آسام این آر سی پر سپریم کورٹ نے جاری کی کچھ تازہ ہدایات ، مولانا بد رالدین اجمل نے خوش آئند قرار دیا

آج چیف جسٹس رنجن گگوئی اور جسٹس فالی نریمن پر مشتمل بنچ کے سامنے آسام میں شائع ہونے والے نیشنل رجسٹر برائے شہریت (این آر سی) سے متعلق مسائل جیسے چالیس لاکھ لوگوں کے نام کی عدم شمولیت ،، ان کو اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے متعین کئے گئے ڈوکومنٹس اور طریقۂ کارپر بحث ہونی تھی اور امید تھی کہ این آر سی کو آرڈینیٹر نے پندرہ میں سے جن پانچ ڈوکومنٹس کو شہریت کے ثبوت کے لئے ناقابل قبول قرار دیا ہے اس سے متعلق کوئی اہم ہدایت جاری ہوگی،مگر ایسا نہیں ہو سکا بلکہ این آر سی کو آرڈینیٹر نے عدالت میں اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان مسترد کردہ پانچ ڈوکومنٹس کو ناقابل قبول قرار دینے پر اب بھی قائم ہے اور اس کی وجہ وہ پاور پوائنٹ پرزینٹیشن کے ذریعہ بتانا چاہتے ہیں۔ ان پانچ ڈوکومنٹس میں راشن کارڈ،سیٹیزن سرٹیفیکٹ،ریفیوجی سرٹیفیکٹ،1951 کا این آر سی اور 1966 ا سی طرح 1971 کا ووٹر لسٹ شامل ہے۔ بہر حال عدالت نے انہیں اس بات کی اجازت دے دی ہے، چنانچہ این آر سی کو آر ڈینیٹرر ۲۶، اکتوبر کو آسام سرکار اور مرکزی سرکار کے آفیسروں، اٹارنی جنرل،سولسٹر جنرل اور متعلقہ فریقوں کے وکیل کے سامنے بندکمرے میں پاور پوائنٹ پرزینٹیشن پیش کریں گے۔ اس کے علاوہ عدالت نے اس بات کی بھی اجازت دی کہ این آر سی کو آرڈینیٹر نے عدالت میں سیل بند لفافے میں پانچ ڈوکومنٹس کو این آر سی پروسیس سے الگ رکھنے کی جو وجوہات بتائے ہیں اس کی کاپی تمام متعلقہ فریقوں کو دو دن کے اندر دیا جائے، اور وہ لوگ اگر چاہیں تو ۳۰، اکتوبر سے پہلے اپنے اعتراضات تحریری طور پر جمع کرسکتے ہیں۔ تیسری بات عدالت نے یہ بتائی کہ ایک نومبر ۲۰۱۸ کو چیف جسٹس کی عدالت پورے دن آسام کے این آر سی کیس کی ہی سماعت کرے گی اور تمام فریقوں کے دلائل سنے گی۔ آج کی سماعت اور فاضل ججوں کی ہدایات پر جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید محمود مدنی اور جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے صدر و رکن پارلیمنٹ مولانا بد رالدین اجمل نے کہا کہ ہمیں عدالت پر مکمل بھروسہ ہے کہ وہاں سے انصاف ملے گا اور ہندوستان کے شہریوں کو ان کے ہی ملک میں شہریت سے محروم ہونے سے بچا لیا جائے گا۔پانچ ڈوکومنٹس کو این آر سی کے کو آر ڈی نیٹر کے ذریعہ پروسیس سے خارج کرنے پر انہوں نے کہا کہ فائنل فیصلہ تو عدالت کو کرنا ہے مگر یہ انتہائی تشویش کی بات ہے کیوں کہ اگر ایسا ہوا تو بہت سے لوگ متأثر ہوں گے جبکہ خود کو آرڈینیٹرصاحب عدالت میں کہہ چکے ہیں کہ جن دو کروڑ نوے لاکھ لوگوں کا نام اب تک این آر سی میں آچکا ہے ان میں سے 93% لوگوں نے ان پانچ ڈوکومنٹس کو استعمال کرکے اپنی شہریت ثابت کی ہے۔اب ایسے میں اگر ان پانچ ڈوکومنٹس کو مسترد کر دیا گیا تو چالیس لاکھ لوگوں میں سے اکثریت کا نام این آر سی میں شامل نہیں ہو سکے گا۔ واضح رہے کہ 2009 میں آسام پبلک ورکس نامی تنظیم کے ذریعہ دائر کردہ مقدمہ جس کے تحت این آر سی کا کام ہو رہاہے ہے اس مقدمہ( PIL No. 274/2009 ) میں مولاناقاری عثمان منصور پوری اور مولانا سید محمود مدنی کی زیر سر پرستی اور مولانا بدرالدین اجمل کی زیر نگرانی جمعیۃ علماء صوبہ آسام ابتداء ہی سے فریق ہے، اور اس کے ساتھ ہی اس سے متعلقہ مزید پانچ مقدمات بھی سپریم کورٹ میں لڑ رہی ہے ۔ ان مقدمات کی پیروی کے لئے ماہر وکلاء کی ایک ٹیم کی خدمات حاصل کی گئی ہے جن میں سینئر اڈووکیٹ بی ایچ مالا پلے، سینئر اڈووکیٹ وی گری، سینئر اڈووکیٹ جے دیپ گپتا،، سینئر اڈووکیٹ سنجے ہیگڑے، اڈووکیٹ منصور علی، اڈووکیٹ شکیل احمد سید،اڈووکیٹ نذر الحق مزار بھیا، اڈووکیٹ اے ایس تپادر، اڈووکیٹ امین الاسلام اوراڈووکیٹ ابوالقاسم تعلقدار وغیرہ شامل ہیں۔آج کی سماعت کے دوران جمعیۃ علماء صوبہ آسام کے جنرل سکریٹری اور ایم ایل اے مولانا حافظ بشیر احمدصاحب، ایڈیشنل جنرل سکریٹری مولانا عبدالقادر صاحب،سکریٹری ڈاکٹر حافظ رفیق الاسلام(سابق ایم ایل اے) وغیرہ عدالت میں موجود تھے

SHARE