اسلام میں اوہام پرستی کی کوئی جگہ نہیں

 مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اسلام کا بنیادی عقیدہ ’’ توحید‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا ہے ، اللہ تعالیٰ کو ایک ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے اعتبار سے بھی یکتا ہے، خدا کا کوئی کنبہ اور خاندان نہیں اور نہ اس کے لئے اولاد اور اعزۂ و اقارب ہیں اور خدا اپنی صفات اور اختیارات کے اعتبار سے بھی یکتا و بے مثال ہے، حیات و موت کی کلید اس نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے، وہی رزق دیتا ہے، رزق میں وسعت اور تنگی بڑھاتا ہے اور رزق سے محروم کرتا ہے، وہی نفع پہنچاتا ہے اور وہی نقصان سے دو چار کرتا ہے، کامیابی و ناکامی اور فتح و شکست اسی کے حکم سے وابستہ ہے، توحید کا یہ تصور در در سرجھکانے سے انسان کو بچاتا ہے اور بہت سی غلامیوں سے نجات عطا کرتا ہے ، ان ہی میں ایک تو ہمات کی غلامی ہے۔
اوہام پرستی بھی ایک طرح کی غلامی ہے ، کہ آدمی اپنے پاؤں کی ٹھوکروں میں رہنے والی چیزوں سے بھی ڈرنے اور خوف کھانے لگے اور اس سے اپنے نفع و نقصان کو وابستہ کر للے، اگر سامنے سے کوئی جانور نکل جائے تو آدمی سمجھے کہ یہ سفر ناکام ہوگا، گھر پر کوئی پرندہ بیٹھ جائے تو اس کو اپنے لئے مصیبتوں کا پیش خیمہ سمجھنے لگے ، کسی خاص پتھر کی انگوٹھی سے کامیابی اور نفع کی اُمید رکھے، کسی مہینہ ، دن اور گھڑی کو نامبارک ، منحوس اور ’’اشبھ‘‘ تصور کرنے لگے: یہ سب توہمات کی غلامی ہے، جو شخص عقیدۂ توحید سے محروم ہو اور خدا پر اس کا یقین کامل نہ ہو ، مشکل ہے کہ وہ اس غلامی سے آزاد ہو سکے ، یہی وجہ ہے ایسے ترقی یافتہ ممالک جہاں صد فیصد تعلیم یافتہ لوگ پائے جاتے ہیں، وہاں بھی لوگ بعض اعداد کو منحوس سمجھتے ہیں، ہوٹلوں میں اس نمبر کے روم نہیں رکھے جاتے ۔
جو شخص توحید پر جتنا پختہ یقین رکھتا ہو اور اللہ پر جس کا جتنا زیادہ ایمان ہو ، وہ اسی قدر اوہام پرستی کی اس مصیبت سے آزاد اور توہمات کا اسیر بننے سے محفوظ رہے گا، اسلام کی آمد سے پہلے عربوں میں اس طرح کے توہمات پائے جاتے تھے، لوگ سفر کے لئے نکلتے ، پرندے کو اڑایا جاتا، اگر وہ دائیں جانب اڑتا، تو اسے نیک فال تصور کرتے اور سفر کرتے اور اگر بائیں طرف سے اڑتا تو بد فالی لیتے اور سفر سے گریز کرتے، اسی طرح اُلو کو منحوس پرندہ خیال کرتے ، کسی کے گھر پر بیٹھ جاتا تو سمجھتے کہ یہ گھر اُجڑ جائے گا، ’’ صفر ‘‘ کے مہینہ کو نامبارک سمجھتے ، سمجھتے کہ اس ماہ میں جو کاروبار ہوگا نقصان سے دو چار ہوگا، جو سفر ہوگا وہ نامراد ہوگا ، جو شادی ہوگی وہ ناکام ہوگی ، رسول اللہ انے ان تصورات کی تردید فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ : ان چیزو ں کی کوئی حقیقت نہیں ۔ ( بخاری : باب الجذام ) دوسرے کو بیماری لگنے ، پرندہ سے بدفالی، الو اور ماہِ صفر کو منحوس سمجھنے کی کوئی حقیقت نہیں۔
عربوں میں اور ایک خیال یہ تھا کہ صحراء میں کچھ شیاطین ہوتے ہیں ، جو رنگ بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور راہ گیروں کو راستہ سے بھٹکانے کا کام کرتے ہیں، عرب ان کو ’’ غول ‘‘ کہا کرتے تھے، رسول اللہؐ نے اس تصور کی بھی نفی فرمائی ( فتح الباری : ۱ ؍ ۱۶۸) عرب شوال کے مہینہ کو بھی نامبارک اور شادی بیاہ کے لئے ناموزوں تصور کرتے تھے، رسول اللہؐ نے اُم المومنین حضرت عائشہؓ شوال میں نکاح فرمایا اور شوال ہی میں رخصتی بھی ہوئی؛ چنانچہ حضرت عائشہؓ اس خام خیالی کی تردید کرتے ہوئے فرماتی تھیں کہ میرے نکاح سے زیادہ بابرکت نکاح کون سا ہو سکتا ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ اللہ پر جس قدر قوی ایمان ہوگا، اوہام پرستی سے انسان اسی قدر دور رہے گا ، اسلام نے توحید کے عقیدہ کو لوگوں کے ذہن میں ایسا راسخ کر دیا تھا کہ وہ اس قسم کے تصور کو اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے تھے ، حضرت زنیرہؓ ایک صحابیہ ہیں، ایمان لائیں، لوگوں نے اتنا ظلم کیا کہ آنکھ کی بینائی جاتی رہی، لوگ کہنے لگے کہ دیویوں، دیوتاؤں کو برا بھلا کہنے اور ان کا انکار کرنے کی وجہ سے بینائی سے محروم ہوگئی ہے، ہمارے زمانہ میں عورتیں تو کیا مرد بھی اور جاہل و ان پڑھ تو کیا پڑھے لکھے بھی ایسے موقعوں پر گرفتارِ اوہام ہو جاتے ہیں ؛ لیکن حضرت زنیرہؓ کی فکر میں ذرابھی تزلزل نہیں آیا کہ ان کی صرف بصارت اللہ نے لی تھی ، وہ ایمان اور ایمانی بصیرت سے محروم نہیں ہوئی تھیں، حضرت زنیرہؓ کہتی ہیں کہ یہ سب اللہ کے فیصلہ اور اس کے حکم سے ہے ، رسول اللہ ؐ ان کی استقامت اور ثابت قدمی سے بہت خوش ہوئے اور ان کے لئے دُعاء فرمائی؛ چنانچہ پھر ان کی بصارت لوٹ آئی۔
حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب مصر کا علاقہ فتح ہوا، مصر کی معیشت کا مدار دریائے نیل پر تھا، یہاں معمول تھا کہ یہ دریا جب خشک ہو جاتا تو ایک کنواری لڑکی کو دلہن بنا کر دریا کے بیچ میں ڈال دیا جاتا، دریا کی بلا خیز موجیں اٹھتیں اور اسے موت کی نیند سلانے کے بعد جاری ہو جاتیں، جب مصر کے خلافت اسلامیہ کے زیر نگیں آنے کے بعد دریا خشک ہوا اور گورنر مصر حضرت عمر ابن عاصؓ کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو انھوں نے اولاً تو انکار کیا ، پھر لوگوں کے اصرار پر مشورہ کے لئے خلیفۂ راشد حضرت عمرؓ کو خط لکھا، حضرت عمرؓ نے اپنے جواب کے ساتھ ایک اور تحریر دریائے نیل کے نام لکھما اور ہدایت دی کہ اس تحریر کو دریائے نیل میں ڈال دیا جائے، حضرت عمرؓ نے اپنی اس تحریر میں دریا کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اگر تو اللہ کے حکم سے جاری ہے تو میں دعا کرتا ہوں کہ تو جاری ہو جائے اور اگر اللہ کے حکم سے جاری نہیں ہے تو ہمیں تیری ضرورت نہیں، حسبِ ہدایت یہ تحریر دریا میں ڈال دی گئی اور دیائے نیل اس شان سے جاری ہوا کہ دوسرے دن ( جو ہفتہ کا دن تھا) سولہ ہاتھ پانی ہو گیا ، ( البدایہ والنہایہ : ۷؍۱۰۰) اور پھر آج تک کبھی نہیں تھما ۔
اسی طرح کا ایک واقعہ ہندوستان کے ساحلی علاقہ میں پیش آیا ، جس کا تذکرہ ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامہ میں کیا ہے کہ یہاں کے لوگ کافر تھے، یہاں ہر ماہ شیطان وارد ہوتا، اس کے لئے سمندر کے کنارے ایک بت خانہ بنادیا تھا، جو ’’ بد خانہ ‘‘ کہلاتا تھا، جو دن شیطان کی آمد کا ہوتا، لوگ اس دن ایک کنواری لڑکی کو سنوار کر اس بدخانہ میں بٹھاتے ، رات میں وہیں چھوڑ دیتے ، جب صبح کو آتے تو اسے اس حال میں پاتے کہ وہ مردہ ہوتی اور کنواری نہ ہوتی، اتفاق سے یہاں ایک مغربی تاجر ابو البرکات بربری جو حافظ ِقرآن تھے، آئے ہوئے تھے، وہ ایک بوڑھی خاتون کے مہمان تھے، ایک دن جب اپنے میزبان کے یہاں پہنچے تو دیکھا کہ خلافِ معمول وہ بوڑھی خاتون بہت سی عورتوں کے ساتھ مصروفِ گریۂ و بکا ہے، ایک ترجمان کے واسطہ سے صورتِ حال دریافت کی تو معلوم ہوا کہ شیطان سے بچاؤ کے لئے آج اس کی اکلوتی بیٹی کے نام قرعۂ فال نکلا ہے ۔
شیخ ابو البرکات کو داڑھی نہ تھی ، انھوں نے پیشکش کی کہ آج اس لڑکی کی جگہ وہ جائیں گے ؛ چنانچہ وہ بدخانہ میں بیٹھ گئے اور قرآن کی تلاوت کا سلسلہ جاری رکھا، اسی طرح پوری رات گذری، جب معمول کے مطابق لوگ صبح میں تحقیق حال کے لئے پہنچے تو دیکھا کہ وہ زندۂ و سلامت ہیں اور تلاوت میں مصروف ہیں، یہ خبر شدہ شدہ پورے علاقہ میں پھیل گئی اور علاقے کے راجہ تک اطلاع پہنچی، ابن بطوطہ نے اس کا نام ’’وشنوازہ‘‘ لکھا ہے، عجب نہیں کہ یہ ’’وشنوراجہ‘‘ کی بدلی ہوئی صورت ہو ، شیخ نے راجہ پر بھی اسلام پیش کیا، اس نے کہا کہ آئندہ ماہ تک میرے پاس رہو، اگر آئندہ مہینہ میں بھی تم یہی عمل کر کے دکھاؤ اور ہم لوگوں کو اس شیطان کی ابتلاء سے بچا سکو تب ہم ایمان لے آئیں گے، اگلے ماہ بھی یہی واقعہ پیش آیا ؛ چنانچہ راجہ مسلمان ہو گیا اور راجہ کے ساتھ رعایا کے اکثر لوگ بھی مسلمان ہو گئے ۔ ( رحلۃ ابن بطوطہ : ۱ ؍ ۹۰ – ۵۸۹)
اگر ایمان قوی ہو اور اللہ سے نفع و نقصان کا سچا یقین ہو تو ایک جاہل اور ان پڑھ شخص بھی ایسے اوہام و خرافات میں مبتلا نہیں ہو سکتا، تیمور لنگ کوئی عالم و فاضل حکمراں نہیں تھا ؛ لیکن جب اس نے دریائے جمنا کو عبور کرنا چاہا تو جیوتشیوں نے منع کیا اور کہا کہ یہ منحوس گھڑی ہے، تیمور نے اس کو کوئی اہمیت نہیں دی اور کہا کہ ہم ارباب تنزیہ و توحید ایسی باتوں پر یقین نہیں رکھتے، یہ تو مشرکین اور تثلیث پر ایمان رکھنے والوں کا عقیدہ ہے اور اگر ایمان میں ناپختگی اوریقین میں کمزوری ہو تو اچھے خاصے پڑھے لوگ بھی ایسی چیزوں کا شکار ہو سکتے ہیں ۔
اس ملک میں رہتے ہوئے جہاں ہم نے برادرانِ وطن سے زندگی کے دوسرے شعبوں اور سماجی رسوم و روایات میں ہندو معاشرت کا اثر قبول کیا ، وہیں فکر و عقیدہ کے باب میں بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے، ان ہی میں سے ایک اوھام پرستی کا مزاج و مذاق ہے، آج مسلمان بھی سمجھتے ہیں کہ بلی راستہ کاٹ دے تو سفر ملتوی کر دینا چاہئے، الو کا بیٹھنا نحس کی علامت ہے ، اگر کسی بہو کے گھر میں آنے کے بعد سسرال میں کسی کا انتقال ہو جائے تو اس کو منحوس تصور کیا جاتا ہے، گھر کی تعمیر شروع ہو تو ناریل پھوڑے جاتے ہیں، گاڑی خرید کی جائے تو چند لیموں لٹکائے جاتے ہیں اور اب ایک نئی بات گھر کی تعمیر میں ’’ واستو‘‘ کی شروع ہوئی ہے، پنڈت بتاتا ہے کہ گھر کو کس ڈیزائن کا ہونا چاہئے، خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی خلاف ورزی میں بے برکتی ہوگی اور نقصان اٹھانا پڑے گا ؛ حالاں کہ شرعاً ایک مسلمان کے لئے صرف یہ رعایت ضروری ہے کہ بیت الخلا کی نشست ایسی ہو کہ قضاء ِحاجت کرتے ہوئے چہرہ یا پشت قبلہ کی سمت میں نہ پڑے اور بس؛ مکان کے سلسلہ میں اس کے علاوہ انجینئر سے مشورہ کرنا چاہئے کہ مکان کس طرح کا ہو ، کہ ہوا اور روشنی پوری طرح بہم پہنچے؛ لیکن اس کا مشورہ بھی پنڈتوں سے کیا جاتا ہے ، جو محض چند پیسوں کے لئے لوگوں کو اوہام میں گرفتار رکھنا چاہتا ہے، یہ تمام باتیں محض ایمان کی کمزوری اور ضعفِ عقیدہ کا نتیجہ ہیں، حد یہ ہے کہ اب بعض مسلمان بھی عقد ِنکاح کے وقت اور شادی کے جوڑوں کے سلسلہ میں عاملین سے مشورہ لیتے ہیں، گویا جس غلامی سے اسلام نے اسے آزاد کیا تھا، خود ہی اپنے آپ اس میں مبتلا ہوتے ہیں ۔
اس سے بڑھ کر بد قسمتی اور کیا ہوگی کہ آپؐ نے کھلے لفظوں میں ’’ صفر ‘‘ کے منحوس ہونے کی تردید فرمائی، یہ تردید نہایت ہی صحیح اور مستند روایتوں سے ثابت ہے، اس کے باوجود ’’صفر ‘‘ کی ۱۳ تاریخ اور آخری چہار شنبہ کو منحوس دن تصور کیا جاتا ہے، کچھ لوگ چھلے فروخت کرنے اور اپنے روزگار کا مسئلہ حل کرنے کی غرض سے باور کراتے ہیں کہ اس دن ڈھیر ساری بلائیں نازل ہوتی ہیں اور وہ ان کا علاج کر سکتے ہیں؛ حالاں کہ اسلام کی نگاہ میں کوئی وقت منحوس نہیں ، آپ ا نے بعض مہینوں ، راتوں اور گھڑیوں کو مبارک ضرور قرار دیا ؛ لیکن کوئی وقت اور گھڑی نامبارک نہیں، رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ اگر نحس ہوتا تو تین چیزوں میں ہوتا: عورت ، گھر اور سواری ، اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز میں نحس ہے ہی نہیں ، یہ مشرکانہ تصور ہے کہ انسان اللہ کے بجائے ایسی چیزوں سے نفع و نقصان کو متعلق سمجھے، اس سے بھی زیادہ بدقسمتی کچھ اور ہو سکتی ہے کہ کوئی قوم علم رکھنے کے باوجود انجانوں جیسا کام کرے اور خدا نے جس کی پیشانی چوکھٹوں کے داغِ مذلت سے آزاد کیا ہو وہ خود اپنی جبینِ شرافت کو داغ دار اور رسوا و خوار کرے ؟؟