ہجومی تشدد کے خلاف سپریم کورٹ کا فیصلہ !

ہجومی تشدد کے خلاف آئین سازی کا فیصلہ بیحد اہم ہے لیکن کیا بی جے پی اس آئین پر عمل بھی کرے گی ؟۔قانون کے مطابق انتہاءپسندوں اور گﺅ رکشکوں کو سزا دلائے گی ؟۔مجرموں کی حمایت کرنے اور استقبالیہ دینے والے وزراءکے خلاف کاروائی کرے گی ؟حقیقت یہ ہے کہ خود وزیر اعظم نریندر مودی بھی اس حوالے سے سنجیدہ نہیں ہیں
خبر درخبر(563)
شمس تبریز قاسمی
مودی سرکار کے اقتدار میں آنے کے بعد ہجومی تشدد ہندوستان میں مسلسل موضوع بحث ہے ،بھیڑ کے ہاتھوں تقریبا 80 سے زائد بے گناہوں کا قتل ہوچکاہے ،قتل ہونے والوں میں بیشتر مسلمان اور کچھ دلت ہیں ،قاتلوں اور ہجومی تشدد کے واقعات کو انجام دینے والے سبھی کی وابستگی آر ایس ایس ،ہندو ویوواواہنی ، وشو ہندو پریشد ۔بجرنگ دل اور اس جیسی دیگر انتہاءپسند تنظیموں سے ہے ۔بی جے پی سیاسی طور پر ان تمام تنظیموں کی سرپرستی کرتی ہے ۔دوسرے لفظوں میں یوں کہ سکتے ہیں ہجومی تشدد اور ماب لنچنگ جیسے واقعات کے پس پردہ بی جے پی ہے ۔گﺅ رکشکوں او ر بھیڑ کی شکل میں بے گناہوں کو مارنے والوں کو بی جے پی کی سرپرستی حاصل ہے ۔چند دنوں قبل جیل سے ضمانت پر رہاہونے والے گﺅ رکشکوں کو جھارکھنڈ میں بی جے پی کے ایک وزیر جینت سنہانے استقبالیہ دیا تھا،اس سے قبل محمد اخلاق کے قاتل کی لاش کو ترنگے میں لپیٹا گیاتھا ۔ محمد افرازل کے قاتل شمبھو لال کے اکاﺅنٹ میں لاکھوں روپے جمع کرکے اسے الیکشن میں امیدوار بنانے کی تیاری ہور ہی ے ۔آج جس وقت سپریم کورٹ ہجومی تشدد کے خلاف دائر عرضی پر اپنا فیصلہ سنارہی تھی اسی وقت بی جے پی کارکنان معروف سماجی رہنما سوامی اگنی ویش پر جھارکھنڈ میں حملہ کرکے انہیں زدکوب کررہے تھے ۔
ہجومی تشدد اور ماب لینچگ کے واقعات پر روک لگانے کیلئے معروف سماجی کارکن تحسین پونے والا اور مہاتماگاندھی کے پوتے تشار گاندھی نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی تھی ۔عدالت عظمی نے آج اس پر فیصلہ سناتے ہوئے کہاہے کہ ملک میں موبوکریسی (بھیڑ کی منمانی) کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔قانون کی حکمرانی برقرارر کھنے کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔کوئی بھی شہری قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔پارلیمنٹ موب لنچنگ کے حوالہ سے قانون سازی کرے اور حکومت آئین کے مطابق کام کرے۔حکومت موب لنچنگ کے متاثرین کو معاوضہ ادا کرے۔ عرضی پر چیف جسٹس دیپک مشرا، جسٹس اے ایم کھنولکر اور جسٹس ڈی وائی چندرچوڈ کی بنچ نے سماعت کی۔ عدلیہ نے سماعت کے دوران یہ بھی کہاکہ موب لنچنگ کو روکنا ریاست کا فرض ہے۔ 20 اگست کو حالات کا جائزہ لیا جائے گا۔اس سے قبل سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے گﺅرکشا کے نام پر بھیڑ کی طرف سے کئے جانے والے تشدد کو سنگین جرم قرار دیا تھا۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ محض نظم و نسق کا ہی سوال نہیں ہے بلکہ حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
سپریم کورٹ نے ہجومی تشدد کے بڑھتے سلسلے کو روکنے کیلئے قانون سازی اور اس کے مطابق کاروائی کرنے کا حکم سنایا ہے ،لاءاینڈ آڈر پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کیا ہے،ریاستی حکومت کو اس کیلئے ذمہ ٹھہرایاہے عدالت عظمی کا یہ فیصلہ اہم اور قابل ستائش ہے ،آل انڈیا ملی کونسل سمیت کئی مسلم تنظیموں اور سماجی کارکنان جیسے شبنم ہاشمی وغیرہ نے اس کا خیر مقدم بھی کیاہے لیکن یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ جن جرائم کیلئے ملک میں قانون موجودہے اس پر کتنا عمل کیاگیاہے؟ ۔بھیڑ کی شکل بناکر بے گناہوں کو قتل کرناآئین کی جن دیگر دفعات میں آتاہے اس کے مطابق حکومت نے کتنے مجرموں کو سز دلانے کی کوشش کی ہے؟ اب تک گﺅ رکشکوں کے خلاف کیا کاروائی کی گئی ہے ؟۔کتنے گﺅ رکشک مجرموں کے خلاف بی جے پی نے چارج شیٹ داخل کی ہے ؟۔
حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی حکومت نے ہجومی تشدد کو شہ دینے کے علاوہ کبھی اسے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے ،پونے میں محمد صادق کے قتل سے لنچگ کا سلسلہ شرو ع ہواتھا اور اس کے بعد اب تک بے گناہوں کا قتل جاری ہے ۔محمد اخلاق ،حافظ جنید ، محمد افراز ،محمد علیم الدین سمیت تقریبا 80ایسے مظلوم ہیں جنہیں بھیڑ نے محض مسلمان ہونے یا پھر دلت سماج سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر قتل کردیاہے ،حال ہی میں کرناٹک کے گوگل انجیئنر محمد اعظم کو بچہ چوری کے بے بنیاد الزام میں بھیڑ نے جس بے دردی سے پیٹ پیٹ کر ماردیا ہے اس کی ہندوستان میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہے ۔
ہجومی تشدد کے خلاف آئین سازی کا فیصلہ بیحد اہم ہے لیکن کیا بی جے پی اس آئین پر عمل بھی کرے گی ؟۔قانون کے مطابق انتہاءپسندوں اور گﺅ رکشکوں کو سزا دلائے گی ؟۔مجرموں کی حمایت کرنے اور استقبالیہ دینے والے وزراءکے خلاف کاروائی کرے گی ؟حقیقت یہ ہے کہ خود وزیر اعظم نریندر مودی بھی اس حوالے سے سنجیدہ نہیں ہیں،چار سالوں میں صرف دومرتبہ انہوں نے لنچنگ کی دبے لفظوں میں مذمت کی ہے اور اسی دن ان کے بھکتوں نے بے گناہوں پر حملہ کرکے ان کی جان لے لی ہے ۔سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری کی یہ بات بیحد اہم ہے کہ جب نریندر مودی وزیر اعظم ہونے کے ساتھ اپنی پارٹی میں قد آور لیڈرکی حیثیت رکھتے ہیں تو پھر ان کے کارکنان ان کی بات کیوں نہیں سن رہے ہیں ۔ملک کے ایک نامور دانشور نے تو اپنے مضمون میں لکھاہے کہ جب جب مودی نے اپنی تقریرمیں ہجومی تشدد کی مذمت کی ہے دوسری طرف ان کے بھکتوں نے اسے انجام دیا ہے جس سے پتہ چلتاہے کہ بھکتوں کیلئے ان کی مذمت خفیہ کوڈورڈ کاکام کرتی ہے ۔

SHARE