آسام این آر سی کیس میں مثبت پیش رفت، مولانا بد رالدین اجمل نے اسے بتایا خوش آئند 

مرکز المعارف کے روح رواں مولانا بدرالدین اجمل صاحب

25 ستمبر سے شہریت کادعوی پیش کرنے کی کاروائی شروع ہو جائے گی جو اگلے 60 دنوں تک جاری رہے گی
نئی دہلی(ملت ٹائمز)

آسام میں شائع ہونے والے نیشنل رجسٹر برائے شہریت (این آر سی) سے جن چالیس لاکھ لوگوں کا نام شامل ہونے سے رہ گیا ہے ان کو اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے جو موقع دیا گیا ہے اُس کا طریقۂ کارکیا ہونا چاہئے اور کونسے ڈوکومنٹ کی بنیاد پر اُن کا نام این آر سی میں شامل کیا جا سکے گا، اِن تمام امور پر آج جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس روہنٹن فالی نریمن پر مشتمل سپریم کورٹ کی ایک بنچ کی عدالت میں سماعت ہوئی۔آج کی سماعت اور فاضل ججوں کی ہدایات کو جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید محمود مدنی اور جمعیۃ علمای صوبہ آسام کے صدر و رکن پارلیمنٹ مولانا بد رالدین اجمل نے خوش آئنداور این آر سی میں شمولیت سے محروم رہ جانے والے افرادکے لئے امید افزا قرار دیا ہے، اور تمام متأثرین کو انصاف ملنے تک تمام تر کوشش جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ عدالت کے حکم پر مرکزی اور آسام سرکار کے ذریعہ جمع کئے گئے این آرسی میں شمولیت کے طریقۂ کار کے متعلق مشوروں پر مشتمل جمعیۃ علماء صوبہ آسام سمیت تمام پارٹی پہلے ہی حلف نامہ داخل کر چکی ہے۔ مگر پچھلی سماعت کے دوران این آر سی کو آرڈینیٹر کے مشورے کو منظوری دیتے ہوئے عدالت نے این آر سی میں شمولیت کے لئے پندرہ ڈوکومنٹ میں سے صرف دس ڈوکومنٹ کو ہی برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا جب کہ پانچ ڈوکومنٹ کومنظوری نہیں دی گئی تھی جس میں راشن کارڈ،سیٹیزن سرٹیفیکٹ،ریفیوجی سرٹیفیکٹ،1951 کا این آر سی اور 1966 and 1971 کا ووٹر لسٹ شامل ہے۔اس کی وجہ سے لوگوں مین بے چینی پیدا ہوگئی تھی کیوں کہ ان پانچ ڈوکومنٹ کے رد ہونے کی صورت میں لاکھوں لوگ اپنی شہریت ثابت کرنے میں ناکام ہوجاتے۔بہر حال آج کی سماعت میں فاضل ججوں نے کئی اہم ہدایت جاری کئے جو لوگوں کے لئے راحت کا سبب ثابت ہوگا۔اس میں سے یہ ہے کہ پہلے دعوی( Claim)کرنے کے لئے صرف 30 دن کا وقت دیا گیا تھا جس سے لوگوں کو تشویش تھی کہ اتنے کم وقت میں افرا تفری کا ماحول پیدا ہو جائیگا مگر آج فاضل ججوں نے اس کی مدت بڑھاکر 60 دن کر دیا ہے۔ اس کے بعد این آر سی کو آرڈینیٹر نے کہا کہ 25 ستمبر سے شہریت کادعوی پیش کرنے کی کاروائی شروع ہو جائے گی جو اگلے 60 دنوں تک جاری رہے گی ۔ اسی طرح آج فاضل ججوں نے کہا کہ ہم شہریت کے ثبوت کے لئے باقی ماندہ پانچ ڈوکومنٹ کو ابھی رد (reject)نہیں کرتے ہیں مگر فی الحال دس ڈوکومنٹ کی بنیاد پر ہی نام کی شمولیت کا کام شروع کیا جائے اور 23 ، اکتوبر کو ہونے والی اگلی سماعت سے پہلے این آر سی کو آر ڈینیٹر رازدارانہ طور پر عدالت کو یہ رپورٹ پیش کرے کہ آخر این آر سی میں شمولیت سے محروم رہ جانے والے کتنے لوگوں نے ان دس ڈوکومنٹ کی بنیاد پر شہریت کا دعوی پیش کیا ہے اس کے بعد ہم طے کریں گے کہ ان پانچ ڈوکومنٹ کو منظوری دینی ہے یا نہیں۔دوران بحث جب ججوں نے این آر سی کو آرڈینیٹر مسٹر پر تیک ہزیلاسے پوچھا کہ اب تک جو این آر سی لسٹ شائع ہو چکی ہے ان میں سے ایسے کتنے لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنی شہریت کے لئے زیر التواء ان پانچ ڈوکومنٹ کو استعمال کیا ہوگا، جس کے جواب میں مسٹر ہزیلا نے کہا کہ تقریبا 93% لوگوں نے اسی پانچ ڈوکومنٹ میں سے کسی نہ کسی کا استعمال کیا ہے ۔ بہر حال اے آئی یو ڈی ایف کے صدر و رکن پارلیمنٹ مولانا بد رالدین اجمل نے کہا کہ مسٹر پرتیک ہزیلا کے بیان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر ان پانچ ڈوکومنٹ کو شہریت ثابت کرنے کے لئے منظوری نہیں دی گئی تو پھر اکثر لوگوں کا نام نہیں آپائیگا اسلئے ہمارے وکلاء عدالت سے یہی درخواست کریں گے کہ ان کو منظوری دی جائے کیونکہ دس منظور شدہ ڈوکومنٹ میں سے اکثر وہ ہے جو پڑھے لکھے لوگوں سے متعلق ہے اسلئے غریب اور ناخواندہ لوگ بالخصوص عورتوں کے لئے بڑی پریشانی کا سبب ہوگا۔انہوں نے کہا کہ آج کی ہدایات سے امید لگتی ہے کہ اگلی سماعت میں عدالت ان پانچ ڈوکومنٹ کو بھی منظوری دیکر لوگوں کے لئے راحت کا سامان مہیا کرائیگی۔ واضح رہے کہ 2009 میں آسام پبلک ورکس نامی تنظیم کے ذریعہ دائر کردہ مقدمہ جس کے تحت این آر سی کا کام ہو رہاہے ہے اس مقدمہ( PIL No. 274/2009 ) میں مولاناقاری عثمان منصور پوری اور مولانا سید محمود مدنی کی زیر سر پرستی اور مولانا بدرالدین اجمل کی زیر نگرانی جمعیۃ علماء صوبہ آسام ابتداء ہی سے فریق ہے، اور اس کے ساتھ ہی اس سے متعلقہ مزید پانچ مقدمات بھی سپریم کورٹ میں لڑ رہی ہے ۔ ان مقدمات کی پیروی کے لئے ماہر وکلاء کی ایک ٹیم کی خدمات حاصل کی گئی ہے جن میں سینئر اڈووکیٹ بی ایچ مالا پلے، سینئر اڈووکیٹ وی گری، سینئر اڈووکیٹ جے دیپ گپتا، اڈووکیٹ منصور علی، اڈووکیٹ شکیل احمد سید،اڈووکیٹ نذر الحق مزار بھیا، اڈووکیٹ اے ایس تپادر، اڈووکیٹ امین الاسلام اوراڈووکیٹ ابوالقاسم تعلقدار وغیرہ شامل ہیں۔جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے سکریٹری ڈاکٹر حافظ رفیق الاسلام(سابق ایم ایل اے) جو مقدمہ کی سماعت کے دوران آج سپریم کورٹ میں موجود تھے انہوں نے کہا کہ قانونی چارہ جوئی کے علاوہ جمعیۃ علماء این آر سی کے متعلق لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے اب تک ہر ضلع میں ورک شوپ منعقد کر چکی ہے اور جب فارم بھرنے کا سلسلہ شروع ہوگا تووکلاء اور ماہرین پر مشتمل ہماری ٹیم ہر سینٹر پر لوگوں کی مدد کے لئے موجود رہے گی۔

SHARE