آئیے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں

Ehteshamul Haqاحتشام الحق آفاقی
ملک کا منظر نامہ جو بن رہا ہے ، وہ ملک کے مفاد میں نہیں ہے ، یہ بات کسی کے عقل و فہم سے دور نہیں ہے ، گزشتہ چند سالوں سے ہمارے ملک کا المیہ یہ رہا ہے کہ ، یہاں کی سیاست کا رخ غیر ضروری امور اور معاملات پر ہنگامہ کرنے اور پارلیمنٹ و اسمبلی کے وقت کو برباد کرنے کی طرف زیادہ رہا ہے اور ملکی معاملات کی طرف کم ، یہاں بے روزگاری ہے ، عدم رواداری ، فسادات ہیں ، اقتصادی بدحالی ہے ، معاشی بحران ہے ، رشوت خوری ہے ، ظلم ہے ،کمزوری کا جینا دوبھر ہے ، ہریجنوں کو برہمنوں کی طرف سے استحصال کا سامنا ہے ، اقلیتیں پریشان ہیں ، خارجہ پالیسی عدم استحکام کا شکار ہے ، تعلیمی پالیسی میں بھگوا رنگ ڈالنے کی جد جہد جاری ہے ۔ جن لوگوں کے ذریعہ یہ سب ہورہا ہے ، ان سے آپ بخوبی واقف ہیں ، ان کے بارے میں کو ئی گفتگو کرنا بیکار ہے ، لیکن دوسری پارٹیاں اور دوسری پارٹیوں سے منسلک ہمارے سیاسی قائدین کیا کررہے ہیں یہ موضوعات یا تو پالیمنٹ اور اسمبلیوں میں اٹھائے نہیں جاتے ہیں اور اگر کسی نے اٹھا بھی دیا تو اس کی توہین ہو جاتی ہے، ان اہم موضوعات کے بجائے آجکل ایوان میں نعروں پر بحث ہو رہی ہے ، ملک کی بربادی کی فکر کسی کو نہیں ہیاور تمام مذاہب کے علمبرداروں سے ہم یوں بھی شکوہ سنج ہیں کہ ملک فحاشی اخلاقی گراوٹ اور اخلاقی قدروں کے حد درجہ پامالی سے آگیبڑھ کر غیر اخلاقی ہی نہیں بلکہ غیر فطری اعمال تک کہ مرتکب ہورہے ہیں ، اس ملک میں انسانی خون ارزاں ہے ، انسانی عصمت و عفت ارزاں ہے، انسانی جانیں ارزاں ہے ، یہاں مال متاع کا بے کار اور بے محل اور نامعقول جگہوں پر استعمال ہونا عام ہے ، ہر کچھ نہ کچھ دن بعد کسی نہ کسی ترکیب سے ملک میں کوئی نہ کوئی اعلان کیا جاتا ہے اور یہ اعلان مختلف وزیروں اور تنظیموں کے سربراہوں کے ذریعہ کروایا جاتا ہے ، یہاں تک کہ جب کسی کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ گیتا کو قومی کتاب قرار دیا جائے تو ہماری وزیر خارجہ فرماتی ہے ملک کے وزیر اعظم نے جب صدر امریکہ کو تحفہ کے طور پر گیتا پیش کردیا تو گویاکہ انھوں نے یہ اعلان کردیا کہ گیتا قومی کتاب ہے ۔دوسری طرف تصویر کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ،یہاں کہ عوام نے اتنے دھوکہ کھائے اور زخم اٹھائے ہیں کہ اس کے اندر شر کے کارندوں اور خیر کے نمائندوں کو پہچاننے اور ان میں تمیز کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی ہے ، اس ملک میں زخم خوردہ عوام کا شعور جاگا ضرور ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ عوام کے شعور کی بیداری بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے ،اس تعلق سے مولانا علی میاں ندویؒ فرمایا کرتے تھے اس صورت حال میں مسلمانوں سے صاف صاف کہا جاتا ہے کہ مسلمان اپنی رضا و رغبت سے اپنی جداگانہ تہذیب اور ہر اس چیز سے بے تعلقی اختیار کر لیں ، جوان میں ایک الگ ملت اور الگ تہذیب کا وارث ہونے کا احساس پیدا کرتی ہے ، مسلمان خود یہ اعلان کریں کہ ہم کسی جداگانہ تہذیب کے حامل نہیں ہے۔ ہم اوروں کو چھوڑ کر خود اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اس کو بروئے کار لانے کی کوشش میں لگ جائیں یا تو ہم دین کو کرسی والوں تک پہونچائیں یا پھر دیندار کو کرسی تک ویسے بھی ہمارا کام دنیا میں حکومت کرنا نہیں ہے بلکہ د نیا میں امن و سلامتی قائم کرنا ہے ،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے زمین پر فسادی بن کر مت رہو،ان حالات میں ضروری ہے کہ ہم بلا تفریق مذہب وملت متحد ہوکر اٹھ کھڑے ہوں اور انسانیت کو بچانے اور اس کے پیغام کو دور دور تک پہونچانے کے کام کو اپنے تمام دیگر کاموں پر ترجیح دیں ، ملک میں کانٹے بکھیڑنے والے کانٹے بکھیڑتے رہیں گے اور ہم ان کے جواب میں پھول بچھاتے رہیں گے، فرض کر لیجئے کہ اگر دنیا کے اندر صرف کانٹے بکھیڑنے والے ہوں اور ان کے جواب میں پھول نہ بچھایا جائیں تو دنیا کا کیا حشر ہوگا۔(ملت ٹائمز)

SHARE