مولانا اختر امام عادل قاسمی
★ بانی و مہتمم جامعہ ربانی منوروا شریف ، سمستی پور
حضرت مولانا اسرارالحق قاسمی ایک بڑے عالم ، اورتعلیمی فکر رکھنے والے ملی رہنما تھے، انہوں نے اپنی زندگی کا سفر گاؤں کے مکتب سے شروع کیا اور دارالعلوم دیوبندکی رکنیت شوریٰ ، علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کورٹ کی ممبری اور ملک کے سب سے بڑے قانون ساز ادارہ (ارلیامنٹ) کی رکنیت تک پہونچے ، اس دوران انہوں نے بڑے بڑے مراحل دیکھے، بہت سے تجربات کئے، بڑی بڑی شخصیتوں کی صحبتوں میں رہے، اور ان سب نے مل کران کی شخصیت کومتنوع اور جامع بنادیا، مولانا کی شخصیت موجودہ دور کے علماء اور قائدین میں بہت ممتازتھی، ان کا اخلاق بلند، علم گہرا، زبان شگفتہ، تحریر دلپذیر اور ذہن رسا تھا، طبیعت میں تواضع و سلامتی تھی ، سیدھی سادی زندگی گذارنے کے وہ عادی تھے، جو لباس اور ٹوپی مدرسہ کے ماحول نے پہلے دن انہیں پہنایا وہ زندگی کے آخری لمحہ تک نہیں اترا، پارلیامنٹ کے ایوان میں رہے یا سیاسی قائدین کے درمیان، ہرجگہ اپنے اسی لباس میں ممتاز اور مقدس نظرآتے تھے، ان کو دیکھ کر اسلاف کی یاد تازہ ہوجاتی تھی، اور محسوس ہوتا تھا کہ ان کی قوتِ ایمانی اور غیرتِ اسلامی کو دنیا کی کوئی حرص وطمع سے متأثر نہیں کرسکتی، ملک کے سب سے بڑے ایوان میں پہونچ جانے کے باوجود کسی غریب کی جھونپڑی میں جانے میں انہیں عارنہیں ہوا، ہوائی سفر ہو یا صحراء و بیابان کا پاپیادہ سفر، اس مرد درویش کے لئےسب برابر تھے ، رئیس کامحل ہو یا فقیر کی کٹیا یہ مردقلندر ہر ایک کی رونق بڑھاتا تھا، امیر ہو یا غریب، پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ ہر ایک کی دلجوئی ان کو یکساں عزیز تھی، مدرسہ کی ٹوٹی پھوٹی عمارت ہو یا کسی کالج و یونیورسیٹی کی عالیشان بلڈنگ اس مرد حق نواز کے قدم ہر جگہ پہونچتے تھے ،کسی گاؤں یاقصبہ کا جلسہ ہو یا بڑے شہروں کے علمی سیمینار، یکساں ذوق وشوق کے ساتھ وہ شریک ہوتے تھے، کسی کو انہوں نے کبھی اس لئے مسترد نہیں کیا کہ وہ کوئی عام شخص ہے، اور نہ کبھی اس لئے کسی کو ترجیح دی کہ وہ بڑا آدمی ہے، اس دور میں نئے پرانے قائدین کے ہجوم میں مولانا ایک منفرد شخصیت کے مالک تھے، اس دورِ خود غرضی میں وہ بے لوث خادمِ انسانیت تھے، کذب و خیانت اور مکر و فریب کے اس زمانے میں وہ ایک مخلص رہنما تھے، جذباتیت اور فتنہ پروری کے ماحول میں وہ سنجیدگی اور صدق و راستی کا پیکر تھے، ان کی عقل پر قلب کی حکمرانی تھی اور جوش پر ہوش کی نکیل، وہ ساری انسانیت سے محبت کرتے تھے لیکن علماء کو اپنی برادری تصورکرتے تھے، وہ اتحاد انسانیت کے حامی و داعی تھے لیکن اسلامی غیرت فروشی کے روا دار نہیں تھے ، غرض وہ بہت سی خوبیوں کے مالک تھے ۔
کچھ یادیں کچھ باتیں
جہاں تک مجھے یاد ہے میری ان سے پہلی ملاقات ۱۹۹۱ء میں جمعیۃ علماء ہند کے دہلی دفتر میں ہوئی تھی ، جب وہ جمعیۃ علماء ہند کے ناظم عمومی تھے، مولانا مسلسل دس (۱۰) سال تک جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سیکریٹری رہے، اور افکارِ جمعیۃ کی ترجمانی میں اپنی تمام تر قلمی توانائیاں صرف کیں، وہ اس دور میں جمعیۃ علماء ہند کے دوسرے مولانا مفتی محمد میاں صاحب ؒتھے ، جمعیۃ کے تعارف اور دفاع پر مولانا میاں صاحب دیوبندی ؒکے بعد اگر کوئی دوسرا بڑا نام لیا جاسکتا ہے جس نے افکار و مسائل جمعیۃ پر لٹریچرز کا پورا دفتر تیارکردیا ہو تو وہ مولانا مرحوم کا نام ہے ۔۔۔ مولانا جمعیۃ کے سب سے زیادہ لکھنے والے رہنماؤں میں تھے۔
میں علماء کے دورکنی قافلہ (جو حیدرآباد سے مجھے لینے کے لئے دیوبند آیا تھا) کے ساتھ حیدرآباد پہلی مرتبہ بہ سلسلۂ خدمت تدریس جارہا تھا، کھڑے کھڑے ان کےدفتر میں ملاقات ہوئی ، یہ جمعیۃ میں مولانا کے عہد اقتدار کے آخری لمحات تھے، جن کی تلخی وترشی صاف طورپرمحسوس ہوئی تھی، اس کے کچھ عرصہ کے بعد ہی مولانا جمعیۃ علماء ہند سے سبکدوش ہوگئے، جس کی داستان اب تاریخ ماضی کا حصہ ہے، بہر حال یہ پہلی ملاقات متأثرکن نہیں تھی، ایک سرسری ملاقات تھی جو جمعیۃ کے بندھے ٹکے اصولوں کے مطابق ہوئی تھی ، وہ مجھ سے متعارف نہیں تھے ، لیکن بعد کے زمانے میں مولانا کی جو شخصیت ابھر کر سامنے آئی، اور انہوں نے میرے ساتھ جس محبت و قدر افزائی کا معاملہ کیا، اس کو دیکھتے ہوئے یہ پہلی ملاقات آج بھی میرے لئے حیرت انگیز ہے، اور خوانِ محبت پر اس کی نمکینی اب تک میرے لئے لذت بخش ہے۔
دوسری مرتبہ ان کو حیدرآباد ہی میں فقیہ العصر قاضی القضاۃ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کے ساتھ آل انڈیا ملی کونسل کے بینر تلے دیکھا، مجھے حیرت ہوئی کہ جمعیۃ علماء ہند کا یہ مرد آہن آج حیدرآباد میں ایک مرد مسکین نظر آرہا ہے، میں حضرت مولانا محمد رضوان القاسمیؒ بانی دارالعلوم سبیل السلام حیدرآباد کے دولت کدہ (واقع کنگ کوٹھی) پر حضرت قاضی صاحبؒ کی زیارت کے لئے حاضر ہوا، تو وہاں کھانے کے دسترخوان پر قاضی صاحب کے پاس مولانا موصوف بھی تشریف فرما تھے ، مولانا مجھ سے متعارف نہیں تھے، قاضی صاحب ؒ نے کچھ تعارفی کلمات کہتے ہوئے مولانا کو ہدایت دی کہ ان سے آپ اکیلے میں مل کر بات کرلیں، قاضی صاحب کو ملی کونسل کے بعض علمی امور کے لئے کچھ افراد کی ضرورت تھی ، چنانچہ مولانا مجھ سے تنہائی میں ملے، ۔۔۔۔ وہ دن اور پھر ساری زندگی مجھ جیسے معمولی طالب علم پر اتنی شفقتیں نچھاورکیں، کہ میرا رواں رواں ان کا احسان مند ہے، بلکہ میرے نام سے بھی جتنے لوگ ان سے ملےسب کو پیار کیا، اور عزت بڑھائی ،وہ مجھ پر اتنااعتمادکرتے تھے کہ کسی شک کی گنجائش نہیں تھی ، ایک بار جب وہ ایوان پارلیامنٹ میں نہیں پہونچے تھے، میں نے اپنے مدرسہ جامعہ ربانی تشریف لانے کی دعوت دی ، اس وقت ہمارے یہاں کا راستہ سیلاب کی زد میں آکر ٹوٹ چکا تھا، میں نے ان کوسب بتا دیا، لیکن وہ ہزار تکلیفیں اٹھاکر منوروا شریف تشریف لائے، اور مدرسہ پہونچے تو فرمایا مدرسہ دیکھ کر سب تکلیفیں ختم ہوگئیں ، بہت خوش ہوئے ، دعائیں دیں اور ساری زندگی دعاؤں اورمحبتوں سے نوازتے رہے۔
میری آخری ملاقات ترکیسر گجرات میں ’ مولانا عبداللہ کاپودرویؒ سیمینار ‘ کے موقعہ پر ہوئی، قریب دس سال سے ممبر پارلیا منٹ تھے ، لیکن وہی عالمانہ سادگی ، ساتھ میں ایک خادم غالباً کوئی عالم ہی تھے، نہ کوئی ہٹو بچو ، نہ پیچھے ملاقاتیوں کا ہجوم ، نہ نمائشی نخرے ، وہی سادہ اور متواضعانہ گفتگو ۔
ترکیسر سے واپسی پر میں نے ایک دن مولانا سجادؒ سیمینار (منعقدہ 15 دسمبر 2018ء دہلی ) میں ان کی شرکت یقینی بنانے کے لئے ان سے فون پر بات کی تھی ، اور یہ میری ان سے آخری بات تھی، بہرحال مولانا سیمینار میں شرکت کے لئے پوری طرح آمادہ تھے، اور ذمہ داروں کی طرف سے ۱۵/دسمبر کو مغرب بعد نششت کی صدارت کے لئے ان کا اسم گرامی تجویز کیا گیا تھا، اور ان کو اس کی اطلاع بھی دی گئی تھی ، انہوں نے فون پر ہنستے ہوئے کہا تھا کہ صدارت کامتحمل تو نہیں ہوں البتہ ان شاء اللہ شرکت ضرور کروں گا، لیکن اس تاریخ کے آنے سے قبل ہی وہ آخرت کے سفر پر روانہ ہوگئے، إنا للہ و إنا إلیہ راجعون ۔
اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے اور اعلیٰ علیین میں جگہ عنایت فرمائے آمین۔
خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را