اگر آئین کی پاسداری کا مزاج ختم ہوگیا تو جمہوریت مطلق العنانیت میں تبدیل ہوجائے گی ، عوام اپنی آنکھیں کھلی رکھے: پروفیسر فیضان مصطفی

پٹنہ : (ملت ٹائمز) مشہور ماہر قانون اور نالسار ( نیشنل اکیڈمی آف لیگل اسٹڈیز اینڈ ریسرچ) یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فیضان مصطفےٰ نے کہا کہ آج جس آئین پر خطرے کی بات کی جارہی ہے وہ دراصل آئین پر نہیں بلکہ آئین کی پاسداری پر خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین ایک دستور یا معاہدہ ہے جس کا ہمارے پاس ہونا فخر کی بات نہیں ہے۔کسی بھی ملک و قوم کے لیے فخرکی بات آئین کی پاسداری کا مزاج ہے۔ آئین خطرے میں نہیں بلکہ آئین کی پاسداری خطرے میں ہے۔ڈاکٹر فیضان مصطفے ٰ بدھ کویہاں بہار کلیکٹیو کے زیر اہتمام سلسلہ وار پروگرام ’گفتگو‘ میں خطاب کر رہے تھے۔یہ پروگرام اس بار مشہور ماہرقانون جسٹس راجندر سچر سے منسوب تھا جن کا اسی سال انتقال ہواہے۔ڈاکٹر فیضان مصطفی نے کہا کہ آئین کا نفاذ صحیح طور پر ہوتو آئین کو کوئی خطرہ نہیں۔آئین کی پاسداری کے لئے شہریوں کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔ آج جمہوریت کو خطرہ جمہوریت اور بیلٹ سے ہے۔ عام شہریوں کے حقوق کی پامالی کا خطرہ سب سے زیادہ حکومت سے ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت اپنے دائرہ اختیار سے باہر جاکر شہریوں کے حقوق کی پامالی کرتی ہے۔ اس لئے عوام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کو قابو میں رکھیں اور حکومت کو عوام کے حقو ق کی پامالی سے روکیں۔انہوں نے کہا کہ ہٹلر ،کرنل قذاقی اور صدام حسین کے پاس بھی اپنا دستور تھا۔ فاشزم ڈھول بجاتا ہوا نہیں آتا ، اس کے لئے وہاں کے عوام کو نظر رکھنا پڑتا ہے کہ حکومت ان کے حقوق کی پامالی نہ کر سکے۔ فاشسٹ حکومتیں عوام پر اپنے شکنجے کسنے لگتی ہے اور ان پر دھیرے دھیرے قدغن لگانے لگ جاتی ہے اور عوام کو اس کی خبر بہت دیر بعد ہوتی ہے۔ اس لئے جمہوریت کے لئے آئین کی پاسداری کا مزاج ہونا لازم ہے، ورنہ جمہوریت مطلق العنانیت میں تبدیل ہوجاتی ہے اور ہمیں اس کا احسا س بھی نہیں ہوتا۔ ملک کے موجودہ حالات میں عوام کو اپنے حقوق کے تئیں زیادہ بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔آئین کی پاسداری کے لئے یہ ضروری ہے کہ حکومت اور سیاسی پارٹیوں کے دائرہ اختیار پر نظر رکھی جائے اور اس کی گیٹ کیپنگ کی جائے تاکہ وہ اپنے اختیارات اور دائرہ کار سے باہر جاکر کام نہ کرے۔ انہوں نے اس بات پر اظہار افسو س کیاکہ ہندوستان اوردنیا کے کئی دوسرے ملکوںمیں عوام کے حقو ق کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جارہی ہے جبکہ حکومتوں کو یہ اختیار ہی نہیں کہ وہ عوام کے حقوق کو پامال کرنے کا قانون بنائیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آرڈیننس جنگ یا دیگر ہنگامی حالات میں پاس کئے جاتے ہیں جبکہ ہماری حکومتیں ایک ہی بار کئی کئی آرڈیننس لاکر قانون اور آئین کی دھجیاں اڑا رہی ہیںجو جمہوریت کا کھلا مذاق ہے۔ نریندر مودی نے گجرات میں وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے کئی کئی آرڈیننس پاس کرائے جبکہ ہریانہ حکومت نے بھی گزشتہ دنوں میں اتنی کم مدت میں کئی آرڈیننس پاس کر دئے جو جمہوریت اورآئین کے بالکل خلاف ہے۔انہوں نے کہا کہ دو سیشن کے درمیان ۶ ماہ سے زیادہ کا وقفہ نہیں ہونا چاہئے جبکہ اسمبلی اور پارلیمنٹ کا زیادہ تر وقت ہنگامہ کی نذر ہو جاتاہےاور سیشن کے بعد حکومت آرڈیننس پاس کر اکے لوگوں پر اپنے قوانین تھوپنے کی کوشش کرتی ہے۔ ڈاکٹر مصطفےٰ نے کہا کہ جمہوریت میں انتہاپسندی اور دائرہ کار کا خطرہ بنا رہتاہے مگر حکومت اس کا غلط استعمال بھی کرتی ہے۔ ہمیں یہ ذہن نشیں کرلینا چاہئے کہ جمہوریت میں کسی کے پاس مطلق العنان اقتدار نہیں ہوتا۔ اس لئے حکومت پر قدغن لگانے کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے۔ عدلیہ اپنی مرضی سے فیصلے نہیں کر سکتی۔ اس کے باوجود عدالتیں ہمیشہ صحیح فیصلے نہیں کرتیں۔ انہوں نے کہا کہ ’کثرت میں وحدت‘ ہمارے ملک کی سب سے خوبصورت چیز ہے جسے قائم رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے حکومت سے بھی ہمیں مطالبہ کرنا چاہئے کہ وہ پالیسیاں وضع کرتے وقت اسے برقرار رکھے اور دستور کے معاہدے کو وہ توڑ نہ سکے۔انہوں نے کہا کہ جسٹس سچر کو سچی خراج عقیدت بھی یہی ہوگی کہ ہم آئین کی پاسداری کے لئے ہر ممکن کوشش کریں اورآئین کا معاہدہ توڑنے سے حکومت کو روک سکیں۔پروگرام کی نظامت کرتے ہوئے بی بی سی کے نمائند ہ اقبال احمد نے کہاکہ سچر کمیٹی کی رپورٹ صرف مسلمانوں کی رپورٹ نہیں بلکہ اسے اکثریت فرقے کے افراد کو بھی پڑھنے کی سخت ضرورت ہے۔ اس پروگرام میں بہار قانون ساز اسمبلی کے سابق اسپیکر ادئے نارائن چودھری، معروف سرجن ڈاکٹر احمد عبد الحئی ، سابق ایم ایل ڈاکٹر اظہار احمد، ارشد اجمل،روپیش کمار، سنجئے بالمیکی ، احتشام کٹونوی، ایم ٹی خاں، انوارالہدیٰ، ابرار رضا، آفاق احمد، افتخار احمد، عبید الرحمٰن، فہیم احمد، نوشاد انصاری، باری اعظمی، پرویز حسن، شاعر احمد، محسن پرویز، بھٹو بھائی ، ڈاکٹر ایس حق، ڈاکٹر طارق اشرف، روبی قادری، کاشف رضا، محمد انور، عارف باری،منصور عالم، زینب خان، انوگرہ تھومس کے علاوہ کثیر تعداد میں شرکا موجود تھے۔ اس موقع پر تمام حاضرین کو سوئیاں پیش کی گئیں اور ڈاکٹر فیضان مصطفیٰ کو شال پیش کیا گیا۔