سیتامڑھی کےتمام فساد متاثرین کو معاوضہ دیا جائے ، اور قصورواروں کے خلاف سخت سے سخت کاروائی کی جائے : جمعیت علماء

سیتامڑھی(ایم این این )سیتامڑھی میں گذشتہ ماہ 19/20 اکتوبر کو درگا پوجا وسرجن سے پہلے اور بعد میں ہوئے فرقہ وارانہ فساد میں ایک معمر شخص زین الحق انصاری مقام بھورہا تھانہ ریگا ضلع سیتامڑھی کو دنگائیوں نے زندہ جلاکر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، اور وہیں محمد صابر اور محمد معین انصاری سمیت کئی دیگر کو شدید طور پر زخمی کرنے کے بعد درجنوں دوکانوں ومکانوں کو بھی لوٹا اور جلا دیا گیا، سیتامڑھی ضلع میں ہرسال درگا پوجا کے موقع سے فرقہ وارانہ فساد ہونے کا خطرہ بنا رہتا ہے، سیتامڑھی میں آزادی کے بعد سے لیکر اب تک درجنوں فسادات رونما ہوچکے ہیں جس میں سب سے زیادہ جانی نقصانات مسلمانوں کی ہی ہوئے ہیں، کروڑوں کی املاکیں لوٹی گئیں، سیکڑوں مکانات جلائے گئے، فسادات کا لامتناہی سلسلہ ایسا جاری ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے، سیتامڑھی میں 1959 اور 1992 میں دوبڑے دنگے ہوچکے ہیں 1959 کے دنگے میں سابق ایم پی محمد انوار الحق کے والد شیخ محمد منیرالدین سمیت نہ جانے کتنے لوگوں کی شہادت ہوئی تھی، 1992میں بھی کئی روز تک دنگا فساد ہوتا رہا، اس میں بھی کافی مسلمان شہید ہوئے تھے، سیتامڑھی ضلع کے فسادات کی تفصیل تحریر کرنے کیلئے نہ جانے کتنے صفحات کی ضرورت ہوگی، سیتامڑھی کے 17 بلاکوں میں سے شاید ہی کوئی بلاک ایسا اچھوتا رہ گیا ہو جس کے دامن ہر فرقہ وارانہ فساد کا چھینٹا نہ پڑا ہو، ضلع میں فرقہ وارانہ فساد کے معاملہ میں سب سے زیادہ حساس سیتامڑھی شہری حلقہ, ڈمرا, باجپٹی, سورسنڈ, پریہار, پوپری, نانپور, ریگا بیرگنیا , سپی, میجرگنج ,سونبرسا ,رونی سید پور, بیلسنڈ, بٹھناہا, وغیرہ شامل ہے، اس دفعہ دنگا کی شروعات مدھوبن قصبہ سے ہوئی، جومرغیاچک , مرچائ پٹی, چک مہیلا ہوتے ہوئے دیگر مقامات تک جا پہنچی، یہ قصبہ ضلع صدر مقام سے محض دوتین کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے، موصولہ اطلاع کے مطابق درگا پوجا سمیتی مدھوبن اس بات پر بضد تھی کہ مورتی وسرجن کا جلوس اس راستے سے ہوکر ہی جائے گا جہاں مسلمانوں کی آبادی ہے، واضح ہو کہ ضلع انتظامیہ نے بہت پہلے ہی درگا پوجا جلوس کا روٹ اس راستے سے طے کردیا تھا جہاں مسلمانوں کی آبادی نہیں ہے، اس بابت ضلع انتظامیہ اور درگا پوجا سمیتی کے درمیان کئی میٹنگیں بھی ہوئی، جس میں یہ طے ہوا کہ پرانے روٹ سے ہی مورتی وسرجن جلوس نکلے گا، مقامی لوگوں نے بتایا کہ 19 اکتوبر کی شب کو مورتی وسرجن جلوس نکلا مگر جلوس پہلے سے طے روٹ کے بجائے مسلمانوں کی آبادی میں کھستا چلاگیا جہاں جلوس لے جانا ممنوع قرار دیے دیاگیا تھا، مقامی لوگوں نے بتایا کہ چہار جانب سے تقریباً دوہزار لوگ جلوس میں شامل ہوگئے ان سب کے ہاتھوں میں لاٹھی, ڈنڈا ,بھالا ,گڑاسا اور تلوار تھی، سب نے یکبارگی مسلمانوں پر حملے کرنا شروع کردیا، اور مکانوں ,دوکانوں کو جلایا جانے لگا، گھروں میں لوٹ پاٹ شروع کر دی گئی، حتی کہ مویشیوں کو بھی فسادیوں کی ٹولی کھول کر لےگئی, اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہی ۔
ضلع انتظامیہ اگر مستعد رہتی تو پھر اس طرح کے حالات رونما نہیں ہوتے، دنگائیوں کی ٹولی زہر آلود نعرے لگاتے ہوئے، مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ رہی تھی مگر پولیس ہاتھ پر ہاتھ دھرے کھڑی مسلمانوں کی تباہی کا تماشا دیکھ رہی تھی ۔
اطلاع کے مطابق گذشتہ دوسالوں سے مدھوبن کے مسلمانوں کو اکثریتی طبقہ کے لوگوں کی جانب سے ڈرایا دھمکایا جارہا تھا، گذشتہ سال تعزیہ کے جلوس کوتقریبا 500 لوگوں نے روک کر جے شری رام اور مسلمانوں بھارت چھوڑو کا نعرہ لگایا تھا، مگر پولیس اس وقت بھی خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہی، اگر اس وقت پولس کاروائی کرتی تو ایسے حالات رونما نہ ہوتے، گذشتہ ماہ 19 اکتوبر کی رات کو درگا پوجا کا جلوس مدھوبن سے نکل کر خیروا روڈ ہوتے ہوئے تقرییا 11.00بجے رات کو مرغیاچک پہنچا جو مسلمانوں کی آبادی والا محلہ ہے، دنگائیوں میں سے کسی نے پہ افواہ اڑادی کہ مورتی پر مسلمانوں کے ذریعہ پتھراؤ کیا گیا ہے، افواہ کی وجہ سے جلوس میں شامل ہزاروں لوگ جو پہلے سے ہی روایتی اسلحوں سے لیس تھے، مسلمانوں پر حملہ کرنا شروع کر دیا، ہرسال شہر کے پانچ چھ جگہوں کی مورتیاں بعد میں وسرجت ہوتی ہے، ان میں خاص طور سے کالی اکھارا , بڑی بازار, ماں بھوالی پوجا سمیتی , جانکی استھان, کوٹ بازار , اکسچنج روڈ, اور مرچائی پٹی کی مورتیاں شامل ہیں، اور ہر بارفساد انہیں میں سے کسی ایک مورتی کے وسرجن کے وقت شروع ہوتا ہے، 20 اکتوبر کو صبح سے ہی گوشالہ چوک کے آس پاس لوگوں کا جماؤرا شروع ہوچکا تھا، صبح دس بجے سے ہی چک مہیلا اور مرچائی پٹی میں شرپسند عناصر کے ذریعہ مسلمانوں کے گھروں اور دوکانوں میں لوٹ پاٹ شروع کر دی گئی، بڑی بازار اور جانکی استھان کی مورتیوں کے ساتھ تقریباً دوہزار سے زائد لوگوں کا ہجوم تھا جس میں راجوپٹی, مرچائی پٹی, چک مہیلا, گوشالہ چوک اور آس پاس کے بچے جوان بوڑھے شامل تھے، سبھوں نے اپنا رخ مرغیاچک کی جانب موڑلیا, سبھی کے ہاتھ میں لاٹھی, ڈنڈا بھالا, گڑاسا,اور تلوار تھی، دیکھتے ہی دیکھتے مرغیا چک میں پتھر بازی شروع ہوگئی اور مسلمانوں کے گھروں کو لوٹا جانےلگا، مرچائی پٹی کے تین مکانوں کو آگ کے حوالے کردیا گیا، سڑک کےکنارے کی دکانوں کو لوٹا گیا اور پھر آگ کے حوالے کردیا گیا، ذرائع سے ملی اطلاع کے مطابق بھورہا باشندہ معمر شخص محمد زین الحق انصاری کی ہزاروں کی بھیڑ میں سے پہلے دوشخص نے ہاتھ پاؤں کو پکڑ کر زمین پر پٹخ پٹخ کرمارا جس کی وجہ سے ان کے سر سے خون بہنے لگا پھر اسکے بعد لکڑی اکٹھا کرکے زین الحق انصاری کو زندہ جلادیا گیا، زین الحق انصاری اپنی بیٹی جو شہر کے راجوپٹی محلہ میں رہتی ہے، سے ملکر واپس اپنے گھر لوٹ رہےتھے, وہ جب 11.00بجے اپنی بیٹی کے یہاں سے اپنے گھر کیلئے نکلے توبہت سے لوگوں نےانکو روکا، منع کیا کہ ایسے خراب حالات میں جانا آپ کا مناسب نہیں ہے, لیکن انہوں نے کہا کہ 5 کلو میٹر ہی تو جانا ہے اور میں بوڑھا آدمی ہوں، مجھے کون ماریگا، کس کو پتہ تھا کہ وہ موت کی آغوش میں سمانے کیلئے سب کی بات کاٹ کر جارہے ہیں، دیکھتے ہی دیکھتے ایک ضعیف العمر شخص کو جس کا سماج پر سوفیصدی بھروسہ تھا کہ اس کی عمر کو دیکھتے ہوئے کوئی اسکے ساتھ زیادتی نہیں کریگا، مگر ان ظالموں نے ایسے بزرگ شخص کو بڑی بے دردی کے ساتھ موت کے گھات اتاردیا کہ شناخت کرنا بھی مشکل ہوگیا، اگر شوسل میڈیا پر ظلم وبربریت کی وہ تصویر وائرل نہ ہوتی، توزین الحق انصاری کے قتل کی گتھی کبھی نہیں سلجھتی، ضلع انتظامیہ نے زین الحق انصاری کی جلی ہوئی لاش کو ایس کے ایم سی ایچ مظفرپور بھیج دی تھی، تاکہ لاش کی شناخت بھی نہ ہو سکے، 20 اکتوبر کو جب وہ اپنے گھر نہیں پہونچے تو دیر رات تک انکی تلاش کی گئی، 21 اکتوبر کو صبح ریگا تھانہ میں انکے لڑکے محمد اخلاق انصاری نے گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی، اس کےبعد ڈی ایم نے لاش کی شناخت کرنے کے لئے گھر والے کو مظفرپور میڈیکل اسپتال بھیجا مگر لاش کو پہچانا نہیں جاسکا، رشتہ دار عزیز واقارب سب مایوس ہوکر گھر واپس لوٹ گئے,لیکن جیسےہی نیٹ چالو ہوا انکے قتل کی تصویر وائرل ہوگئی، جسکی بنیاد پر رشتہ دار وعزیز اقارب نے لاش کی شناخت کے لئے ایک بار پھر میڈیکل کالج اسپتال مظفر پورگئے اور لاش کی شناخت کی، ضلع انتظامیہ کے سمجھانے بجھانے پر مظفر پور میڈیکل کے نزدیک مدرسہ رشیدیہ مسافر خانہ میں ہی شہید زین الحق انصاری کی نماز جنازہ پڑھائی گئی اور وہیں قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا، قتل, آگ زنی, اور لوٹ پاٹ کے کئی معاملے درج کئے گئے، اب تک درجنوں لوگوں کو گرفتار کر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے، ڈی ایم ڈاکٹر رنجیت کمار سنگھ نے معاوضہ کا پانچ لاکھ کا چیک صرف شہید محمد زین الحق انصاری کے لڑکے محمد اخلاق انصاری کو ہی دیا ہے، جبکہ بقیہ زخمیوں اور جنکے دکانات و مکانات لوٹے اور جلائے گئے ہیں، انکو اب تک معاوضہ نہیں دیا گیا ہے ۔
جمعیت علماء سیتامڑھی کا وفد صدر مولانا محمد صدرعالم نعمانی کی قیادت میں فساد متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اس دورہ میں انکے ہمراہ نائب صدر الحاج اشرف علی, محمد ارشاد اور ابرارالحق نعمانی قابل ذکر ہیں ۔
جمعیت کا وفد متاثرین سے مل کر انکے حالات سے رو برو ہوا، متاثرین نے بتایا کہ جولوگ زخمی ہیں، یا جن کے دکانات یا مکانات کو لوٹا یا جلایا گیا ہے اس کو سرکار کی جانب سے اب تک معاوضہ نہیں دیا گیا ہے، ایک متاثرین ایسے بھی ہیں جن کی بہن کی شادی کی تاریخ طے ہے اسکے تمام سازو سامان کو دنگائیوں نے لوٹ لیا اور دیگر سامانوں میں آگ لگادی جس میں ایک قرآن مجید بھی تھا؟ جمعیت علماء سیتامڑھی کے صدر مولانا محمد صدر عالم نعمانی نے فساد متاثرین کے نقصانات کی تفصیل جمعیت علماء بہار کے جنرل سکریٹری الحاج حسن احمد قادری کو بھیج دی ہے، وہیں حکومت سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ فساد کے تمام متاثرین کو بلا تاخیر معاوضہ دیا جا ۓ اور فسادیوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے، تاکہ آیندہ ایسے حالات پھر دوبارہ نہ دہرایا جاسکے، فساد متاثرہ علاقہ میں حالات معمول کے مطابق ہے، فی الحال پولیس کیمپ بھی ہے ۔

SHARE