آسام قومی شہری رجسٹر: مسلمانوں سے شہریت سلب کرنے ایک کوشش 

 عابد انور 

ملک میں جس طرح سیاسی، سماجی،معاشی اور تعلیمی صورت حال کروٹ لے رہی ہے اور حکومت ہی فرقہ پرستی، تعصب، تنگ نظری ،اقلیتوں اور خاص طور پرجس طرح مسلمانوں کا قافیہ تنگ کرنے پر آمادہ ہے اگر اس پر فوری طور پر کنٹرول نہیں کیا گیا تو یہ ملک کیلئے نہایت خطرناک ہوگا۔ نسلی امتیاز کایہ سلسلہ جس طرح ہندوستان میں پھل پھول رہا ہے اور اکثریتی فرقہ کے ذہن میں جس قدر زہر گھول دیا گیا ہے اور جس طرح آسانی سے وہ اس زہر آلود پروپیگنڈہ کا شکار ہوگیا ہے ،مسلمانوں کے لئے تباہ کن تو ہے ہی لیکن ملک کے لئے بھی کم تباہی لانے والا نہیں ہے۔ پورے ملک کو مسلمانوں کے لئے جس طرح میانمار بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور آسام میں اس پر عمل بھی شروع ہوگیا ہے وہ بہت ہی تباہ کن اور قتل عام کا اشارہ دے رہا ہے۔ کوئی بہانہ ہاتھ آتا ہے اور حملہ مسلمانوں پر شروع کردیا جاتا ہے۔ پورے ملک میں فرقہ پرستوں کو اس قدر چھوٹ حاصل ہوگئی ہے کہ جب اور جہاں چاہتے ہیں وہ مسلمانوں پر حملہ کردیتے ہیں، مسلم خواتین چھیڑ خانی سے لیکران کی عزت تار تار کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ سردست آسام کے مسلمانوں کی حالت زار بہت ہی تشویش کا باعث ہے۔ جب سے ریاست میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی ہے انہیں پریشان کرنے کیلئے طرح طرح کے بہانے تراشے جارہے ہیں۔ اب تک بنگلہ دیشیوں کے معاملے کو لیکر مسلمانوں کا جینا حرام کررکھا تھا لیکن جب قومی شہری رجسٹر کے تیار کرنے سے بھی جب ان کا مقصد پورا ہوتا ہوا نظرنہیں آیا تو انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا ہے۔ واضح رہے کہ آسام کی حقیقی آبادی اور بنگلہ دیشیوں کے درمیان فرق کرنے کے لئے قومی شہری رجسٹر کا فارمولہ اختیار کیا گیا تھا۔جس کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اورسپریم کورٹ بار بار آسام حکومت کی سرزنشکرچکی ہے ۔ آسام میں شہریت ثابت کرنے کے لئے16دستاویزات کو تسلیم کیا گیا ہے۔ ان میں سے پنچایت سرٹی فیکٹ بھی شامل ہے۔ پنچایت کی سرٹی فیکٹ اس لڑکی کو دی جاتی ہے جو شادی کرکے دوسرے گاؤں یا علاقہ میں جاتی ہے ۔ تاکہ یہ نہ کہا جاسکے کہ یہ بنگلہ دیشی ہے اور اسی کو روکنے کے لئے پنچایت سرٹی فیکٹ دیتی ہے۔ اس کے علاوہ شہریت کو ثابت کرنے کے لئے آسام میں ایک ٹریبونل بھی ہے۔ معاملہ شروع ہوا تھا منورہ بیگم کے کیس سے ۔ منورہ بیگم کی سرٹی فیکٹ کو ٹریبونل نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ گوہاٹی ہائی کورٹ میں اس کو چیلنج کیا کیا۔ گوہاٹی ہائی کورٹ نے بھی ٹریبونل کے فیصلے کو باقی رکھا اور پنچایت کی سرٹی فیکٹ تسلیم نہیں کیا۔ جب کہ پنجایت کی سرٹی فیکٹ دستاویزات کی فہرست میں 13ویں نمبر پر ہے۔ اس کی زد میں تقریباَ 48لاکھ خواتین آگئی تھیں۔ اس حکم سے 48لاکھ خواتین کی شہریت مسترد ہوجاتی ۔ سب سے بڑی پریشانی کی بات یہ ہے کہ پولیس نے اس کو بہانہ بناکر دھرپکڑ شروع کردیا تھا۔ صورت حال اس قدر بھیانک ہوگئی تھی کہ مسلم خواتین کو جو زیادہ تر کم عمر کی ہوتی تھیں کو رات کو پولیس والے بغیر کسی لیڈی پولیس کے گھر پر دھاوا بولتے تھے اور دروازہ توڑ کر خواتین کو گرفتار کرکے ڈیٹینشن کیمپ میں چھوڑ دیتے تھے۔ جب کہ یہ گرفتاری غیر قانونی ہے۔سپریم کورٹ کی رولنگ کے حساب سے کسی خاتون کی گرفتاری رات میں نہیں کی جاسکتی اور اگر بہت ضروری ہے تو لیڈی پولیس ساتھ میں ہونا ضروری ہے۔لیکن آسام میں اس کا لحاظ نہیں رکھا جاتاتھا۔ معاملہ کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان خواتین کو مجرموں کے ساتھ رکھا تا ہے جیسا کہ جمعیتہ علمائے ہند نے دعوی کیا تھا۔ آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے صدر اور آسام سے رکن پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل نے بتایا تھا کہ میں ڈٹینشن کیمپ میں جانے کے لئے اجازت چاہی تو مجھے منع کردیا گیا اور کہا گیا ہے کہ اس کے لئے وزارت داخلہ سے اجازت لینی ہوگی۔ انہوں نے بتایا کہ میں وزارت داخلہ کو اس سلسلے میں خط لکھا ہے لیکن طویل عرصہ بیت گیا ہے اب تک اس کا کوئی جواب نہیں آیا ۔ وہاں ان مسلم خواتین کے ساتھ کیا ہورہاہے باوثوق ذرائع سے کچھ بھی پتہ نہیں چل رہا ہے۔ لیکن جو اطلاعات چھن کر باہر آہی ہیں وہ بہت بھیانک ہیں۔ کہا گیا ہے کہ ان خواتین کو مجرموں کے ساتھ رکھا جارہا ہے۔ مردوں کے سامنے قضائے حاجت کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ بیشتر خواتین کے ساتھ درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی عزت سے کھیلواڑ کیا جارہا ہے۔ ڈٹینشن کیمپ میں ایسی خواتین کی تعداد تقریباً دس ہزار کے قریب ہے۔ گواہاٹی ہائی کوررٹ کے فیصلے کے رو سے یہ قانون ہندو خواتین پربھی نافذ ہوتا ہے لیکن نشانہ صرف مسلمانوں کو بنایا جارہا ہے۔ اب صورت حال بدل گئی ہے سپریم کورٹ نے اسے گواہاٹی ہائی کورٹ کا فیصلہ منسوخ کردیا۔ 
آسام میں قومی شہریت کا دوسرا ڈرافٹ شائع ہوچکا ہے ۔اس میں 40لاکھ 7708 لوگوں کے نام درج نہیں ہیں ۔یہ واضح رہے کہ یہ فائنل لسٹ نہیں ہے اور اس میں نام درج کرانے کی گنجائش ہے لیکن یہ وہاں کام کرنے والی مسلم تنظیموں اور خاص طور پر جمعیتہ علمائے ہند (دونوں گروپ)کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس میں کتنا کامیاب ہوتے ہیں۔ رجسٹر تیار کرنے کا سلسلہ کوئی اچانک نہیں ہوا ہے یہ کام کئی برسوں سے چل رہا تھا لیکن مسلم تنظیموں نے آسام میں اتنی سنجیدگی نہیں دکھائی جتنی سنجیدگی وہ دہلی میں دکھاتے ہیں۔ آسام میں بی جے پی کی حکومت ہے اور اس حکومت سے مسلمانوں کے تئیں خیرخواہی کرنے کی امید رکھنا شیر کے باڑ میں جانے کے مترادف ہے۔ یہ کام سپریم کورٹ کی نگرانی میں چل رہا تھا اور جمعیتہ علماء کو معلوم تھا وہاں کیا ہورہا ہے جیسا کہ انہوں نے اپنی ریلیز میں بار بار دعوی کیا ہے اور وہ اس سلسلے میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال سے بھی ملاقات کی تھی لیکن اس نے یہ تمام دستاویزات کے ساتھ اس وقت قومی اور بین الاقوامی میڈیا کو نہیں بتایا۔ قومی اور بین الاقوامی میڈیا کو لیکر وہ لوگ آسام نہیں گئے تاکہ میڈیا کو معلوم ہوتا کہ این آر سی کے افسران سپریم کورٹ کی ہدایت کی کس قدر کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ این آر سی کے افسران نے کس قدر لاپروائی اور تعصب اور امتیاز کے ساتھ کام کیا ہے اس کا اندازہ فہرست سے لگایا جاسکتا ہے۔ این آر سی کے کارندوں نے نام کے اسپیلنگ میں چھوٹی سی غلطی کی بنا پر بھی لوگوں کی درخواست کو خارج کر دیا، ایسا بھی ہوا ہے کہ باپ کا نام آیا ہے اور بیٹے کا نام غائب ہے اسی طرح شوہر کا نام آیا ہے اور بیوی کا نام خارج کر دیا گیا ہے، ملک کی خدمات انجام دینے والے آرمی افسران کے نام نہیں ہیں، ملک کے سابق صدر فخر الدین علی احمد کے خاندان والوں کا حذف کردیا گیا ہے۔ یہ بتانے کے لئے کافی ہے ، این آر سی کے افسران کس قدر متعصب، لاپرواہ اور امتیاز برت رہے ہیں۔ اس پر سپریم کورٹ کو ان افسران کے خلاف نہ صرف سخت کارروائی کا حکم دینا چاہئے بلکہ اس کھیل میں شامل حکومت کے وزیر، لیڈروں اور افسروں کو برخاست کرکے تعصب سے پاک افسران کو اس کام پر لگانا چاہئے۔ 
سپریم کورٹ نے آسام میں لاکھوں لوگوں کی شہریت سے متعلق ایک انتہائی اہم کیس میں تاریخ ساز فیصلہ دیتے ہوئے تقریبا 48 لاکھ لوگوں بالخصوص شادی شدہ عورتوں کی شہریت پر لٹکی تلوار سے راحت دے دی تھی ۔ جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس نریمن پر مشتمل عدالت عظمی کی دو رکنی بنچ نے 28 فروری 2017 کوگوہاٹی ہائی کورٹ کے ذریعہ دئے گئے اس فیصلہ کو رد کر دیا جس کی وجہ سے آسام میں نیشنل رجسٹر فار سیٹیزن (این آر سی) میں اندراج کے لئے پنچایت سر ٹیفیکٹ کو ناقابل قبول قرار دیا گیا تھا۔گوہاٹی ہائی کورٹ کے فیصلہ کی وجہ سے تقریبا 48 لاکھ لوگ جنہوں نے پنچایت سرٹیفیکٹ کو معاون دستاویز کے طور پر صرف اس بات کو ثابت کر نے کے لئے جمع کیا تھا کہ وہ فلاں کی بیٹی یا بیٹا ہے اور شادی یا کسی اور وجہ سے فلاں گاوں سے فلاں گاوں منتقل ہوکر رہائش پذیر ہوگئے۔ آسام میں نیشنل رجسٹر فار سیٹیزن (این آر سی) میں اندراج کے لئے پنچایت سر ٹیفیکٹ کو ناقابل قبول قرار دیا گیا تھا لیکن سپریم کورٹ کے حکم کے بعد وہ بحال ہوگیا۔ اس کے باوجود این آر سی کے افسران سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے لاکھوں لوگوں کے نام درج نہیں کئے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ آسام میں 1978سے 1985 کے درمیان آل آسام اسٹوڈینٹس سمیت کچھ تنظیموں کی جانب سے پہلے غیر آسامیوں کاپھر غیر ملکیوں اور خاص کر بنگلہ دیشیوں کے خلاف زبردست تحریک چلی تھی جو بعد میں جاکر مسلم مخالف تحریک میں تبدیل ہو گئی ، جس کا اختتام 1985 میں Assam Accord کے وجود میں آنے کے ساتھ ہوا۔Assam Accord جو اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کی موجودگی میں مرکزی حکومت، آسام حکومت اور تحریک چلانے والے لیڈروں کے درمیان باہمی رضامندی سے ہوا تھا اور اس وقت کے تمام سیاسی اور غیر سیاسی جماعتوں نے اسے قبول کیا تھا، اس کے مطابق 25، مارچ 1971 کو (Cut off date ) بنیاد مان کر اس سے پہلے آسام آکر بس جانے والوں کو ہندوستانی شہری تسلیم کیا گیا تھا۔ اس کے بعد ہی اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے پارلیمنٹ میں ایک ترمیمی بل کے ذریعہ Citizenship Act -1955 میں section 6-A داخل کر کے اسے منظوری دی تھی جس پر اس وقت کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ تمام سیاسی جماعتوں بشمول کانگریس، بی جے پی، لیفٹ اور تمام غیر سیاسی جماعتوں اورسماجی تنظیموں نے بھی اسے قبول کیا تھا۔مگر2009 میں اور پھر 2012 میں’آسام سنمیلیٹا مہا سنگھ’ سمیت مختلف فرقہ پرست اور مفاد پرست افراد اور تنظیموں نے سپریم کورٹ میں 274/2009 and PIL No 562/2012 PIL Noفائل کر دیا او ر25 مارچ 1971 کی بجائے 1951 کے ووٹر لسٹ کو بنیاد بناکر آسام میں شہریت کا فیصلہ کرنے کی وکالت کی ۔ نیز Assam Accord کی قانونی حیثیت اور پارلیمنٹ کے ذریعہ Citizenship Act -1955 میںSection 6-A کے اندراج کو بھی چیلنج کیا، جس کی وجہ سے آسام کے لاکھوں لوگوں بلکہ ہر تیسرے شخص کی شہریت پر خطرہ منڈلانے لگا۔ حالات کی نزاکت کے پیش نظر جمعیۃ علما ء ہند نے ان تنظیموں کے موقف کے خلاف اور Assaam Accord کی تائید میں سپریم کورٹ میں فوراًپٹیشن داخل کی، اس کے بعد آل آسام مایناریٹی اسٹو ڈینٹس اورسیٹیزن رائٹ پریزرویشن کمیٹی( سی آر پی سی) نامی تنظیموں نے بھی جمعیۃ علماء ہند کے موقف کے ساتھ ہم آہنگی ظاہر کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کر کے Assaam Accord کادفاع کیا ۔ سردست سپریم کورٹ میں ایک طرف تقریبا 14تنظیمیں ہیں جو لاکھوں مسلمانوں کی شہریت کو چھیننا چاہتی ہیں جبکہ دوسری طرف دفاع میں صرف تین تنظیمیں ہیں ( ۱) جمعیۃ علماء ہند(۲) آل آسام مایناریٹی اسٹوڈینٹس(آمسو) (۳) سیٹیزن رائٹ پریزرویشن کمیٹی (سی آر پی سی) نامی تنظیمیں ہیں۔واضح رہے کہ آسام میں شہریت سے متعلق یہ مقدمہ پہلے سپریم کورٹ کے ڈویژن بنچ کے پاس تھا جس نے Assam Accord سے متعلق ۱۳، سوالات کئے تھے اور اس کا دفاع کر نے والے فریقوں کو اس کا جواب داخل کرنے کا حکم دیا تھا۔بعد میںیہ سارے مقدمات سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل ایک آئینی بنچ کے حوالہ کر دیا گیا۔ یکم، مئی 2017کو جمعیۃ علماء ہند نے اپنے سینئر وکلا ء کی ٹیم کے ذریعہ تیار شدہ ان 13سوالات کے جوابات اور ضروری دستاویزات کے ساتھ سپریم کورٹ میں آئینی بنچ کے سامنے جمع کر دیا۔
آسام اکارڈ میں جو پیمانے مقرر کئے گئے تھے اس میں بنگلہ دیشی کا مسئلہ دم توڑتا ہوا نظرآیا جس کی وجہ سے وہاں کی حکومت نے یہ سازش رچی۔ آسام میں شہریت کا معاملہ تقریبا گزشتہ 38برسوں سے انتہائی سنگین رہا ہے اور غیر ملکی کے نام پر وہاں کے لوگوں کو پریشان کیا جاتا رہا ہے، جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے اور جس کی وجہ سے ماضی میں فساد کے درجنوں واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں ہزاروں لوگوں کی جانیں جا چکی ہیں اورکروڑوں کی جائیداد برباد ہو چکی ہیں۔ آسام کی تاریخ گواہ ہے کہ غیر ملکی اور خاص کر بنگلہ دیشی ہونے کا الزام لگا کر مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی جس میں 1983میں ہوئے “نیلی Nellie) (نسل کشی” کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا جس میں تقریبا تین ہزار لوگوں کو محض چھ گھنٹے میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا مگر متأثرین کو آج تک انصاف نہیں مل سکا۔ اس نسل کشی کو انجام دینے والوں کے خلاف آج تک کوئی کاروائی نہیں ہو ئی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ آسام کی سابقہ ترون گگوئی حکومت اس اہم مسئلہ کو حل کرنے کی بجائے محض اپنے سیاسی مفاد کی خاطر اس کو لٹکاتی رہی ۔ سابقہ ریاستی سرکاروں کے آسام کے مسلمانوں کے استحصال کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے آسام میں ’بارڈر پولس ڈیپارٹمنٹ‘ بناکر اسے اس بات کا مکمل اختیا دے دیا کہ وہ جسے چاہے غیر ملکی قرار دیکر گرفتار کر سکتا ہے۔ ہزاروں معصوم لوگ اس ڈپارٹمنٹ کے ظلم و ستم کا شکار ہو چکے ہیں۔مزید بر آں اس ڈپارٹمنٹ کو آ ر ٹی آئی ایکٹ کے دائرہ کار سے باہر رکھکر اس ڈیپارٹمنٹ کے ذریعہ کئے جانے والے ظلم و ستم پر پر دہ ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں اس طرح کا کوئی محکمہ نہیں ہے۔ حکومت ہند کا دوہرا پیمانہ دیکھئے کہ ایک طرف تو حکومت ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش کر چکی ہے جس کے پاس ہوتے ہی لاکھوں غیر ملکی ہندو پناہ گزینوں کو ہندوستانی شہریت مل جائے گی ، جبکہ دوسری طرف ہندوستان کے لاکھوں genuine citizens کو مسلمان ہونے کی وجہ سے ہندوستانی شہریت سے محروم ہوجائیں گے ۔ انصاف کا یہ دوہرا پیمانہ ہندوستانی جمہوریت کے لئے انتہائی خطر ناک ہے ۔
یہ ساری چیزیں یہ بتانے کے لئے کافی ہیں کہ آسام میں کیا ہورہا ہے۔ کس طرح مسلمانوں کی بنگلہ دیشی شہری کے نام پر شہریت چھیننے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دراصل آسام کے مسلمانوں کو روہنگیا مسلمانوں کی طرح بے حیثیت کر نے کی سازش چل رہی ہے تا کہ ان سے ہندوستانی شہری ہونے کے حقوق چھین لئے جائیں اور ان سے ووٹنگ کا حق بھی سلب کر لیا جائے اور اس کے ساتھ وحشیانہ سلوک روا رکھا جائے جو آج کل میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ مسلمانوں کو زندہ جلانا، گھر میں آگ لگانا،عبادت گاہوں کو تباہ کرنا، خواتین کی عصمت تار تار کرنا، بچوں کو ذبح کرنا اور اسی طرح کے دیگروحشیانہ جرائم کرنا مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا جارہاہے۔ اسی طرح یہاں کی فرقہ پرست جماعتیں مسلمانوں کے ساتھ کرنا چاہتی ہیں۔ مسلمانوں پر خاموشی کی اس وقت دبیز چادر پڑی ہوئی ہے کوئی بھی تنظیم (جمعیتہ کے علاوہ) موثر انداز میں اپنی بات حکومت کے سامنے رکھنے میں ناکام ہورہی ہے۔ مسلمانوں میں گلی محلے، ، نکڑچوراہے اور ڈرائنگ روم میں تو اس پر خوب بحث ہوتی ہے لیکن اس کے تدارک کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ کیا مسلمان چنگیز خاں اور ہلاکوں خاں کے دور میں واپس جاچکے ہیں۔ ہندوستان جمہوری ملک ہے اورمسلمانوں کو جمہوری حق کا استعمال ہر حال میں کرنا چاہئے۔ظلم کے خلاف آواز اٹھانا بھی جمہوری حق ہے کم از کم یہ تو ہمیں کرنا ہی چاہئے۔ 
abidanwauni@gmail.com