بر سر اقتدار لوگ اپنے طریقہ سے Idea of India کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں:سمپوزریم کے دوران سرکردہ شخصیات کا اظہار خیال

نئی دہلی(فلاح االدین ملت ٹائمز)
ملک آج ایک نئے دوراہے پر کھڑا ہے،مسائل میں ہر دم اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان دوریاں پیدا کی جا رہی ہیں اور نفرتوں کا فروغ بڑے پیمانے پر جا ری ہے۔ اب جو لوگ برسراقتدار ہیں وہ اپنے طریقہ سے Idea of Indiaکو تبدیل کر رہے ہیں۔یہ لوگ hidden agendeپر کام کر رہے ہیں اور دستور ہند کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔موجودہ حکومت ہندتوکو ہی Idea of Indiaمیں تبدیل کرناچاہتی ہے۔اس کے باوجود ہماری پیچان ہمارا آئین ہے۔جس میں کہا گیا ہے کہ ‘ہم بھارت کے لوگ۔۔’یعنی بھارت کسی ایک خاص فکر ،نظریہ اوررمذہب کے ماننے والوں کا نہیں ہے۔ہندوستان میں جمہوریت ہے اور ہم ایک ڈیموکریٹک ملک میں رہتے ہیں۔آج کا ہندوستان مغل،چندرگپت یا نانک کا ملک نہیں ہے بلکہ یہ ملک سب کا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ سب مل کے اس کی تعمیر و ترقی اور مسائل کے حل میں پیش رفت کریں۔ان باتوں کا اظہار میڈیا ڈپارمنٹ جماعت اسلامی ہند دہلی و ہریانہ کی جانب سے منعقدسمپوزیم بعنوان The Idea of India and Current National Scenarioکی صدارت کرتے ہوئے حسن رضا صاحب نے کہی ۔
سینئر جرنلسٹ اور معروف تجزیہ نگار،سابق ممبر آف پارلمنٹ اور چوتھی دنیا اخبار کے چیف ایڈیٹر سنتوش بھارتی نے کہا کہ آج سب کے اپنے اپنے خواب ہیں ۔کانگریس ،بی جے پی اور آرایس ایس کے اپنے خواب ہیں وہیں سماج وادیوں کا کوئی خواب ہی نہیںہے۔1991میں جس وقت ملک میں اقتصادی لبرلائزیشن اور پرائیواٹائزیشن کا آغاز ہوا اس کے بعد سے ملک کی معیشیت کمزور ہوتی رہی ہے اور آج ہر چیز کی قیمت بازار میں لگائی جاتی ہے۔یہاں تک کہ مسائل کو بھی خریدا اور بیچا جا رہا ہے۔آج کمیونٹی کے مسائل کو کون اٹھا رہا ہے؟دلت ،مسلم، پچھڑے اور دیگر طبقات کے لوگ پریشان ہیں۔ضرورت ہے کہ ایک بار پھر بڑے پیمانہ پر Idea of Indiaکی بات کی جائے اور بتایا جائے کہ اس ملک کے مسائل کو اس وقت تک حل نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ تمام مذاہب و کمیونٹی کے لوگوں کو ساتھ لے کر قدم نہ بڑھائے جائیں ۔
دی اسٹیٹس مینکے گروپ ایڈیٹر قمر اشرف نے کہا کہ بڑا سوال یہ ہے کہ ملک میں انسانوں کو اعلی و ادنیٰ طبقات میں کن لوگوں نے تقسیم کیا ؟جن لوگوں نے کل یہ کام کیا تھا وہی آج بھی انسانوں کو تقسیم کرنے میں مصروف ہیں ۔مسائل کو حل کرنے کی بجائے اُن سے بھٹکایا جارا ہے۔Idea of Indiaکو توڑ مروڑ کر پیش کیا جا ر ہا ہے۔ملک کے ہر شہری کی ذمہ داری ہے کہ اس سراب سے نکلے اور حقیقی مسائل کی طرف متوجہ ہو۔
دہلی وہریانہ کے امیر عبدالوحید نے کہا کہ کل یہی ملک سونے کی چڑیا کہلاتا تھا لیکن آج غربت و افلاس چہار جانب پھیل چکی ہے۔نوجوان اور پڑھا لکھا طبقہ بے روزگاری سے دوچار ہے۔لا اینڈ آڈر کمزور پڑتاجا رہا ہے ۔نتیجہ میں ہر دن کمزورں پر ظلم و زیادتیاں اور قتل و غارت گری کی خبریں اخباروں کی سرخیاں بنتی ہیں۔ملک کے حقیقی اور زمینی مسائل پربات نہیں کی جاتی، غیر ضروری مسائل میں لوگوں کو الجھایا جا رہا ہے اور Idea of Indiaتو تبدیل کرنے کہ ہر ممکن کوشش جاری ہے۔
واثق ندیم نے کہا کہ ملک کی موجودہ صورتحال حد درجہ تشویش ناک ہیں۔آزادی کے بعد سے اب تک فسادات کی لپیٹ میں یہ ملک مستقل رہا ہے لیکن گزشتہ چند سالوں میں اس میں جس قدر اضافہ ہوا ہے وہ توجہ طلب ہے۔اقلیتوں اور کمزور طبقات کو حراساں کیا جا رہا ہے،بنیادی حقوق سے لوگ محروم کیے جا رہے ہیں اور ان کی شنوائی تک نہیں ہے۔
پروگرام کے کنوینر اور میڈیا ڈپارمنٹ کے سکریٹری آصف اقبال نے موضوع کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ آزادی کے وقت ملک کے تمام شہری بلا تفریق مذہب و ملت آزادی کے نعرے کے ساتھ ایک نئے خواب کی تعبیر میں مصروف تھے۔گرچہ وہ خواب پورا ہوگیا لیکن آج ہر سیاسی و نظریاتی پارٹی اپنا ایک الگ خواب رکھتی ہے۔1921میں پہلی مرتبہ رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنے ایک دوست کو خط لکھا اور اس میں پہلی مرتبہ Idea of Indiaکی بات کی ۔1996میں دوسری مرتبہ دیوگوڑا نے 15اگست کی اپنی تقریر میں ایک بار پھر Idea of Indiaکو اٹھایا اور اس کے بعد بڑے پیمانہ پر یہ موضوع بحث بنا اور آج تک جاری ہے۔آج تاریخ مسخ کی جار ہی ہے ،تاریخ سے ہماری رشتہ کمزور ہوتا جا رہا ہے وہیں سماج سے بھی ہم کٹتے جا رہے ہیں۔ان حالات میں یہ ممکن نہیں ہے کہ Idea of Indiaکو ساکار کیا جا سکے ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم تاریخ سے پوری طرح واقف ہوںساتھ ہی سماج کو تقسیم ہونے سے بھی بچائیں۔تب ہی ممکن ہے کہ Idea of Indiaکو ایک بار پھر صحیح رخ دیا جا سکے۔سمپوزیم کاآغاز قاری ضمیر اعظمی کی تلاوت قرآن پاک سے ہوا۔

SHARE