خودی اپنی اپنی خدا اپنا اپنا

قاسم سید

کیا ایسا نہیں لگتا کہ ہم دھیرے دھیرے ایک بھیڑ اور بے ہنگم ہجوم میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں جس نے نفسانی خواہشات کو امام اور اختلافات کو رہنما بنا لیا ہے۔ بے مقصد زندگی نے بہت سے ناخداؤں اور طابع آزماؤں کو پیدا کردیا ہے۔ ہر کوئی اپنے نام کی نکیل ڈال کر ہانکنا چاہتا ہے۔ ملت واحدہ گروہوں میں بٹ کر مذاق کا موضوع بن گئی ہے۔ افسوسناک طور پر ماہ رمضان کا آغازبھی حسب دستور رویت ہلال میں اختلاف کے ساتھ ہوا گرچہ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کم وبیش ہر سال یہ اختلاف کبھی معمولی کبھی بڑے پیمانے پر سامنے آتا ہے۔ صرف راجدھانی میں دو کلومیٹر کے دائرے میں چار رویت ہلال کمیٹیاں کام کرتی ہیں لیکن ایک دوسرے سے رابطہ اور معلومات شیئر کرنے کا کوئی رواج نہیں ۔ ٹیکنالوجی کے جدید ترین دور میں اس تنازع کا مشترکہ حل تلاش نہ کرنا اپنے دعوے پر اصرار اور مریدوں کو عقیدتوں و مسلکوں کے دائرے میں قیدی بناکر رکھنا اس بات کا اظہار ہے کہ مجموعی طور پر نفس اور انانیت کی حکمرانی مضبوط ہوتی جارہی ہے۔ ایک کلمہ اور ایک کتاب کے ماننے والوں کا دھاگا کمزور ہو رہاہے۔ حد تو یہ ہے کہ پہلے مختلف مسالک قوت آزماتے تھے اب ایک ہی مسلک کے لوگ آپس میں طاقت آزمائی اور برتری کی لڑائی میں بازی لے جاناچاہتے ہیں۔ خودی کا علم و عرفان اس حد تک منکشف ہے کہ خود کے سوا کوئی بہتر اور ارفع نہیں لگتا اور انکساری کے ساتھ اس خلعت فاخرہ کو قبول کرلیتے ہیں۔ ذہنی سفاکیت کو ابھار دے کر ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنے سے دریغ نہیں کیاجاتا حتی کہ دینی جماعتوں کو تقسیم درتقسیم کے وائرس نے محفوظ نہیں چھوڑا۔ بادشاہت کی برقراری کے لئے ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد اور گھر کے اندر دیوار کھڑی کرنے کو عین دینی تقاضہ سمجھ کر انجام دیاجاتا ہے ۔ سیاسی پارٹیوں میں تو یہ وبا عام ہے لیکن دین کے نام پر تقسیم اور تشدد ناقابل فہم ہے۔ اسلام اپنے نام لیوائوں کے کرتوتوں کی وجہ سے بدنام ہو رہا ہے اور کیا جارہا ہے مگر ہمیں اس میں یہودیوں اور نصرانیوں کی سازش لگتی ہے۔ کوئی کسی کو بڑا سمجھنے اور خود کو چھوٹا ماننے کے لئے تیار نہیں۔ مریدین کے لئے ان کا ولی ہی سب سے افضل وبرتر ہے۔ سب کی اپنی مارکٹنگ ہے اور ان کے مارکیٹنگ منیجر پوری چابکدستی ومہارت کے ساتھ ہمارے حضرت کو سب سے بڑا خیر خواہ اور اکلوتا نجات دہندہ سمجھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ کئی دہائیوں سے شریعت بچائو دین بچائو‘ جمہوریت بچائو سیکولرازم بچائو‘ کانگریس کو لائو‘ بی جے پی کو ہرائو جیسی مہمات میں لگادیاگیا ہے۔ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان مہمات کے نتائج کیا رہے جن میں کثیر سرمایہ ‘کئی بار قیمتی جانیں اور کروڑوں گھنٹے جھونک دئیے گئے کیونکہ جمہوریت آج بھی خطرے میں ہے۔ سیکولرازم فرقہ واریت کی صلیب پر لٹکا ہوا ہے۔ شریعت اب بھی خطرے میں ہے۔ تشخص کے تحفظ کا مسئلہ پہلے سے زیادہ سنگین ہے بھارت کانگرس مکت ہوتاجارہا ہے اور بی جے پی کو ہرانے کے نعرہ کا یہ اثر یہ ہوا ہے کہ وہ بیس ریاستوں میں پیر جماچکی ہے کانگریس کے پاس صرف تین چھوٹے قلعہ رہ گئے ہیں وہ بھی لرز رہے ہیں۔ بی جےپی کو ہرانے اور سیکولر طاقتوں کو جتانے میں ساری توانائی کھپادینے کا انعام یہ ملا ہے کہ پرتگال‘ ہنگری سویڈن اور آسٹریلیا کی کل 4 کروڑ آباد ی والی ریاست اترپردیش میں اتنے ہی مسلمان آباد ہیں موجودہ لوک سبھا میں چار کروڑ لوگوں کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔ یہ اپنے آپ میں اتنہائی تشویش کی بات ہے لیکن حالیہ سیاست میں ہندوستان کے اندر مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کوئی ایشو نہیں ہے۔ گرچہ مدھیہ پردیش اور راجستھان جیسی ریاستیں بھی لوک سبھا میں کوئی مسلم نمائندہ دینے میں ناکام رہی ہیں لیکن اترپردیش کوقومی سیاست میں مرکزیت حاصل ہے۔ دہلی کار استہ یہیں سے ہوکر گذرتا ہے حیرت ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے لئے یہ کوئی ایشو ہی نہیں ہے اور مسلمانوں کے نام پر سیاست کرنے والوں نے اس کو ایشو بنانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ 2019 کے عام انتخابات سرپر ہیں اور کسی کونے پر کوئی بھی پارٹی مسلمانوں کے ووٹ لینے کے علاوہ ان کے ایشو پر بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتی۔ بی جے پی کو ہرانے اور ٹیکٹیکل ووٹنگ کا عبرتناک انجام یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی اور بیس ریاستوں میں برسراقتدار پارٹی کو دشمن نمبر ایک کی جگہ دے دی اور پھر اس سے خیر و عافیت کی امید بھی رکھی۔ جب زندگی میں ہم اپنے مخالف کو زک پہنچانے اسے کمزور کرنے اور فنا کردینے کی حسرت رکھتے ہیں تو سیاسی اقتدار کے میدان میں کسی رعایت کی امید کرنا سادہ لوحی کہی جائے گی۔ بی جے پی کی ہندوتو کی سیاست نے مسلمانوں کے ووٹ اورشخصیت کو بے معنی اور بے اثر بنادیا۔ جمہوری انتخابات میں ایسا ماحول بنادیا گیا کہ 80 فیصد کا مقابلہ 14 سے ہوگا اور یہ 14فیصد بھی ملک کے لئے خطرہ ہے۔ اس خطرہ سے نمٹنے کے لئے 80 فیصد کو ہزیانی کیفیت میں مبتلا کردیاگیا ہے۔ ان سے ہزار سال کی غلامی کا انتقام لینے کا اس سے بہتر موقع ہی نہیں ہے۔ کانگریس راج میں مسلمانوں کو جو ملا بی جے پی اسے چاپلوسی سمجھتی ہے لیکن سچر کمیٹی رپورٹ کی روشی میں یہ سوال کیاجاسکتا ہے کہ کیا واقعی کانگریس راج میں مسلمانوں کو کچھ ملا ان کی موجودہ حالت 4 سال کا نتیجہ تو نہیں ہے۔ دہائیوں سے آزمائی گئی سیاسی چالبازیوں اور نظرانداز کئے جانے کا عملی اظہار ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی نے چالاکی کے ساتھ اپنی انتخابی ضرورت کے تحت اتنا مجبور کردیا ہے کہ کانگریس سمیت سبھی اہم پارٹیاں مسلمانوں سےخاص طرح کی دوری بناکر چل رہی ہیں اور شاید آگے بھی ایسا ہوگا۔ راہل گاندھی سمیت جب عوام کے مسائل کی بات کرتے ہیں تو مسلمان لفظ سے گریز کرکے اقلیتیں کہہ کر کام چلاتے ہیں۔ یہ لوگ اس وقت مسلمانوں کو چمٹے سے بھی چھونا پسند نہیں کرتے۔ سماجی معاشی تعلیمی اور سیاسی ایشو جن کے مرکز میں مسلمان ہیں وہ حاشیے پر ہیں۔ صرف ان کی دیش بھکتی موضوع بحث ہے۔ نمائندگی میں کمی کا مسئلہ صرف پارلیمانی اداروں میں ہی نہیں ہے۔ بلکہ کارپوریٹ سرکاری نوکری اور پروفیشنل کیریئر میں بھی ہے۔ ملک میںلگ بھگ 17کروڑ مسلمان ہیں پوری دنیا میں اسلامی فوبیا کا زور ہے مسلمان ہوناہی گناہ کی طرح دیکھا جارہا ہے۔ ان حالات میں کروڑوں کی آبادی کوجو ملک کی سب سے بڑی اقلیت یا دوسری بڑی اکثریت ہے۔ متوازن ڈھنگ سے ایجنڈے پر لانے کی ضرورت اور زیادہ محسوس کی جانی چاہئے ۔ دلتوں کی صورت حال کو مسلمانوں سے جوڑ کر نہیں دیکھنا چاہئے کیونکہ دلت 80 فیصد ہند و آبادی کا حصہ ہیں۔ بھلے ہی ان کو شودر‘ اچھوت سمجھا جاتا ہو سماجی حیثیت میں سب سے نچلے پائیدان پر ہوں۔ مگر آئینی مراعات نے ان کو شیلٹر فراہم کردیا ہے جس کو چھینا نہیں جاسکتا۔ مسلمانوں کی طرح ان کے بغیر اقتدار کا حصول ممکن نہیں۔ اس لئے دلت ووٹوں پر مارا ماری ہورہی ہے۔ سماجی انصاف کے معاملہ میں دلتوں سے مسلمانوں کا اشتراک ممکن ہے اور اس پہلو سے سوچنا چاہئے کہ کیادلت اور مسلم قیادت ایک دورے کے ساتھ بیٹھنے اور حقوق کی بازیابی کے لئے مشترکہ جدوجہد کا کوئی روڈ میپ تیار کرسکتے ہیں؟ سورن سماج برابر میں بیٹھا سکتا ہے لیکن اقتدار میں شراکت پر مفاہمت کے لئے تیار نہیں ہے۔ وہ دلتوں کے تعلق سے بھی تحفظات رکھتا ہے اور ایک حد سے آگے سر اٹھا نے کی اجازت نہیں دیتا وہ گھوڑی پر بیٹھے مونچھیں رکھنے اور نام کے آگے سنگھ لگالے تو جان سے چلا جاتا ہے۔
تو سوال یہ ہے کہ بدلتے سیاسی ماحول میں حکمت عملی بدلنے کی ضرورت ہے یالکیر کے فقیر بن کر جو بی جے پی کو ہراسکے اس کو جتاؤ کی خود کش پالیسی پر ہی اندھا بن کر چلا جائے۔ کیا یہ جائزہ لینے کا وقت نہیں آیا کہ گذشتہ کئی دہائی سے اپنائی گئی اس پالیسی کا حاصل کیا رہا۔ اترپردیش جیسی بڑی ریاست میں مسلمانوں کی صفر نمائندگی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں۔ کیا سیکولر پارٹیوں کی دم پکڑنے میں ہی عافیت اور دین و دنیا کی بھلائی ہے۔ کیا ان کی اندھی حمایت عقیدہ کا جزو ہے۔ کیا پیدائشی کانگریسی کہلانا فخر کی بات ہے ہمیں یہ تو سوچنا ہوگا کہ بی جے پی اور سیکولر پارٹیوں میں فرق کیا ہے اورکیوں دونوں نے دھتکار دیاہے۔ پہلو میں کھڑا کرنے سے بھی ڈرتے اور بچتے ہیں ایسے میں کچھ لوگوں کے چند لمحوں کے لئے وزیراعظم کی رفاقت مل جاتی ہے تو ان کے درجات بلند ہوجاتے ہیں اور انگریزی اخبارات میں تعریفوں کے پل باندھنے لگتے ہیں۔ اس سیاسی عدم پختگی اور ذاتی ترجیحات کے ساتھ نفرت وبیزاری اور اچھوت بناکر رکھنے کی پالیسی کا مقابلہ بھی نہیں کیاجاسکتا۔ بہرحال ہمیں غور کرنا چاہئے کہ کیا جے ڈی ایس کی طرز پر علاقائی سطح پر چھوٹے سیاسی گروپ بنائے جائیں اور ہر ریاست سے دو چار نمائندے منتخب کرائے جائیں ۔2019 کے بعد مخلوط سرکار کے مکمل امکانات ہیں اس میں ہر رکن کی غیر معمولی اہمیت ہوگی جیسا کہ کرناٹک میں دیکھا گیا کہ بی جے پی صرف سات ارکان نہ ہونے سے سرکار نہیں بناسکی۔ یہ شرم کا مقام ہے کہ 17کروڑ کی آبادی کو بے حیثیت اوربے اثر بنادیا جائے۔ ہر طرح کے سیاسی خدا آزما لئے گئے ہر آستانے پر حاضری لگائی ہوسکتا ہے کچھ لوگوں کے ذاتی معاملات حل ہوگئے ہوں۔ لیکن 17کروڑ کے دونوں ہاتھ خالی ہیں لڑائی آئین کے تحفظ کی ہے یہ محفوظ ہے تو سب کچھ بچا رہے گا ہمیں اس لڑائی میں اپنا وزن بنانا چاہئے۔ ذاتی مراعات کی کشش چھوڑ کر اجتماعی مراعات کی فکر کرنی ہوگی وقت الگ سیاسی تجربہ کا متقاضی ہے بے جا خودی ریاست اور اپنے اپنے سیاسی خدائوں سے بیزاری کا اعلان کرکے کئی سمت سفر کرنے کی سوچے۔ سیاست میں کوئی رشتہ داری نہیں ہوتی نہ دوست مستقل ہوتا ہے نہ دشمن کیا یہ فارمولا ہمارے لئے نہیں ہے کیا ہم اپنے دوست اور دشمن خودطے نہیں کریں گے؟

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں