آسمان سے گرے تو کھجور میں اٹکے

ڈاکٹر سلیم خان 

مودی سرکار کے لیے رافیل اور راہل کیا کم تھے کہ سپریم کورٹ بھی درمیان میں آگیا۔حکومت کے تئیں عدالت عظمیٰ کے تیور ویسے ہی ٹھیک نہیں تھے اوپر سے وہاں رافیل سے متعلق پی آئی ایل داخل ہوگئی۔ اس پر سرکار کا پریشان ہونا لازم تھا سو ۱۰ اکتوبر کو سماعت کے موقع پر اس نے مقدمہ کی مخالفت کرتے ہوئے اخراج کی گزارش کردی۔ سرکاری دلیل یہ تھی کہ یہ مقدمہ سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے داخل کیا گیاہے۔ اٹارنی جنرل نے حکومت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ رافیل ڈیل قومی سلامتی سے جڑا ہوا معاملہ ہے اور ایسے مدعوں کا عدالتی جائزہ نہیں لیا جا سکتا ہے۔ عدالت نے ان دلائل کو مسترد کردیا اور مرکز کو حکم دیا کہ فی الحال رافیل جہاز کی قیمتوں کا انکشاف نہ کرنےاور تکنیکی تفصیلات بھی نہ بتائے بلکہ سودے کے عمل (process) کی تفصیلات مہر بند لفافے میں جمع کردے۔چیف جسٹس رنجن گگوئی ، جسٹس ایس کے کول اور جسٹس کے ایم جوزف کی بنچ نے یقین دلایا کہ وہ عرضیوں میں لگائے گئے الزامات کی جانب توجہ نہیں دے رہا ہے۔ اس سے حکومت کی جان میں جان آئی۔

کورٹ نے مرکز ی حکومت سے کہا تھا کہ سیل بند لفافے میں تفصیلات ۲۹ اکتوبر تک جمع کردی جائیں نیز اگلی شنوائی ۳۱ اکتوبر کو طے ہوگئی۔ حکومت کا خیال تھا کہ عدلیہ چند رسمی اقدامات کرکے معاملہ رفع دفع کردے گا لیکن اسے مایوسی ہوئی۔ عدالت نے دوسری سماعت میں مرکزی حکومت سے ۱۰ دنوں کے اندر مہر بند لفافے میں رافیل طیارے کی قیمت اور اس کی دیگر تفصیلات پیش کرنے کےلیے کہہ دیا ۔ اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال کے یہ کہنے پر کہ جنگی طیارے کی قیمت مخصوص اطلاع کو منظر عام پر نہیں لایا جا سکتا سپریم کورٹ نے کہا کہ جو اطلاعات عوامی کی جا سکتی ہیں وہ اس کی تفصیل کا اشتراک عرضی گزاروں کے ساتھ کرے۔ حکومت بتدریج اپنی گردن کے گرد شکنجہ تنگ ہوتا ہوا محسوس کررہی ہے لیکن خوش قسمتی سے سی بی آئی کی طرح عدلیہ پر کوئی کریک ڈاون ممکن نہیں ہے۔

عدالت عظمیٰ کے اس رویہ سے دیگر عدالتوں کا بھی حوصلہ بڑھا ہے ۔ میرٹھ کے ہاشم پورہ میں ۱۹۸۷؁ کو کئے گئے قتل عام کیس میں دہلی ہائی کورٹ نے ذیلی عدالت کے فیصلے مسترد کرتے ہوئے ۱۶ پی اے سی اہلکاروں کو مجرم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنادی ہے۔میرٹھ کے ہاشم پورہ میں ۴۰ مسلم نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ مارچ ۲۰۱۶؁میں سیشن کورٹ نے ثبوتوں کی کمی کا حوالہ دے کر ملزمین کو بری کر دیا تھا۔ اس معاملے میں عدالت نے بڑی انوکھی منطق پیش کی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ ہاشم پورہ محلہ سے نوجوانوں کا پی اے سی کے ٹرک سے اغوا کیا گیا اور انہیں مار کر ندی میں پھینک دیا گیا لیکن یہ ثابت نہیں ہو پایا کہ اس قتل عام میں پی اے سی اہلکار شامل تھے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر پی اے سی والے اس کے لیے ذمہ دار نہیں تھے تو قاتلوں کا پتہ لگایا جاتا لیکن جب مقصد ملزمین کو رہا کرنا ہو تو بھلا یہ کیوں کیا جائے؟ یہ سزاتیس سال بعد ہوئی ہے۔ اتنے عرصے میں تو ان لوگوں کو ۱۴ سال کی عمر قید گزار کر رہا ہوجاناچاہیے تھا ۔ اس فیصلے کو اگر سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا تو فیصلہ نہ جانے کب آئے گا ؟ اور اس وقت تک کتنے ملزم زندہ ہوں گےلیکن عدالت عالیہ کے اس جرأتمندانہ فیصلے سے عدلیہ پر عوام کا عتماد بڑھا ہے۔

وزیراعلیٰ یوگی ادیتیہ ناتھ نے حال میں رام مندر سے متعلق کہا تھا ’’ انصاف میں تاخیر انصاف سے محرومی کے مترادف ہے‘‘(Justice delayed is justice denied)۔ یوگی جی کا یہ مکالمہ اگر ان کےاقتدار کی مجبوری نہیں بلکہ من پریورتن ہوتا تووہ ہاشم پورہ کے فیصلے پر وہ خوشی اور اس میں ہونے والی تاخیر پر افسوس کا اظہار کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کی وجہ ظاہر ہے مسلمانوں کا مظلوم اورہندووں کا ظالم ہونا ہے۔ عدالت کے فیصلوں میں تاخیرپر فکر مند وزیر اعلیٰ کے اپنے کے خلاف دس سال سے ایک مقدمہ زیر سماعت ہے ۔ اس قضیہ میں خود ان کی حکومت نے عدالت عالیہ سے مقدمہ خارج کرنے کی درخواست کی اور ہائی کورٹ نے اسے قبول بھی کرلیا مگر سپریم کورٹ نے اس کو دوبارہ غور کرنے کے لیے لوٹا دیا۔

اس طرح جب شکایت کنندہ پرویز پرواز کے حق میں عدالت عظمیٰ کی رائے آگئی تو انہیں کے ایک اجتماعی عصمت دری کے معاملے میں گرفتار کرلیا گیا۔ اس معاملے میں پرویز کے ساتھی اسد حیات کا کہنا ہے کہ سیاسی دباو کے سبب پرویز کو ایک جعلی مقدمہ میں پھنسایا گیا تھا لیکن بعد میں شواہد کی عدم موجودگی کے باعث پولس نے مقدمہ بند کرکے انہیں رہا کردیا ۔ دوبارہ اس کیس کو کھول کر پرویز کو ستایا جارہا ہے۔جو وزیراعلیٰ خود اس طرح کی ناانصافی کا ارتکاب کرے تو اسے مندر کی تعمیر میں انصاف کی دہائی اور تاخیر سے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔

سپریم کورٹ اور دہلی ہائی کورٹ کی طرح مالیگاوں دھماکہ میں این آئی اے عدالت نے بھی بہادری کا مظاہرہ کیا۔ اس نے ہر طرح کے سیاسی دباو کو پس پشت ڈال کر لیفٹیننٹ کرنل پرساد پروہت اور سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر سمیت ۷ دیگر ملزمان پردہشت گردانہ سازش رچنے اور قتل کے الزامات طے کردیئے ۔ گوکہ یہ کام دس سال بعد ہوا مگر دیر آید درست آید کہہ کر اس کا استقبال کیا جانا چاہیے۔ ۔ اس مقدمہ میں این آئی اے کی پیروی کرنے والی وکیل روہنی سالیان نے جون ۲۰۱۵؁ میں قومی تحقیقاتی ایجنسی پر الزام عائد کیا تھاکہ مرکز ی حکومت ملزمین کے تعلق سے نرم رویہ اختیار کرنے کے لیے ایک سال سے دباؤ ڈال رہی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب وہ اثرات کم ہوگئے ہیں ۔

 طویل عرصہ بعد کے بعد سہی این آئی اے کی خصوصی عدالت نےکرنل پروہت اور سادھوی پرگیا کے علاوہ میجر رمیش اپادھیائے، سمیر کلکرنی، اجے راہرکر، سدھاکر دیویدی اور سدھاکر چترویدی پر یواے پی اے کی دفعہ ۱۸ ( دہشت گردانہ واردات کو انجام دینا)، اور ۱۶، ( دہشت گردانہ واردات انجام دینے کی سازش کرنا)، کے علاوہ دھماکہ خیز مواد سے متعلق الزامات طے کیے۔ ہندو تواوادیوں کا الزام تھا کہ ہندو دہشت گردی کوئی چیز نہیں ہے ۔ کانگریس حکومت ہندو سماج کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے یہ کھیل کررہی ہے لیکن فی الحال تو مرکز اور صوبے میں کمل کھلا ہواہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب کون کس کو خوش کرنے کے لیے اور کسے بدنام کرنے کی خاطر یہ سب کررہا ہے؟؟؟ ایک قابلِ غور بات یہ ہے جب معاملہ گجرات کا ہوتا ہے تو سرکاری ایجنسی کا رویہ مختلف ہوتا ہے لیکن مہاراشٹر کے اندر اس میں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے حالانکہ دونوں مقامات پر بی جے پی صوبائی حکومت ہے۔ شاہ جی کےمعاملات کو جس طرح رفع دفع کیا جاتا ہے وہ سلوک عام ہندوتواوادی کے ساتھ نہیں ہوتا۔ مودی دور میں غیروں کے علاوہ اپنوں کے ساتھ بھی انصاف کے پیمانے مختلف ہوجاتے ہیں ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں