا۔ بہت سے فوجی کمانڈروں اور حزب مخالف کے لیڈروں کو بھی پیسے کی لالچ دیکر اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگیا۔14 سال کی محنت اور ایران سے آنے والے بے پناہ وسائل کی بدولت بدرالدین نے 2004 میں یمن پر قبضہ کرنے کے لئے بغاوت کردی۔ یہ پہلی حوثی بغاوت کہلاتی ہے جو شمالی یمن کے سعودی سرحد سے متصل صوبے صعدہ میں واقع ہوئی تھی لیکن حوثیوں کی یہ بغاوت بری طرح ناکام ہو گئی، شباب المومنین کا بانی حسین بدرالدین مارا گیا۔ بدرالدین کی موت کے بعد اس تحریک کی قیادت اس کے بھائی عبدالمالک الحوثی کے پاس آگئی۔ عبدالمالک الحوثی نے قیادت سنبھالتے ہی زیدی شعیوں سے تعلق مکمل طور پر ختم کر دیا۔ شباب المومنین کی تنظیم کو تحلیل کر کے اس کی جگہ نئی تنظیم انصار اللہ قائم کی جسے عرف عام میں الحوثی تحریک کہا جاتا ہے۔ اس تحریک میں صرف اور صرف اثناء عشری مذہب اختیار کرنے والوں کو شامل کیا گیا جن میں اکثریت حوثی قبیلے کے افراد کی ہے۔
2010 تک شمالی یمن میں حوثی باغیوں اور حکومتی دستوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ عالمی کوششوں کے باعث فروری 2008 میںفریقین کے درمیان ایک معاہدہ بھی طے پایاگیا جس کے تحت بغاوت کے جرم میں قید تمام حوثی قائدین کو نہ صرف رہا کر دیا گیا، بلکہ ان کا تمام ضبط شدہ اسلحہ اور گولہ بارود واپس کر دیا گیا، ایران سے ملنے والی عسکری امداد پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب القاعدہ کے خلاف یمنی فوج اور امریکہ نے براہ راست جنگ کا بھی آغاز کر دیا۔ یمنی فوج زمینی کاروائیوں کی ذمہ دار تھی جبکہ اسے سعودیہ کی سرزمین سے پرواز کرنے والے امریکی ڈرون طیاروں کے ذریعے فضائی امداد مہیا کی جاتی تھی۔ امریکی ڈرون طیاروں کی ان کاروائیوں کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ نے پاکستان، عراق اور صومالیہ کی نسبت کہیں زیادہ ڈرون حملے یمن پر کیے۔ بظاہر یہ ڈرون حملے اور زمینی عسکری کاروائیاں القاعدہ اور اس سے تعاون کرنے والوں پر کیے جاتے تھے، لیکن عملاً ان کے نتیجے میں یمن کے تمام ہی سنّی قبائل کی عسکری قوت کو کمزور کر دیا گیا کیونکہ مغربی طاقتوں کا خیال تھا کہ القاعدہ کو سنّی قبائل سے اجتماعی یا انفرادی طور پر تعاون ملتا ہے۔
تیونس، مصر اور لیبیا میں عرب بہار کی کامیابی کے بعد یمن کے دارالحکومت صنعاءاور دوسرے شہروں میں بھی مظاہرے شروع ہوگئے۔ ان میں وقت کے ساتھ ساتھ شدت آتی گئی۔ حکومت نے مظاہرین سے سختی سے نمٹنے کی حکمت عملی اپنائی۔ 2 ہزار سے زائد افراد مارے گئے۔ 22 ہزار شدید زخمی ہوئے، جبکہ 7 ہزار افراد جیلوں میں قید کردیے گئے۔ علی عبداللہ الصالح کی ری پبلکن گارڈز کی جانب سے طاقت کے وحشیانہ استعمال کے باوجود مظاہریں ڈٹے رہے۔ امریکہ اور اس کے یورپی و خلیجی اتحادیوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ افراتفری کے اس ماحول سے القاعدہ فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ اس لئے پرامن انتقال اقتدار کا ایک فارمولہ تیار کیا گیا، جس کی بنیاد پر علی عبداللہ الصالح کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ نئی قائم ہونے والی حکومت کا صد ”عبد ربہ منصور ہادی“ کو بنایا گیا ۔ وزیر اعظم کا عہدہ تمام تر مخالفتوں کے باوجود مضبوط سیاسی حیثیت کی وجہ سے اخوان المسلمون کی یمنی شاخ جماعت الاصلاح کے پاس آ گیا۔
یمن میں حالات نے ایک مرتبہ پھر کروٹ لی، اخوان المسلمین کے ہاتھ میں قیادت سے عرب حکومتیں خوف زدہ ہوگئیں۔ امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں نے بھی اس حکومت کے برسر اقتدار آتے ہی یمن کو دی جانے والی ہر قسم کی امداد بند کر دی۔ دوسری طرف علی عبد اللہ الصالح نے اقتدار سے علیحدگی کے بعد یہ پروپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا کہ 1911 میں یمن سے خلافت عثمانیہ کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ایک بار پھر متحدہ یمن کے اقتدار پر اہل سنّت کا قبضہ ہو گیا ہے۔ اس نعرے کو اہل تشیع میں پذیرائی حاصل ہوئی، یمن کے شعیہ اکثریتی علاقوں میں اہل تشیع کے اقتدار کی بحالی کے نعرے بلند ہونا شروع ہو ئے۔ علی عبداللہ الصالح کے تعاون، عبد المالک حوثی کی قیادت اور ایرانی عسکری ماہرین کی رہنمائی میں حوثی قبائل کی فوجوں نے پیش قدمی کرنی شروع کر دی ۔ 2014 میں یمن کی راجدھانی صنعا پر حوثیوں نے بآسانی قبضہ کرلیا ۔اس کامیابی کے بعد حوثیوں نے اپنی یلغار مزید تیز کردی ،عدن کی جانب اس کی پیش قدمی شروع ہوگئی ،سعودی عرب کے تین صوبوں “نجران جازان اور عسیر” کو یمن کی سابق شیعہ سلطنت کا حصہ قرار دے کر اس پر بھی قبضہ کرنے کی دھمکی دی ۔
حوثیوں کی بڑھتی طاقت اور ایرانی مداخلت کے بعد سعودی عرب نے اس خطرے کا احساس کیا، انہیں اندازہ ہوا کہ یمن کے بعد حوثی اگلا نشانہ سعودی عرب کو بنائیں گے ،تین صوبوں پر قابض ہونے کا وہ ابھی سے دعوی کررہے ہیں، چناں چہ مارچ2015 میں سعودی عسکری اتحاد نے یمن میں حوثی باغیوں اور جہادی گروپوں کے خلاف باقاعدہ کارروائی کا آغاز کیا۔ اس آپریشن کو کامیاب بنانے کیلئے سعودی حکومت نے پاکستان سے فوجی مدد طلب کی لیکن پاکستان حکومت نے غیر جانبدار بننے کی کوشش میں سعودی کا ساتھ دینے سے انکار کردیا ۔
گذشتہ تین سالوں سے یمن کے خلاف ہونے والی جنگ میں سعودی عرب اپنا بہت کچھ کھو چکاہے ،کئی جنرل مارے جاچکے ہیں، معاشی طور پر بحران کا سامنا ہے ، دوسری جانب خانہ جنگی کے نتیجہ میں یمن انفرا اسٹریکچر بری طرح تباہ ہو گیا ہے۔ دس ہزار افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ امدادی اداروں کی رپوٹ کے مطابق ملک کی ساٹھ فیصد آبادی کو خوارک کی قلت کا سامنا ہے۔ 2.2 ملین بچے کم خوارکی کے شکار ہیں۔ حفظان صحت کی ناقص سہولیات کے باعث اس عرب ملک میں ہیضے کی وبا بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس ملک میں ہیضے کے مشتبہ مریضوں کی تعداد ساٹھے سات لاکھ سے زائد ہو چکی ہے۔ 2017 میں آلودہ پانی کی وجہ سے دو ہزار ایک سو 35 افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔
شام کی طرح یمن میں بھی قیام امن کی کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے ۔اقوام متحدہ کی متعدد کوششوں کے باوجود یمن بحران کا حل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ مسلسل ہونے والے حملوں سے تنگ آکر اب یہاں کی عوام بھی ہجرت پر مجبور ہوچکی ہے ،تیس لاکھ عوام ،سعودی عرب اور اطراف کے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہے ۔ سعودی عرب چاہتاہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ یمنی صدر منصور ہادی کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے۔2011 میں جو آئینی حکومت قائم ہوئی تھی اسے ہی برقرار رکھا جائے ۔دوسری طرف حوثی باغی کسی بین الاقوامی قوانین اور معاہدہ کا احترام کئے بغیر اپنی بغاوت پر اٹل ہے ،اقتدار کے جنون میں کعبہ اور سعودی عر ب پر بھی متعدد مرتبہ حوثیوں کی جانب سے میزائل داغا جاچکا ہے ۔
عبد الملک حوثی اور صالح صماد کی ہلاکت کے بعد بھی باغیوں کا حملہ شدت کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے ۔ حوثیوں کے پاس ہتھیار کہاں سے آرہے ہیں؟ کون ان کی مدد کررہا ہے؟ صرف ایران سے عسکری معاونت مل رہی ہے ؟ یا ماضی کی طرح آج بھی حوثیوں کے سر پر امریکہ کا ہاتھ ہے ؟ سعودی اتحاد اور محمد بن سلمان کو اس ضمن میں بھی سوچنے ، غور کرنے اور حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔
stqasmi@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں