بچوں اور خواتین کو مساجد میں لانے کی سنت زندہ کی جائے ورنہ طلاق ثلاثہ کی طرح یہاں بھی ذلت کا سامنا کرناپڑسکتاہے :محمد رحمانی

صلوات خمسہ بالخصوص صلاة فجر باجماعت ادا کرنا ہر مسلمان کا لازمی حصہ
مولانا محمد رحمانی کی بچوں اور خواتین کو مساجد سے جوڑنے اور آرٹیکل۷۷۳ اور ۷۹۴ پر نظر ثانی کی اپیل

نئی دہلی (پریس ریلیز)
اللہ رب العالمین نے سورہ¿ ق میں ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم سورج طلوع ہونے سے پہلے یعنی صلاة فجر کے وقت اور سورج غروب ہونے سے پہلے یعنی صلاة عصر میں اللہ رب العالمین کی تسبیح بیان کریں اور باجماعت مسجدوں میں فجر اور عصر کی صلاة کی ادائیگی کا حکم ہے۔ ہمیں تمام نمازوں کو باجماعت بالخصوص فجر اور عصر کو خصوصی اہتمام کے ساتھ ادا کرنا چاہئے، ان کی پابندی ہمیں بہت سی مصیبتوں اور گناہوں سے محفوظ کردیتی ہے۔لہذا ہمیں شریعت اسلامیہ کے ان احکامات کا بھرپور خیال رکھنا چاہئے۔مگر بدقسمتی ایسی ہے کہ آج خود مسلم علاقوں میں مسجدیں ویران ہیں، فجر کی صلاة کے لئے گنے چنے چند افراد بیدار ہوتے ہیں اور صرف صلاة جمعہ میں کسی حد تک حاضری نظر آتی ہے۔گویا یہ ہفتہ میں صرف ایک دن اسلام قبول کرتے ہیں اور بقیہ ایام میں اسلام کو کھلواڑ بنا ڈالتے ہیں اور جمعہ کی حاضری میں بھی ہماری نیتیں صاف نہیں ہوتیں ، ہمیں اپنے وطیرہ پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور ہمیں خود بھی اور اپنے بال بچوں کو بھی صلوات خمسہ کا پابند بنانا چاہئے ورنہ ناکامی ہی ہمارا مقدر ہوگی۔
ان خیالات کا اظہار ابوالکلام آزاد اسلامک اویکننگ سنٹر، نئی دہلی کے صدر جناب مولانا محمد رحمانی سنابلی مدنی نے سنٹر کی جامع مسجد ابوبکر صدیق، جوگابائی میں خطبہ¿ جمعہ کے دوران کیا۔مولانا صلاة فجر باجماعت کے وجوب اور اس کے فضائل پر گفتگو فرمارہے تھے۔مولانا نے ملک میں آرٹیکل۷۷۳ اور ۷۹۴ کے ختم ہونے کے بعد بے حیائی اور بے راہ روی کے بڑھتے امکانات کے پیش نظر حکومت ہند اور عدلیہ سے تمام مذاہب اور ملکی تہذیب کی رعایت رکھتے ہوئے اسے جرم کے دائرہ میں باقی رکھنے کی اپیل بھی کی۔
خطیب محترم نے فرمایا کہ صلاة فجر کو باجماعت مساجد میں ادا کرنے سے مسلمانوں کو جہاں صحت وتندرستی کا فائدہ حاصل ہوتا ہے وہیں شرعی نقطہ¿ نظر سے اس کے بہت سے فوائد اور فضائل بھی ہیں اس سلسلہ میں مولانا نے نو پوائنٹس پر گفتگو کی جو درج ذیل ہیں:
۱۔ صلاة فجر کی ادائیگی باجماعت کرنے والا صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق اللہ رب العالمین کے حفظ وامان میں آجاتا ہے اور ایسا نہ کرنے والے کو عذاب سے ڈرایا گیا ہے۔
۲۔ صلاة فجر باجماعت ادا کرنے والے کو پوری رات قیام اللیل کا اجر وثواب ملتا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں یہ ذکر موجود ہے کہ صلاة عشاءباجماعت ادا کرنے والے کو آدھی رات تہجد کا ثواب اور فجر ادا کرنے والے کو پوری رات تہجد ادا کرنے کا ثواب ملتا ہے۔
۳۔ صلاة فجر اور صلاة عشاءادا کرنے والے بخاری اور مسلم کی حدیث کے مطابق نفاق سے اپنے آپ کو بچا لینے میں کامیاب ہوتے ہیں کیونکہ یہی دونوں نمازیں منافقین کے لئے سب سے بھاری ہوتی ہیں۔
۴۔ صلاة فجر باجماعت ادا کرنے والوں کو ابوداو¿د اور ترمذی کی صحیح روایت کے مطابق کامل نور کی خوشخبری دی گئی ہے۔
۵۔ صلاة فجر اور صلاة عصر کی باجماعت ادائیگی کرنے والے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت کے مطابق اس فضیلت سے ظفریاب ہوتے ہیں کہ فرشتہ اللہ رب العالمین کے پوچھنے پر ان کی ادائیگی صلاة کی گواہی دیتے ہیں اور فجر کو باجماعت ادا کرنے والوں کو فرشتے گروہ کی شکل میں تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
۶۔ ترمذی کی ایک حدیث کے مطابق فجر کی صلاة باجماعت ادا کرکے سورج نکلنے تک مسجد میں بیٹھے رہنے پھر اشراق کی نماز کا اہتمام کرنے والوں کو حج وعمرہ کا کامل ثواب عطا کیا جاتا ہے۔
۷۔ صلاة فجر کی اقامت سے پہلے دو رکعت سنتوں کو دنیا کی تمام نعمتوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے جیسا کہ صحیح مسلم میںاس کا ذکر موجود ہے۔
۸۔ صلاة فجر اور صلاة عصر کو باجماعت ادا کرنے والے صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق جہنم سے نجات اور جنت میں داخلہ کے مستحق ہیں۔
۹۔ صلاة فجر اور صلاة عصر کی باجماعت ادائیگی کا سب سے عظیم فائدہ یہ ہے کہ اس کی پابندی کرنے والوں کو قیامت کے دن اللہ رب العالمین کی رو¿یت اسی طرح نصیب ہوگی جیسے ہم چاند دیکھتے ہیں۔
خطیب محترم نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ مساجد کو آباد رکھیں اور بچوں اور خواتین کو مسجد میں لانے کی سنت کو بھی زندہ کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ طلاق ثلاثہ کی طرح اب ہمیں اس ذلت کا بھی سامنا کرنا پڑے کہ کچھ نام نہاد مسلم خواتین عدلیہ میں یہ اپیل کربیٹھیںکہ ہمارے لئے مساجد کے دروازے کھلنے چاہئیں۔مولانا نے کہاکہ جنوبی ہند کے مندر سے متعلق فیصلہ کے بعد یہ بہت ممکن ہے ، لہذا ہمیں سب کچھ چھوڑ کر اسلام کی سچی تعلیمات پر غور کرکے ان کی جانب رجوع کرنا چاہئے۔
مولانا نے مروجہ حلالہ کا تذکرہ بھی کیا کہ کہیں ہمیں اس کے ذریعہ کچھ اور حالات نہ دیکھنے پڑیں، حلالہ اسلام میں حرام ہے ہمیں اس کی حلت اور جواز کے شوشے تلاش نہیں کرنے چاہئیں، یہ اسی طرح کی بے حیائی ہے جو آرٹیکل ۷۹۴ کے ذریعہ پھیل رہی ہے، اس لئے ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔اخیر میں اسلام اور اسلامی تعلیمات کی جانب رجوع کرنے کی اپیل اور دعائیہ کلمات پر خطبہ ختم ہوا۔

SHARE