پیغمبر اسلام کا اسلوبِ دعوت

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
شریعت کے بعض احکام وہ ہیں، جن کا مقصد بھی متعین ہے اور طریقۂ کار بھی، جیسے نماز، نماز کا مقصد اللہ تعالیٰ کی یاد کو تازہ کرنا اور برائی اور بے حیائی کی باتوں سے اپنے آپ کو بچانا ہے، نماز کا طریقہ بھی متعین ہے، رسول اللہ ا نے خود نماز ادا فرمائی ہے اور یہ ہدایت بھی کی ہے کہ جیسے میں نماز ادا کرتا ہوں، ویسے ہی تم بھی ادا کرو: ’’ صلوا کما رأیتمونی أصلی ‘‘ (صحیح البخاری، کتاب الأذان، باب الأذان للمسافر إذا کانوا جماعۃ، حدیث نمبر: ۶۳۱، وکتاب الأدب، باب رحمۃ الناس والبہائم، حدیث نمبر: ۶۰۰۸، وکتاب أخبار الآحاد، حدیث نمبر: ۷۲۴۶) — اور بعض احکام وہ ہیں، جن کے مقاصد تو متعین ہیں، طریقۂ کار متعین نہیں ہے، جیسے: جہاد، جہاد کا مقصد اللہ کے کلمہ کو بلند کرنا اور ظالم کے ظلم کو روکنا ہے؛ لیکن جہاد کا طریقہ کیا ہو؟ اس کے لئے کون سے ہتھیار استعمال کئے جائیں ؟ یہ متعین نہیں ہے، ’’ دعوت دین ‘‘ اسی دوسری قسم کے احکام میں داخل ہے، دعوت کا مقصد لوگوں کی ہدایت ہے؛ لیکن دعوت کا طریقۂ کار متعین نہیں؛ تاہم رسول اللہؐ کی حیاتِ طیبہ سے دعوت کے بنیادی اصول اخذ کئے جاسکتے ہیں۔
رسول اللہ ؐ نے دعوت دین کے لئے مختلف وسائل اختیار کئے ہیں، سب سے زیادہ جس ذریعہ کا استعمال آپ ا کی حیات میں ملتا ہے، وہ ہے زبان، جب کوئی بات بالمشافہ کہی جاتی ہے تو اس میں صرف الفاظ ہی نہیں ہوتے؛ بلکہ بولنے والے کی آواز، آواز میں شامل اس کے جذبات، اس کے چہرے کے نقوش اور اس کے اعضاء کے حرکات و اشارے، یہ ساری چیزیں اس میں شامل ہوتی ہیں، اسی لئے فوری طور پر مخاطب اس کا خصوصی اثر لیتا ہے، آواز کا زیر و بم اور صوتی آہنگ بھی دلوں کے تار کو چھیڑنے میں معاون بن جاتا ہے، رسول اللہ ﷺ کے خطابات میں یہ بات پوری قوت کے ساتھ پائی جاتی تھی، اور مخاطب پر اس کا پورا اثر ہوتا تھا، خود رسول اللہؐ اس طرح دعوت دین پیش فرماتے تھے کہ جیسے کوئی مخلص اور ہمدرد قائد فوج کو دشمن سے ڈرا رہا ہو، روئے انور سرخ ہو جاتا اور سامعین کے دلوں کی دنیا بدل جاتی، پھر آپؐ کے خطاب میں ایک ایک لفظ اور ایک ایک فقرہ اس طرح ہوتا تھا کہ گویا ہیرے اور جواہرات چن دیئے گئے ہیں؛ اسی لئے آپ ا کے خطبات کو عربی زبان و ادب کا بہترین نمونہ سمجھا گیا ہے۔
آپ ا نے دعوت کے لئے زبان کے ساتھ ساتھ قلم کا وسیلہ بھی اختیار فرمایا ہے، چنانچہ اس وقت جہاں تک خطوط پہنچائے جاسکتے تھے، آپؐ نے دعوتی خطوط روانہ فرمائے، بعض اہل تحقیق کی رائے میں آپؐ نے تقریباً چار سو دعوتی خطوط لکھے ہیں، روم و ایران سے لے کر چین تک آپؐ کے دعوتی خطوط پہنچے، یہ خطوط نہ صرف داعیانہ حکمت کا نمونہ ہیں؛ بلکہ زبان و ادب کے اعتبار سے بھی اپنی مثال آپ ہیں، حدیث کی متداول کتابوں میں بھی ان میں سے کئی مکتوبات نقل کئے گئے ہیں، اب تو بعض مکتوبات کی اصل بھی دریافت ہوگئی ہیں اور حیرت انگیز امر یہ ہے کہ حدیث میں ان خطوط کا مضمون جس طرح نقل کیا گیا ہے، ٹھیک اسی طرح اس دستیاب ہونے والے اصل خط کی عبارت ہے، یہاں تک کہ ’’ محمد رسول اللہ ‘‘ کے الفاظ پر مشتمل مہر مبارک کی جو ترتیب کتب حدیث میں مذکور ہے، وہی ترتیب اس دستیاب ہونے والے خط میں بھی ہے۔
ان دعوتی خطوط کے مضمون کے سلسلہ میں ایک بڑی ہی قابل ذکر بات یہ ہے کہ آپ ا نے شاہ روم کو جو خط لکھا، اس میں آپ ا نے ’’ عظیم الروم ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے، یعنی ’’ روم کی عظیم شخصیت ‘‘ — ظاہر ہے کہ یہ انتہائی توقیر و احترام کا کلمہ ہے، بعض روایتوں میں آیا ہے کہ کچھ صحابہؓ نے آپ ا سے عرض کیا کہ ایک کافر و مشرک کے لئے اتنا پُر توقیر کلمہ کیوں کر استعمال کیا جائے ؟ آپؐ نے فرمایا کہ ان کے لوگ ان کو اسی طرح خطاب کرتے ہیں، یعنی آپؐ نے اپنے ان خطوط میں مدعو کی عزت نفس کا پورا پورا لحاظ رکھا ہے، اور تعلیم دی ہے کہ اگر دوسرے مذہب اور قوم کے رہنما سے خطاب کیا جائے تو ان کے حلقہ میں ان کا جس طرح نام لیا جاتا ہے، اسی طرح نام لینا چاہئے، سوائے اس کے کہ کوئی مشرکانہ کلمہ ہو؛ کیوں کہ کلمات شرک بہر حال گوارا نہیں کئے جاسکتے، افسوس کہ مسلمانوں کی اخلاقی سطح اتنی گرگئی کہ وہ مسلک و مشرب کے اختلاف کی وجہ سے بھی مخالف دبستان فکر، گروہ یا تنظیم کے ساتھ تنابز بالالقاب کرنے لگتے ہیں، اور اس کو اپنی دین داری کا تقاضا سمجھتے ہیں؛ چہ جائے کہ غیر مسلموں کے ساتھ، کاش ! ہم سمجھ سکیں کہ ہمارا یہ عمل دین داری نہیں ہے؛ بلکہ سنت نبویؐ کی خلاف ورزی ہے۔
دعوت کے لئے رسول اللہ ﷺ نے اُن دوسرے طریقوں کو بھی اختیار کیا، جو اس زمانہ میں مروج تھے، جیسے آپ ا نے صراط مستقیم اور گمراہی کے راستوں کو واضح کرنے کے لئے ہاتھوں سے لکیر کھینچ کر نقشہ بنایا اور اس کی مدد سے سمجھایا، (سنن دارمی، باب فی کراہیۃ أخذ الرأی، حدیث نمبر: ۲۰۲) اس سے معلوم ہوا کہ دعوت کے لئے زبان و قلم کے علاوہ دوسرے وسائل بھی اختیار کئے جاسکتے ہیں، موجودہ دور میں انٹرنیٹ، ای بک، آڈیوکسیٹ، سی ڈی اور ڈی وی ڈی ان وسائل میں داخل ہیں، جن کو خیر کی طرف دعوت دینے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے، —- اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو اسلام کی طرف بلانے کے لئے انہیں کھانے پر مدعو کیا اور کھانے کے بعد ان کے سامنے دعوتِ اسلام پیش فرمائی، (المعجم الأوسط للطبرانی، حدیث نمبر: ۱۹۷۱) اس سے معلوم ہوا کہ غیر مسلم بھائیوں یا مسلمانوں کو کھانے کی پارٹی دے کر ان سے دین کے بارے میں گفتگو کی جاسکتی ہے؛ کیوں کہ ایسے موقع پر آنے والوں کا ذہن یکسو ہوتا ہے اور وہ ہربات کو توجہ سے سنتے ہیں اور اس کو قبول کرنے کے لئے آمادہ رہتے ہیں۔
عرب میں مختلف میلے لگاکرتے تھے، ان میلوں میں شراب و کباب کی مجلسیں بھی جمتی تھیں، لوگ اپنے اپنے قبائل کی تعریف کے پُل باندھتے تھے، ایسے اشعار بھی پڑھے جاتے تھے، جو بے حیائی پر مبنی ہوتے تھے، انہیں میلوں میں ایک ’’ ذو المجاز ‘‘ کا میلہ بھی تھا، آپؐ اس طرح کے میلوں میں بھی تشریف لے جاتے اور وہاں لوگوں پر دعوت حق پیش فرماتے، چنانچہ بنی مالک بن کنانہ کے ایک شخص کا بیان ہے کہ میں نے ذو المجاز کے لوگوں میں رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپؐ فرماتے جاتے تھے: لوگو ! لا إلہ إلا اللہکہو، اس میں تمہاری کامیابی ہے: ’’ قولوا لاإلہ إلا اللہ تفلحون ‘‘ اور ابو جہل آپ پر گرد و غبار پھینکتا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ یہ شخص تم لوگوں کو تمہارے دین سے دور نہ کردے، (مسند أحمد، حدیث نمبر: ۱۶۶۵۴) اسی طرح طارق بن عبد اللہ سے مروی ہے کہ میں ذو المجاز کے میلے میں تھا کہ ایک نوجوان شخص کا گذر ہوا، جس پر سرخ لکیروں والے کپڑے کا حلہ تھا، وہ کہتا جاتا تھا: اے لوگو ! لا إلہ إلا اللہکہو، اور کامیابی پاؤ، پیچھے پیچھے ایک شخص ان پر پتھر وغیرہ پھینکتا جاتا تھا، یہاں تک کہ اس کے ٹخنے اور پنڈلیان لہو لہان تھے، پتھر پھینکنے والا شخص کہتا جاتا تھا، یہ شخص جھوٹا ہے، اس کی بات نہ مانو، جب میں نے دریافت کیا کہ یہ کون ہے ؟ تو لوگوں نے بتایا، یہ بنی ہاشم کا ایک نوجوان ہے، جس کا خیال ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور یہ اس کا چچا ابو لہب ہے، (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر: ۸۱۷۵) اسی طرح زمانۂ جاہلیت میں حج کے اجتماعات میں بھی بہت سی نا مناسب باتیں مشرکین عرب نے شامل کردی تھیں، یہاں تک کہ مکہ سے باہر کے حجاج — جن کو باشندگان حرم کی طرف سے کپڑے نہیں مل پاتے تھے — بے لباس طواف کیا کرتے تھے، دن میں مرد اور رات میں عورتیں، ان سب کے باوجود رسول اللہ ا حج کے اس اجتماع کو دعوت کے لئے خاص طور سے استعمال فرماتے تھے، اور موسم حج ہی کی دعوت اہل مدینہ کے دامنِ ایمان میں آنے کا سبب بنی۔
اس سے معلوم ہوا کہ جن وسائل کا استعمال منکرات کے لئے کیا جاتا ہے، اگر فی نفسہ ان کا استعمال جائز ہو تو دعوتی مقاصد کے لئے ان کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔
آپؐ کے طریقۂ دعوت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ آپؐ اس میں ’’ تدریج ‘‘ کا خیال رکھتے تھے، جب آپ غیر مسلموں کو ایمان کی طرف بلاتے تو پہلے انہیں صرف ایمان کی دعوت دیتے؛ تاکہ وہ آسانی سے اسے قبول کرلیں اور اپنے رفقاء کو بھی اس کو ملحوظ رکھنے کی تلقین فرماتے تھے، آپؐ نے حضرت معاذ ص کو یمن بھیجا تو انہیں خاص طور پر نصیحت فرمائی کہ تم ایک ایسے گروہ کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہیں؛ اس لئے انہیں اس بات کی طرف بلانا کہ وہ اللہ کے ایک ہونے اور میرے رسول ہونے کی شہادت دیں، جب وہ اسے قبول کرلیں تو پھر ان سے کہنا کہ اللہ نے پانچ وقت کی نمازیں بھی فرض کی ہیں، اگر وہ اس کو مان لیں اور نماز پڑھنے لگیں تو پھر بتانا کہ ان کے مال میں زکوۃ بھی فرض کی گئی ہے، زکوۃ عام طور پر وصول کرکے مدینہ بھیجی جاتی تھی اور پھر یہاں سے اس کی تقسیم عمل میں آتی تھی؛ لیکن آپؐ نے حکمت سے کام لیتے ہوئے انہیں تلقین کی کہ اُن کے مال داروں سے مال وصول کرکے اُن ہی کے فقراء پر اسے خرچ کردینا اور ان کے مال کا بہتر حصہ زکوۃ میں وصول کرنے سے بچنا، (مسلم، باب الدعاء إلی الشہادتین إلخ، حدیث نمبر: ۱۹) — اس میں یہ بات قابل توجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت معاذؓ کو تلقین فرمائی کہ وہ رفتہ رفتہ احکام شریعت کی طرف بلائیں؛ تاکہ اسلام انہیں بوجھ محسوس نہ ہونے لگے، پھر زکوۃ کے بارے میں آپ ا نے حکم دیا کہ وہیں تقسیم کردیا جائے، اس کی حکمت یہ تھی کہ لوگوں میں غلط فہمی پیدا نہ ہو کہ اسلام کی طرف دعوت کا مقصد محض پیسے وصول کرنا ہے، —- غیر مسلموں ہی نہیں؛ بلکہ بعض اوقات مسلمانوں کو بھی دین کی طرف بلانے میں تدریج کی ضرورت پڑتی ہے اور جن کے دلوں میں دین کی عظمت جاگزیں نہیں ہوئی ہے، ان کو یکبارگی شریعت کے تمام احکام کا مکلف بنانا نفرت اور گریز کا سبب بن جاتا ہے۔
دعوت دین میں تدریج کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پہلے غیر مسلم بھائیوں کو ان باتوں کی طرف بلایا جائے جو اسلام اور ان کے مذہب کے درمیان مشترک ہوں؛ چنانچہ قرآن مجید میں حضورؐ کی زبان مبارک سے یہ بات کہلوائی گئی کہ ’’ اے اہل کتاب ! ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ، جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے، اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے، ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور اللہ کے بجائے ایک دوسرے کو اپنا رب نہیں بنائیں گے ‘‘ (آل عمران: ۶۴) —– موجودہ حالات میں دعوت دین کے لئے اس کی بڑی اہمیت ہے، اللہ کی کتابیں مختلف امتوں میں نازل ہوتی رہی ہیں اور قرآن مجید اس کتاب ہدایت کی آخری اور مکمل صورت ہے، پہلی کتابوں میں ان کتابوں کی حامل امتوں نے بہت ساری آمیزشیں کردی ہیں؛ لیکن اس کے باوجود بہت سی سچائیاں آج بھی ان میں موجود ہیں، عقیدۂ توحید، نبوت محمدی، جنت و دوزخ، سچ بولنے، وعدہ وفا کرنے، شرم و حیا کی حدود پر قائم رہنے اور انسانیت کی خدمت ومدد کی ترغیبات، نیز زنا، بے حیائی، قتل و غارت گری وغیرہ کی ممانعتیں نہ صرف بائبل میں موجود ہیں؛ بلکہ ہندو بھائیوں کی مذہبی کتابوں — ویدوں اور پُرانوں وغیرہ — میں بھی حیرت انگیز حد تک اسلامی تعلیمات کی مماثل باتیں پائی جاتی ہیں، ان قوموں سے خطاب کرتے ہوئے ایسے مضامین کو پیش کرنا نہ صرف درست ہے؛ بلکہ یہ قرآن کی اس ہدایت کی تعمیل ہے کہ غیر مسلموں کو پہلے مشترک تعلیمات کی طرف دعوت دی جائے، رسول اللہؐ نے بعض مواقع پر یہودیوں سے گفتگو کرتے ہوئے تورات کے حوالہ سے استدلال کیا ہے؛ چنانچہ حضرت عمران بن حصینؓ سے روایت ہے کہ آپؐ ایک رات کے بڑے حصہ میں بنی اسرائیل کے بارے میں ہمیں بتاتے رہے اور صرف نماز کے لئے اٹھے، (مسند احمد، حدیث نمبر: ۲۰۰۰۴) اس لئے ان کی مذہبی کتابوں میں جو باتیں قرآن و حدیث سے مختلف نہ ہوں، اگر دعوتی اغراض کے تحت ان کو پیش کیا جائے اور ان سے استدلال کرتے ہوئے انہیں دین محمدی کی طرف بلایا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
غرض کہ دعوت اسلام کے لئے کوئی خاص طریقہ آپؐ نے متعین نہیں فرمایا؛ کیوں کہ دعوت میں اصل اہمیت مقصد کی ہے، لوگوں کے حالات، ان کی نفسیات، ملکی قانون، اور دستیاب وسائل کے اعتبار سے کسی ایک طریقہ کا متعین کردینا ممکن نہیں تھا؛ لیکن آپ ا کی حیات طیبہ میں وہ بنیادی اصول ملتے ہیں، جن کو ہم دعوت کے کام کے لئے مشعلِ راہ بناسکیں۔ (ملت ٹائمز)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں