امریکی اور روسی صدور 16 جولائی کو ہیلسنکی میں ملاقات کر رہے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے میوڈراگ سوریچ جانتے ہیں کہ اس ملاقات میں فتح کس کی ہو گی۔
سوال یہ ہے کہ اس ملاقات میں ڈونلڈ ٹرمپ کیا کچھ حاصل کر پائیں گے؟ جواب ہے، زیادہ نہیں۔ روس کریمیا کے علاقے سے اپنی فوج نکالنے کو تیار نہیں ہے۔ اس کے علاوہ وہ مشرقی یوکرائن میں باغیوں کی امداد بھی جاری رکھے گا اور اسی طرح روسی فوج شام میں بشارالاسد اور ایرانی فورسز کو بھی مدد فراہم کرتی رہیں گی۔ اس ملاقات میں ٹرمپ کے پاس کچھ زیادہ حاصل کرنے کو نہیں ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن پوری شد و مد سے ’سب سے پہلے روس‘ کی پالیسی پر کام کر رہے ہیں۔
دوسری جانب پوٹن اس ملاقات سے بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔ جب وہ ٹرمپ کے ساتھ بیٹھ کر بین الاقوامی امور پر بات کریں گے، تو ٹی وی کے ذریعے دنیا بھر میں پیغام یہ جائے گا کہ دو رہنما برابری کے بنیاد پر بات چیت میں مصروف ہیں۔ اس اجلاس کا کوئی نتیجہ نکلے یا نہ نکلے، مگر پوٹن اس ملاقات کو ’پوائنٹ اسکورنگ‘ کے لیےاستعمال کریں گے۔یہ ملاقات کر کے پوٹن مغرب کے درمیان تقسیم کو بھی وسعت دے رہے ہیں۔ برطانیہ میں ایک سابقہ روسی جاسوس اسکرپل اور ان کی بیٹی پر کیمیائی حملے کے تناظر میں لندن حکومت کی کوشش تھی کہ روس کو تنہا کیا جائے، تاہم یہ ملاقات یہ پیغام بھی دے رہی ہے کہ برطانیہ کی یہ خواپش فقط خواہش ہی رہی۔
یوکرائن کو شکایت ہے کہ مغرب نے اسے تنہا چھوڑ دیا۔ اس معاملے میں فقط امریکا کی جانب سے کییف حکومت کی حمایت کے لیے روس کے خلاف سخت زبان کا استعمال کیا گیا، تاہم اس حوالے سے کییف کی کوئی خاص عملی مدد دکھائی نہیں دیتی۔ پوٹن یوکرائن کے معاملے میں کوئی نرم رویہ دکھا سکتے ہیں، تاہم اس کے بدلے میں وہ امریکا سے کہیں گے کہ وہ وہ روس اور جرمنی کے درمیان بالٹک خطے کے ذریعے بچھائی جانے والی گیس پائپ لائن کی مخالفت ختم کرے۔
پوٹن 1975ء میں سابق سوویت یونین کی خفیہ سروس کے جی بی میں شامل ہوئے۔ 1980ئ کے عشرے میں ا±ن کی پہلی غیر ملکی تعیناتی کمیونسٹ مشرقی جرمنی کے شہر ڈریسڈن میں ہوئی۔ دیوارِ برلن کے خاتمے کے بعد پوٹن روس لوٹ گئے اور صدر بورس یلسن کی حکومت کا حصہ بنے۔ یلسن نے جب ا±نہیں اپنا جانشین بنانے کا اعلان کیا تو ا±ن کے لیے ملکی وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو گئی۔
کسی بھی صورت میں روس کے خلاف امریکی پابندیاں جاری رہیں گی۔ سوال یہ ہے کہ پھر ڈونلڈ ٹرمپ پوٹن سے مل کیوں رہے ہیں؟ ایک طرف تو ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں کیے گئے تمام وعدے پورے کرنا چاہتے ہیں۔ انتخابی مہم میں ٹرمپ نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ روس کے ساتھ امن قائم کریں گے۔شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ا±ن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان سنگاپور میں ملاقات میں طے کردہ امور پر اب تک پیونگ یانگ کی جانب سے کوئی خاص عملی پیش رفت نہیں دیکھی گئی ہے، تاہم کم از کم ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی عوام کے سامنے اسے ایک تاریخی اور کامیاب اجلاس کے بہ طور پیش کیا۔(بشکریہ ڈی ڈبلیو)