سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر سمیت سات ملزمین پر دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دینے اور ملک سے غداری کا الزام عائد

خصوصی این آئی اے عدالت نے ملزمین کو کوئی بھی راحت نہ دیتے ہوئے چارج فریم کردیا
جمعیة علماءہند کی قانونی جدوجہد کامیاب
نئی دہلی (ایم این این )
بالآخر آج دس سال اور ایک مہینہ کے طویل انتظار کے بعد خصوصی این آئی اے عدالت نے سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر، کرنل پروہت سمیت سات ملزمین پر دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دینے کا الزام عائدکردیا اور استغاثہ کو حکم دیا کہ وہ ۲ نومبر سے باقاعدہ مقدمہ کی سماعت شروع کیئے جانے کے لیئے لائحہ عمل تیار کرے۔
آج صبح گیارہ بجے جیسے ہی عدالت کی کارروائی شروع ہوئی کرنل پروہت کے وکیل ششی کانت شیودے نے خصوصیٰ عدالت سے ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے لیئے وقت طلب کیا اور عدالت سے گذارش کی کہ کم از کم ملزم کو چار دنوں کاوقت دیا جائے تاکہ وہ ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلہ کو جس میں اس نے نچلی عدالت کے فیصلہ پر اسٹے دینے سے انکار کیا ہے ک سپریم کورٹ میں چیلنج کرسکے۔ایڈوکیٹ ششی کانت شیودے نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کو سپریم کورٹ میں اپیل داخل کرنے کا موقع ملنا چاہئے کیونکہ ممبئی ہائی کورٹ نے نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف اس کی اپیل سماعت کے لیئے منظور کرلی ہے نیز سپریم کورٹ نے بھی ابھی تک اس معاملے میں حتمی فیصلہ نہیں دیا ہےکہ آیا ملزمین پر یو اے پی اے قانون کا اطلاق ہوگا یا نہیں۔
ملزم کی درخواست کی این آئی اے کے وکیل اویناس رسال اور متاثرین کی نمائندگی کرنے والی تنظیم جمعیة علماءمہاراشٹر (ارشد مدنی) کے وکیل شریف شیخ نے مخالفت کی جس کے بعد خصوصی جج پڈالکر نے عرضداشت کو مسترد کرتے ہوئے ملزمین پرچار ج فریم کیئے جانے کے احکامات جاری کر دیے اور کہا کہ ان پر شدید دباﺅ ہے کہ پرانے معاملات کو جلد از جلد ختم کیا جائے نیز اس معاملے میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے متعدد فیصلوں میں بھی معاملے کی جلد از جلد سماعت شروع کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے گئے ہیں۔
آج عدالت میں ضمانت پر رہائی کے بعد پہلی بار سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر(۷۴) بھی حاضرہوئی تھی اور دیگر ۶ ملزمین میجر رمیش اپادھیائے(۷۶) اجئے ایکناتھ راہیکر (۸۴)، سمیر شرد کلرنی(۷۴)، کرنل پروہیت(۶۴)، سوامی امرتیا نند(۹۴) اور سدھاکر چترودیدی(۶۴) بھی ان کے وکلاءاور اہل خانہ کے ہمراہ کمرہ عدالت میںموجود تھے ۔
خصوصی جج پڈالکر نے ملزمین سے بلند آواز میں ان کا نام پتہ اور کاروبار دریافت کرنےکے بعد انہیں ہندی، مراٹھی اور انگریزی زبانوں میں بتایا کہ ان پر الزام عائد کیا گیا ہیکہ وہ ابھینو بھارت نامی تنظیم کے رکن ہیںاور انہوں نے جون ۸۰۰۲ سے لیکر اکتوبر ۸۰۰۲ کے درمیان مالیگاﺅں میں دہشت گردانہ کاررائیاں انجام دینے کے لیئے سازش رچی تھی اور مالیگاﺅں میں واقع شکیل گڈس کمپنی اور انجمن چوک نامی مقامات پر بم دھماکے انجام دیئے تھے جس میں ۶ لوگوںکی موت اور ۱۰۱ شہری زخمی ہوئے تھے نیزان پر یو اے پی اے، آئی پی سی، ایکسپلوزیو سبٹنس ایکٹ، آرمس ایکٹ کے تحت مقدمہ قائم کیا جاتا ہے ، خصوصی جج نے ملزمین سے دریافت کیا کہ آیا انہیں الزامات قبول ہیں یا نہیں جس پر ملزمین نے کہا کہ انہیں الزام قبول نہیں ہے اور وہ مقدمہ لڑکے کے لیئے تیار ہیں۔ ملزمین کی جانب سے نفی میں جواب موصول ہونے کے بعد تمام ملزمین سے چارج فریم پیپر پر دستخط لئے گئے اور پھر عدالتی کارروائی کا اختتام ہوا۔
دورن سماعت ایک جانب جہاں عدالت میں درجنوں الیکٹرانک، پرنٹ اور دیگر ذرائع ابلاغ کے نمائندے موجود تھے وہیں جمعیة علماءکی جانب سے ایڈوکیٹ متین شیخ،ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ ابھیشک پانڈے ، ایڈوکیٹ ہیتالی سیٹھ و دیگر موجود تھے۔
آج کی عدالتی کارروائی کے بعد جمعیة علماءمہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے ممبئی میں اخبار نویسوںکو بتایا کہ وہ آج کی عدالتی کارروائی کا خیر مقدم کرتے ہیں ، حالانکہ بم دھماکوں کے دس سال اور ایک ماہ ایک دن بعد ملزمین پر چارج فریم ہو الیکن انہیں امید ہے کہ اب متاثرین کو انصاف ملے گا اور نچلی عدالت بم دھماکوں کو انجام دینے والے بھگواءملزمین کو عدالت کیفر کردر تک پہنچائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس پورے معاملے میں بطور مداخلت کار جمعیة علماءکے وکلاءکی کوششیں اہم رہی ہیں نیز انہوںنے ہر نازک مرحلے پر نچلی عدالت سے لیکر سپریم کورٹ تک موثر طریقے سے اپنے دلائل پیش کیئے جس کی وجہ سے بھگواءملزمین کو راحت نہیں مل سکی جس کی امید لگائے وہ لوگ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے لگاتار رجوع ہوتے رہے کسی بھی طرح سے چارج فریم نہ ہوسکے۔گلزار اعظمی نے کہاکہ خصوصی این آئی اے عدالت کے ماضی کے جج ایس ڈی ٹیکولے اور موجودہ جج پڈالکر کے فیصلوں سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد بڑھا ہے اور انہیں امید ہے کہ بم دھماکہ انجام دینے والوں کو عدلیہ کڑی سے کڑی سزا دے گی۔واضح رہے کہ بھگواءملزمین کی کوشش تھی کہ انہیں یو اے پی اے قانون کے تحت مقدمہ کا سامنا نہ کرنے پڑے کیونکہ یو اے پی اے قانون کے تحت الزام ثابت ہونے پر عمر قید اور پھانسی کی سزا ہوسکتی ہے۔

SHARE