مولانا اعجاز قاسمی سے متعلق قضیہ پر چند کھلی باتیں

محمد سیف الرحمان
گزشتہ دنوں زی گروپ کے ایک چینل پر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا اعجاز قاسمی صاحب پر ایک لیڈی وکیل فرح فیض نے ہاتھ اٹھا دیا جس کے بعد سے شوشل میڈیا پر خود ساختہ دانشوروں اور فیسبکیا مجاہدین نے ہائے توبہ مچا رکھی ہے، پڑھتے پڑھتے احقر نے بھی ان فیسبکیا دانشوروں کے دلائل پر اپنی چند باتیں رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس معاملے پر سب سے پہلی بات یہ کہی جاتی ہے کہ جو زی نیوز حکومت کے اشارے پر صرف اور صرف اسلام کو بدنام کرنے کا کام کرتا ہے کبھی بھی عالمی اصول مباحثہ کے مطابق ڈیبیٹ نہیں کراتا ہے اس پر نہیں جانا چاہئے تو یقیناً میں بھی مانتا ہوں کہ مولانا نے ایسے چینل پر ڈیبیٹ میں جاکر غلط کیا ہے بیوقوفی کی ہے کچھ دانشوران کہ رہے ہیں کہ مولویوں کو جب بولنے نہی آتا ہے تو کیوں پہونچ جاتے ہیں ڈیبیٹ میں. تو انہیں میں بتادوں کہ آج کل ڈیبیٹ کرانے کا جو طریقہ اپنا لیا گیا ہے اسے ہینڈل کرنا اتنا آسان نہیں جتنا آسان وہ سمجھتے ہیں ، ابھی چند دنوں پہلے ملک کی مقبول سماجی و ملی تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر ٹائمس ناؤ پر ڈیبیٹ چلایا جارہا تھا اس میں عصری علوم کے گلیاروں سے ہی نکلے ملک کے مشہور دانشور اور شوشل ایکٹوسٹ ڈاکٹر تسلیم رحمانی صاحب شامل ہوئے لیکن ڈیبیٹ کے اصول و ضوابط سے بالکل نگیٹو چل رہے اس مباحثہ میں وہ بھی اپنی بات نہیں رکھ سکے اور اینکر کو میٹھی میٹھی چند باتیں سناکر وہاں سے اٹھ گئے یہاں ایک اور غلط فہمی کا ازالہ کردوں لوگ کہتے ہیں کے انہیں مسلم پرسنل لاء بورڈ کا آدمی بن کر جانے کی کیا ضرورت تھی اپنے ساتھ ایک معتبر ادارے کو بدنام کردیئے تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کی مولانا اعجاز قاسمی ہمیشہ مباحثوں میں خود کہتے ہیں کہ میں بورڈ کی طرف سے نہیں ہوں مطلب میں ذاتی طور پر ڈیبیٹ میں آیا ہوں بورڈ کے نمائندے کے طور پر نہیں اب اگر میڈیا والے انہیں بورڈ کا نمائندہ ظاہر کرتے ہیں تو یہ میڈیا کی غلطی ہے نہ کی مولانا کی۔
میڈیا کی ایسی ہی ایک غلطی کا ذکر میں کردوں ٹائمس ناؤ کے جس ڈیبیٹ کا میں ذکر کیا اس میں اینکر نے تسلیم رحمانی صاحب کا تعارف پاپولر فرنٹ کے نمائندے کے طور پر کرایا ، رحمانی صاحب نے کہاکہ میں پاپولر فرنٹ سے نہیں، ایس، ڈی، پی، آئی سے ہوں پھر بھی اینکر نے اپنی غلطی نہیں سدھاری جبکہ رحمانی صاحب کبھی پاپولر فرنٹ میں نہیں رہے مولانا اعجاز تو پھر بھی بورڈ کے رکن ہے، جہاں تک بات دارالعلوم دیوبند کے اس حکم کی ہے جس میں علماء کو ڈیبیٹس میں جانے سے منع کیا گیا ہے تو ایک تو اس پر عمل ممکن نہیں ہے دوسرے میری نظرمیں یہ حل نکالنا کہ میدان ہی چھوڑ دیا جائے سراسر احمقانہ فعل ہوگاجس کا فائدہ تو نہیں نقصان ضرورہوگا دشمنوں کے پروپیگنڈوں کو اس سے تقویت ملے گی ہونا یہ چاہئے کہ دارالعلوم اور پرسنل لاء بورڈ جیسے ادارے ایسے اسکالروں کا دستہ تیار کرنے کی یقینی کوشش کرتے جس کے ارکان ایک طرف علوم اسلامیہ ( قرآن، حدیث، فقہ ) کے ماہر ہوں تو دوسری طرف آئیں ہند ، عالمی قوانین کے بھی ماہر ہوں دوسرے مذاہب خاص طور پر ملک ہند کے مخالف مزہب ہندو مذہب کی تعلیمات و قوانین اور تاریخ پر بھی پکڑ رکھتے ہوں اور فوری حل کے طور پر کچھ علماء کو چنتے انہیں ۶ ماہ آئین ہند اور ہندو مذہب کی ضروری تعلیمات دیتے پرسنل لاء کے جو بنیادی مسائل ہیں اس پر انہیں مواد مہیا کرتے وہ جو جھوٹے الزامات لگاتے ہیں اسکی مثالیں ہندو مزہب سے انہیں ازبر کرائی جاتی جوکہ وہاں موجود ہے اور پھر انہیں ڈیبیٹ کی اجازت دیتے تومسئلے کا کچھ حد تک حل ہوتا اور یہ کرنا ہی ہوگا نہیں تو مستقبل میں مزید رسوائیوں کا سامنا یقینی ہے کیونکہ جذباتی تقریروں پر آپ کی عوام تالی بجا سکتی ہے اوروں کی غلط فہمیاں و دشمنی اس سے دور نہیں ہوسکتی
رہی بات مولانا اعجاز کے زی نیوز ڈیبیٹ میں ہاتھا پائی کی تو یقین مانئے موب لنچنگ کے معاملے پر سپریم کورٹ کے آئے بیان اور جھارکھنڈ میں مشہور شوشل ایکٹوسٹ سوامی اگنویش کے سنگھی دہشت گردوں کے ذریعہ پٹائی کے معاملے کو دبانے کیلئے یہ ڈرامہ منصوبہ بندی کے ساتھ کھیلا گیا گیا ہے اس میں جب مولانا کو لیڈی وکیل نے تھپڑ مارا یا کچھ لوگوں کے مطابق پیچھے سے ایک آدمی نے اس وکیل کا ہاتھ پکڑ کرمولانا کے سر پر مارا تھا اس وقت مولانا کے پاس دو راستے تھے ایک یہ کی اسے معاف کر دے تو ایسے وقت میں لوگ یہی مزاق اڑاتے کی مولوی مار کھاکر آگیا اور علماء کو بدنام کردیا لوگوں کی یہ بات بہت حد تک صحیح بھی ہوتی دوسرا راستہ وہی تھا جو مولانا نے اپنایا کی انہوں نے فوراً اپنا دفاع کرتے ہوئے اس عورت کو بھی تھپڑ جڑدئے یہ ان کا قانونی حق تھا جسے چھیننا یا جس کے استعمال پر ان پر آواز اٹھانا ان پر پولس کی طرف سے کارروائی کرنا سراسر قانون کا مزاق اڑانا ہے، ایسے وقت میں ہم سب کی ذمہ داری تھی کہ یکطرفہ غیر قانونی کارروائی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں، ساتھ ہی میڈیا کے منفی پروپیگنڈے کا شوشل میڈیا کے ذریعہ مضبوطی سے جواب دیں ، زی نیوز گروپ اور لیڈی وکیل کا آپریشن کر ان کی زبانیں بند کرتے بجائے اس کے ہم شرعی طور پر مولانا کو غلط ٹھہرانے کے راستے ڈھونڈھنے لگے کہ اسلام نے عین میدان جنگ میں بھی عورت پر ہاتھ اٹھانے سے منع کیا ہے پھر اعجاز صاحب عالم ہوکر عورت پر ہاتھ کیسے اٹھا دیئے۔ در حقیقت یہ بات صرف اور صرف شرعی حکم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے کہی جارہی ہے شریعت نے عورتوں پر ہاتھ اٹھانے سے اس لئے منع کیا ہے کہ وہ مقاتل (لڑنے والی) نہیں ہوتی ہے لیکن اگر کبھی عورت مقاتل بن جائے تو آپ کو ان سے لڑنے سے اسلام منع نہیں کرتا مثال کے طور پر مان لیجئے آپ نے اس شرعی حکم کو جس طرح سمجھا ہے اسی طرح اہل کفر اسے سمجھے اور اس کا فائدہ اٹھانے کیلئے عورتوں کا لشکر تیار کرکے مجاہدین کے سامنے اتار دے اس وقت مجاہدین کے پاس دو ہی راستے بچیں گے، میدان چھوڑکر یا ہتھیار ڈال کر مغلوب ہوجانا یا پھر اس عورتوں پر مشتمل لشکر کا مقابلہ کرنا تو ایسے وقت میں آپ کیا کہیں گے کہ مجاہدین میدان چھوڑ دیں؟ ہرگز بھی آپ ایسا نہیں کہیں گے اس تناظر میں ہم دیکھینگے تو مولانا کو شرعاً اور قانوناً مکمل حق تھا اپنے دفاع کا کیونکہ لیڈی وکیل غیر مقاتل نہیں حملہ آور تھی۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ غیر محرم عورت کے ساتھ ڈیبیٹ میں بیٹھنا صحیح ہوسکتا ہے کیا ؟ تو ہمیں سمجھنا چاہئے کی اسلام نے پردہ کا حکم دیا ہے لیکن ضرورت پڑنے پر غیر محرم سے بات کی اجازت بھی دی ہے مثلاً عورت کو عام حالات میں اپنے چچازاد بھائی اور شوہر کے بھائی سے بھی منہ ڈھانپنے کا حکم ہے لیکن بیماری کی حالت میں غیر ڈاکٹر کے سامنے بھی اپنے پاؤں کے کپڑے تک ہٹانے کی اجازت ہے تو پھر اگر قومی یا شرعی معاملے میں ایسی مجبوری آجائے تو بات کرنے ان کے سوالات کے جواب دینے کی اجازت کیوں نہی ہوگی؟ یقیناً پریس کانفرنس یا دیگر مواقع پر غیر محرم رپورٹر کو انٹرویو دینے یا ڈیبیٹس میں ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کے سوالات کا جواب دیکر انہیں و دیگر حضرات کو مطمئن کرنے میں کسی طرح کا مضائقہ نہیں ہے۔
ایک اور بات یہ کہی جارہی ہے کہ انکے بی، جے، پی سے تعلقات ہے اس سلسلے میں مودی سے ملتے ہوئے ان کی ایک تصویر چلائی جارہی ہے جب کہ مولانا اعجاز کوئی پہلے عالم نہیں جو مودی سے ملے ہوں جمعیت علماء, جمعیت اہل حدیث, علماء و مشائخ بورڈ جیسی تنظیموں کے قومی صدور مودی سے مل چکے ہیں اور ہاں مفتی اعجاز صاحب کوئی فرشتہ نہی ہے کی ان سے غلطی نہیں ہوسکتی لیکن کسی غلطی کی وجہ سے ایک ایسے معاملے میں ان کا پیر کھینچا جائے جس میں وہ حق پر ہوں سراسر غلط ہے۔