فکر سرسید کی اہمیت و معنویت آج بھی برقرار

اُردو یونیورسٹی میں سرسید یادگاری خطبہ۔ پروفیسر فرحت اللہ و دیگر کے خطاب
حیدرآباد (سیف الرحمن/ملت ٹائمز)
غیر مسلموں نے اسلام کی جو خدمت کی اسے تسلیم کیا جانا چاہیے۔ جیسے مائیکل ایچ ہارٹ نے تاریخ کی 100 ممتاز ترین ہستیوں میں نبی کریم کو پہلا مقام دیا تھا۔ کیونکہ نبی نے دورِ جہالت میں جب لوگ تعصب کے اندھیروں اور ذہنی جہالت میں پھنسے ہوئے تھے سماجی و معاشرتی اصلاح کی تھی۔ تعصبات کے بت رسول نے توڑے تھے اور سرسید احمد خان اسی راہ پر چلے۔ گاندھی جی کے پوتے راج موہن گاندھی نے سرسید کو خراج عقیدت پیش کی اور کہا کہ سرسید کو ان کی قوم نے نوازا بھی اور ان کی شخصیت پر کیچڑ بھی اچھا لا۔ان خیالات کا اظہار پروفیسر فرحت اللہ خان ، پروفیسر ایمیریٹس، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے کل مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں کیا۔ وہ مرکز برائے مطالعاتِ اردو ثقافت کے زیر نگرانی ، آزاد لٹریری فورم، مانو کے تحت سرسید یاگاری خطبہ پیش کر رہے تھے۔ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز، وائس چانسلر نے صدارت کی۔
انہوں نے کہا کہ لفٹنٹ کرنل گراہم نے لکھا ہے کہ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج دنیا میں اپنی نوعیت کا پہلا سیکولر ادارہ تھا۔ اس میں ہندو اور عیسائی طلبہ کی خاصی تعداد تھی۔کائنات کے محسن اعظم رسول اللہ کی ذات مبارک ہے۔ سیکولر لاطینی زبان کے لفظ سیکولم سے نکلا ہے۔ اگر سرسید کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ انہوں نے عبرانی سیکھنے کے لیے ایک یہودی کو استاد رکھا۔ سرسید نے ہندو مسلم ٹرسٹ قائم کیا تھا۔ان کے خاندان میں بھی یہی روایت رہی چنانچہ لالہ ملوک چند جو سرسید کے نانا کے دیوان تھے، کو بھی ان نانا کے انتقال کے بعد ترکہ میں برابر حصہ دیا گیا تھا۔ سرسید نے 1857 کے ہنگاموں میں 22 انگریز خاندانوں کو بچایا۔ انگریزوں نے انھیں جاگیر دی تو یہ کہہ کر واپس کردیا کہ مسلمان خدمت کی اجرت نہیں لیتے۔سرسید کی پلیگ کے مریضوں کی خدمت کے باعث راجا جے کشن داس ان کے دوست ہوگئے۔ سرسید نے جمہوریت کا پہلا بیج ”اسباب بغاوت ہند“ لکھ کر ڈالا۔ اس میں انہوں نے مذہبی عقائد میں انگریز حاکموں اور پادریوں کی دخل اندازی کو بغاوت کا سبب قرار دیا۔انسانی زندگی میں وقار تعلیم سے آتا ہے۔ سرسید نے سو سال پہلے یہ بات کہی۔ 2009 میں حکومت نے اسے قانونی حیثیت دی۔ فکر سرسید کو آگے بڑھانے اور کردار کو بلند کرنے کی ضرورت۔
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے یوم سرسید کی مبارک باد پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نقش قدم پر اردو یونیورسٹی آگے بڑھ رہی ہے۔انہوں نے کہا ”ہم سرسید یا شخصیات کو یاد کرتے ہیں ان کے مشن کو بھول جاتے ہیں۔ ہم سب کے اندر خدمت کا جذبہ پیدا ہونا ضروری ہے۔ خدمت سے ہی دل جیتے جاتے ہیں۔ اردو محبت کی زبان ہے۔ یہ ملک بھی ہمارا ہے اور اس میں رہنے والے بھی ہمارے ہیں۔مہمانِ اعزازی وسیم الرحمان، آئی آر ایس نے کہا کہ یونانی طب ہمارا عظیم سرمایہ ہے۔ اسے فی نفسہ مہیا کرادیا جائے تو سوستھ بھارت کامقصد حاصل کرنے میں آسانی ہوگی۔یونانی میڈیکل کالج زیادہ سے زیادہ جگہوں پر کھولنا وقت کی ضرورت ہے۔سرسید نے1872 میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں یونانی طب کے فروغ کی اہمیت و ضرورت پر زور دیا تھا۔
مہمان خصوصی کا تعارف جناب انیس اعظمی نے کرایا۔جناب عاطف عمران، استاد شعبہ ¿ اسلامیات کی قرأت کلام پاک سے سمینار کا آغاز ہوا۔ طلبہ حنا خان، نسیم احمد، دانش خان، مبشر جمال، طلحہ عباسی، عاقب خان، عامر مجیبی، طارق انور، محمد فیضان، سانحہ ترنم، شاہنواز احمد نے انتظامات میں حصہ لیا۔ یوم سرسید کے سلسلہ میں یونیورسٹی میں تحریری، تقریری و کوئز مقابلوں کا انعقاد عمل میں آیا۔ اس میں نمایاں کارکردگی پر تقریری مقابلے اردو میں سیف الرحمن پہلا انعام ملا۔ تحریری مقابلوں میں اردو میں نورِ عالیہ، انگریزی میں نکہت عزیز اور ہندی میں رضیہ سلطانہ کو انعام اول دیا گیا۔ کوئز مقابلوں میں محمد منہاج، عادل حسن اور افضال احمد کی ٹیم نے پہلا انعام حاصل کیا۔
SHARE