افغانستان : بدلتا ہوا منظرنامہ اور ظلم و استبداد کی صورت حال

عمیر کوٹی ندوی
افغانستان ویسے تو ایک طویل عرصہ سے ایک خاص قسم کی سیاست کا مرکز توجہ بنا ہوا ہے اور بڑی طاقتیں اپنے تسلط اور فائدے کے لئے اس کا استعمال کرنے کی کوششیں کرتی رہی ہیں۔عالمی طاقتوں کی ان کوششوں کی وجہ سے اس ملک کو بڑے پیمانے پر انسانی جرائم کا سامنا کرنا پڑا۔ آج بھی یہاں بمباریوں، بچوں، خواتین اور نہتے عوام کے قتل عام اور ان پر تشدد کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ یہ سب کچھ روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ لیکن اس ملک میں جو ہوا اور آج بھی جو ہورہا ہے وہ سب امن وامان کے قیام ، منشیات کے خاتمہ اور انسانی حقوق کے تحفظ کے نام پر اور اس کے سب سے بڑے دعویدار کی طرف سے ہو رہا ہے۔ ہر روز یہاں کی سرزمین عام شہریوں کے خون سے رنگی جاتی ہے۔ افغانستان کے شمالی صوبے قندوز میں ایک مدرسے پر فضائی حملے کے واقعہ کو زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں جس میں 150سے زائد کم سن طالب علم ہلاک ہوگئے تھے۔ ان میں اکثریت ان طلباء کی تھی جنہوں نے کلام مجید کا حفظ مکمل کیا تھا اور مدرسہ کے پروگرام میں انہیں سند فراغت دی جارہی تھی۔ حملہ کے فورا بعد اس مدرسہ پر حملہ اور کم سن طالب علموں کی ہلاکت کے تعلق سے افغان وزارت دفاع کی طرف سےیہ کہہ کر دوسرا رخ دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ یہ حملہ طالبان کے ایک تربیتی مرکز پر کیا گیااوراس میں طالبان عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔لیکن کم سن طالب علموں کی ہلاکت کی بات کے سامنے آجانے پر دنیا نے کھل کر کے اس کی مذمت کی تھی۔
یہ باتیں وہ کڑیاں ہیں جن کا حال سے بھی گہرا تعلق ہے اور اس طرح کے واقعات کا ایک خاص مقصد ہے۔ وائس آف امریکہ نے امریکی عہدے داروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ “افغانستان کی صورت حال میں بہتری نہ آنے کی وجہ سے صدر ٹرمپ کی مایوسی بڑھ رہی ہے۔ پچھلے سال اگست میں انہوں نے اپنی افغانستان حکمت عملی کے تحت شورش زدہ ملک میں مزید فوجی مشیروں، تربیت کاروں اور اسپشل فورسز کے اہل کاروں کی تعداد بڑھائی تھی اور عسکریت پسندوں کے خلاف فضائی کارروائیوں کے دائرے میں اضافہ کر دیا تھا تاکہ طالبان کو کابل کی حکومت کے ساتھ مذاكرات کی میز پر لانے پر مجبور کیا جا سکے”۔ اس کے پس پردہ مقصد کو سمجھنے کے لئے اسرائیلی ریزرو فوج کے جنرل ‘زویکا فوگل’ کی اس بات پر نظر ڈالنا ضروری ہے جو انہوں نے ایک اسرائیلی ریڈیو کو دئے گئے اپنے انٹرویو میں کہی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ “فوجی اہلکار فلسطینی نوجوانوں اور بچوں میں فرق کرسکتے ہیں مگر انہیں ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ دانستہ فلسطینی بچوں کو گولیوں کا نشانہ بنائیں تاکہ فلسطینیوں میں زیادہ سے زیادہ خوف وہراس پھیلایا جاسکے”۔لوگوں میں ‘زیادہ خوف وہراس پھیلانا ‘اور انہیں اپنی بات کو منوانے کے لئے’ مجبور’ کرنا عالمی طاقتوں کا بنیادی کام ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کے رشتے کسی سے مخفی نہیں ہیں اور ان کے فکر وعمل میں اشتراک کے نتیجہ میں رونماواقعات واقدامات پوری دنیا میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ لوگوں میں ‘زیادہ خوف وہراس پھیلانے’اور انہیں اپنی بات کو منوانے کے لئے’ مجبور’ کرنے کا عمل افغانستان میں دیکھا جاسکتا ہے۔
اس وقت افغانستان میں جو صورت حال ہے وہ خود وائس آف امریکہ کے الفاظ میں یہ ہے کہ”نئی حکمت عملی کے تقریباً ایک سال کے بعد افغانستان کی صورت حال جوں کی توں ہے جس کی قیمت عوام کو اپنی جانوں کے بھاری نذرانے کے ساتھ ادا کرنی پڑ رہی ہے۔رپورٹس کے مطابق ملک کے دیہی علاقوں میں طالبان کا کنٹرول اور اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے”۔ اس صورت حال سے امریکہ اور اس کے ہم نوا اور زیر اثر ممالک کا پریشان ہوجانا فطری بات ہے۔ اگر وہاں کی موجودہ صورت حال بدستور باقی رہی اور اس میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا تو پھر یقیناً اس سے امریکی مفادات کے متاثر ہونے کے اندیشے میں اضافہ ہوجائے گا۔ منشیات ایک بڑا مسئلہ ہے اور افغانستان پر امریکی حملہ میں اسے بھی بڑا ایشو بنایا گیا تھا۔ اس وقت بھی طالبان کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ وہ منشیات کے کاروبار میں ملوث ہیں۔ افغانستان میں امریکی جنرل جان نیکولسن نے 20؍ نومبر 2017 ء کو پریس کانفرنس کے دوران کہا ہےکہ “ان کی کوشش یہ ہے کہ مسلح طالبان کی منشیات کی روک تھام کریں”۔ افغانستان میں اس وقت جاری جنگ کو منشیات کی جنگ قرار دیا جارہا ہے۔ اگر ان دعووں کا میڈیا اور رپورٹوں کے اعداد وشمار کی بنیاد پر جائزہ لیا جائے تو بھی یہ غلط ثابت ہوتے ہیں ۔ویکیپیڈیا میں افغانستان کے تعلق سے موجود مواد میں طالبان حکومت کے بارے میں صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ 2000ء تک طالبان نے افغانستان کے پچانوے فی صد علاقے پر قبضہ کرلیا تھا اور ” اس زمانے میں افغانستان میں نسبتاً امن قائم رہا اور پوست کی کاشت بھی نہ ہوئی”۔ یعنی ان کے دوراقتدار میں منشیات کی کاشت صفر تک جاپہنچی تھی۔ جب کہ اس وقت کی صورت حال یہ ہے کہ موجودہ اعداد وشمار کے مطابق منشیات کے عادی افراد کی تعداد ملک کی آبادی کے دس فیصد تک جاپہنچی ہے۔اس علاوہ منشیات کو افغانستان سے باہر بھیجا جاتا ہے۔ یورپ اور امریکہ کی منڈیوں میں منشیات سونے کی قیمت پر فروخت ہوتی ہیں اور ان مارکیٹوں کا کنٹرول افغانوں کے ہاتھوں میں نہیں ہے۔
افغانستان کی سیاسی اور تجارتی صورت حال بدل رہی ہے اور طاقت کا توازن بہت تیزی سے تبدیل ہورہا ہے۔ اس کا احساس سب سے زیادہ امریکہ کو ہورہا ہے۔ وائس آف امریکہ کے مطابق “امریکی حکومت افغانستان میں اپنی حکمت عملی کا جائزہ لینے پر غور کر رہی ہے…… صدر ٹرمپ کی مایوسی بڑھ رہی ہے”۔ اس سلسلہ میں ایک امریکی نگراں ادارے کی حالیہ رپورٹ کا بھی ذکر کیا جارہا ہے جس میں کہا گیاہے کہ افغان حکومت کے کنٹرول اور دائرہ اثر میں ملک کا صرف 56 فیصد علاقہ ہے جب کہ باقی ماندہ حصوں پر طالبان قابض ہیں یا ان کا اثر ہے۔ اس صورت حال پر تشویش ناقابل فہم نہیں ہے۔ افغانستان میں امن و استحکام کیلئے علماءکانفرنس بھی بظاہر اسی کا حصہ معلوم ہورہی ہے۔ دوروزہ(10-11؍جولائی) کانفرنس کا افتتاحی اجلاس جدہ میں اور اختتامی اجلاس مکہ مکرمہ میں منعقد ہوا۔اس میں کہا گیا کہ افغانستان میں امن واستحکام سے خادم حرمین شریفین کی دلچسپی غیر معمولی ہے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے افغانستان میں امن و استحکام کے لئے مسلم علماءکی کانفرنس کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ حضرات اسلام اور اسکے پیرو کاروں کے بہترین خدمت گار ہیں۔ اہل اسلام کے درمیان اتحاد ، پراگندہ شیرازہ جمع کرنے، مسلم دنیا میں ہونے والی جنگوں اور بحرانوں کے خاتمے، دہشتگردی او رانتہا پسندی جیسی آفتوں سے اسلامی دنیا کو نجات دلانے میں آپ کا کردار غیر معمولی ہے۔
افغا ن علماءکونسل کے سربراہ کاشفی نے اپنے خطاب میں کہا ہےکہ افغان صدر نے قومی مصلحت کے پیش نظر مستقل بنیادوں پر قیام امن کےلئے کوشش کرتے ہوئے عوام کی آراءکے مطابق نکات تشکیل دے کر طالبان کو صلح کا پیغام بھیجا جسے افغان عوام ، او آئی سی ممالک اور اسلامی دنیا کے علاوہ بین الاقوامی کمیونٹی نے بھی بے حد سراہاہے۔ مصالحتی پیغام میں طالبان کو مذاکرات کی دعوت دی گئی تھی تاکہ میز پر جمع ہو کر مسئلے کا حل تلاش کیاجائے۔ افغانستان میں قیام امن کا مطالبہ عوامی منصوبے کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کےلئے علماء متفقہ طور پر اس منصوبے پر عمل پیرا ہیں ۔ اس ضمن میں سہ فریقی علماءکا اجلاس انڈونیشیا میں بھی منعقد ہو چکا ہے جس میں افغانی ، پاکستانی اور انڈونیشی علما شامل تھے ۔ علماءکانفرنس میں یہ بھی کہا گیا کہ علماء بغاوت اور فتنہ کے احکام بیان کریں۔ یہ بھی کہا گیا کہ علماء کا فرض ہے کہ وہ حقائق سے آگاہ کریں ، تفرقہ سے بچنے پر زور دیں اور والیان ریاست کیخلاف بغاوت کے باعث پیدا ہونےو الے فتنہ کی بابت اسلامی شریعت کے احکام بیان کریں۔ اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ ایک حکومت کا فرضی الزامات کی بنیاد پر خاتمہ کس زمرے میں آتا ہے ، بے قصور عوام پر ظلم وجور کے کیا معنی ہیں اور منشیات کی تجارت کو کیا نام دیا جائے گا۔یہ تمام تفصیلات اس بات کی چغلی کھارہی ہیں کہ پس پردہ ان کے تارکہیں نہ کہیں آپس میں جڑ رہے ہیں اور افغانستان کی سیاست میں جاری تبدیلی سے یہ سب کے سب خوف زدہ ہیں۔