سال نو کی آمد: مقامِ احتساب و عبرت 

عبدالرشید طلحہ نعمانی

 لیجیے !کتاب زندگی کا ایک اور ورق الٹنے جارہاہے ، دیوار حیات کی ایک اور اینٹ گرنے کے قریب ہے ،عمر مستعار کا ایک اور سال ختم ہواچاہتاہے ؛مگر نادان جشن سال نو منارہے ہیں ،ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے ہیں ،مٹھائیاں تقسیم ہورہی ہیں ،پٹاخے چھوڑے جارہے ہیں اور افسوس تو اس پر ہے کہ ان سب غیر اسلامی رسومات میں ہماری نئی نسل سب سے زیادہ پیش پیش ہے ۔غور کیا جائے تو وقت وہی ہے جو خالق کائنات نے روز اول میں بنایا، وہی دن سے رات، رات سے دن کا سفر، وہی سورج کا طلوع و غروب ہونا ، وہی چاند کی چاندنی کا رات کی تایکی میں روشنی بکھیرنا۔ پرندوں کا رزق کی تلاش میں دن بھر ایک شاخ سے دوسری شاخ پر منڈلانا اور پھر شام کے سائے پھیلنے تک اپنے گھونسلوں کی جانب رخ کرنا،غرض سارا نظام وہی ہے ؛مگرتف ہے کہ ہم لوگ بدل گئے ہیں، اپنی شناخت و پہچان بھول گئے ہیں اور وقت کے بدلنے کا رونا رورہے ہیں۔عمر رواں کے بیتے سالوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہم تہی دست و خالی دامن ہیں، ہمارے پاس یقین و گمان یا امید و خوف کے وسوسوں کے سوا کچھ بھی نہیں،خالی ہاتھ دنیا میں آئے تھے اور خالی ہاتھ ہی دنیا سے لوٹناہے ۔

احتساب کیا اور کیوں؟

 محاسبہ یا احتساب کا عمل، آخرت میں کامیابی کے لیے تو ضروری ہے ہی، کہ ہم اپنی اصلاح یہیں کرلیں اور آخرت کی پکڑ سے بچ جائیں، البتہ دنیا میں بھی اپنے مقاصد کے حصول اور منصوبہ بند طریقہ سے عمل درآمد کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے احتساب از حدضروری ہے ۔ محاسبہ یا احتساب دراصل اچھے سے بہت اچھے اوربہتر سے بہترین تک کا ایک سفر ہے ،ٹارگٹ، منزل یا نصب العین کو پورا کرنے کے لیے کماحقہ کوشش کرتے ہوئے جو کمی، کوتاہی ہوجائے اس کا بر وقت تدارک کرنا ہے ،جب کہیں غلطی سرزد ہوجائے اس کو متعدی ہونے سے پہلے درست کر لینا ہے ؛تاکہ جب مالک کے سامنے کام کی رپورٹ پیش کرنے حاضر ہوں تو مالک خوش ہو جائے ۔ اسی کو قرآنی زبان میں’’ تقویٰ ‘‘ اختیار کرنا کہتے ہیں۔ یہاں تو مالک رب کائنات ہے اور اس کے حضور پیشی کسی لمحے بھی متوقع ہے اور اس کی نگاہوں سے کسی لمحے بھی ہم اور ہمارے اعمال اوجھل نہیں ہو سکتے ۔ اس رب کی عظمت کا احساس، اس کی ذات کی پہچان، اس رب کی رحمت کا عرفان جس قدر دل میں جاگزیں ہوگا اُسی قدر مؤمن “ولتنظر نفس ما قدمت لغد “( ہر شخص دیکھ بھال لے کہ کل قیامت کے واسطے اس نے (اعمال کا) کیاذخیرہ بھیجا ہے : الحشر18)کی حقیقت سے واقف ہوگا۔

 حدیث پاک میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کارشاد ہے کہ ” عقل مند وہ ہے جو اپنا محاسبہ خود کرے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے ” (جامع ترمذی) غرض جس طرح ہم دنیا میں چھوٹی چھوٹی چیزوں کا حساب رکھتے ہیں،معمولی معمولی خرچوں کوتحریرمیں لے آتے ہیں، اسی طرح دین واخلاق اور اعمال وکردار کے اعتبار سے بھی اپنا محاسبہ کریں، اپنی عبادات پر نگاہ دوڑائیں کہ گذشتہ سال کے مقابلہ میں اس سال کتنا اضافہ ہوا ہے ؟ اپنے معاملات کو دیکھیں کہ حلال وحرام او ر مستحبات و مکروہات کے جو احکام شریعت میں ہیں ، ان میں ہم سے کوتاہی تو نہیں ہورہی ہے ؟ خاص کر اپنے اخلاق وسلوک کا جائزہ لیں ، والدین کے ساتھ، شوہر وبیوی کے ساتھ، اولاد کے ساتھ، رشتہ داروں اور خاص کر غریب رشتہ داروں کے ساتھ، خاندان کی بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کے ساتھ، مسلمان اور غیر مسلم پڑوسیوں اور کاروبار اور دفاتر کے رفقاءکے ساتھ ہمارا کیا سلوک ہے ؟ ہم ان کے لئے پھول ہیں یا کانٹے ؟ وہ ہم سے راحت وسکون محسوس کرتے ہیں یا خوف ودہشت؟ ہم نے انہیں محبت کی سوغات دی ہے یا نفرت وعداوت کا تحفہ؟ غرض ہمیں اپنی زندگی کے ایک ایک عمل کا جائزہ لینا چاہئے ، اور خود اپنا حساب کرنا چاہئے؛ کیوں کہ انسان دوسرے انسانوں کی نگاہ سے اپنی کوتاہیوں کو چھپاسکتا ہے ، لیکن اپنے آپ سے نہیں چھپا سکتا، اسی لئے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس سے پہلے کہ تمہارا حساب کیا جائے خود اپنا حساب کرو!(کنز العمال) اسی طرح حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورِاکرم ﷺ نے ارشادفرمایاقیامت کے روز انسان اُس وقت تک اپنی جگہ سے نہیں ہٹ سکے گا جب تک اِن پانچ باتوں کے متعلق اُس سے سوال و جواب نہ ہو لے گا : 

۱) اُس کی عمرکے متعلق کہ کن کاموں میںاُس کو ختم کیا۔۲) جوانی کے بارے میںکہ کن کاموں میں کھپائی۔۳) مال کے متعلق کہ کہاں سے کمایا۔۴) کن کاموں میں اُس کو صرف کیا ۔۵) اپنے علم پر کتنا عمل کیا۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا” اپنا محاسبہ کرتے رہا کرو قبل اس کے کہ تم سے حساب لیا جائے ، اپنا وزن کرتے رہا کرو قبل اس کے کہ تمہارا وزن کیا جائے ۔جس نے دنیا میں میں اپنا محاسبہ کرلیا روز قیامت اس پر حساب آسان ہو جائے گا”

 مذکورہ بالانصوص سے معلوم ہوتاہے کہ مومن ہمیشہ زندہ دل،روشن دماغ اور صاحب ادراک ہوتا ہے ، اگر اسے کچھ مل جائے تو شکر، گناہ کرے تو استغفار، مصیبت آن پڑے تو صبر کرتا ہے ۔مومن کا ضمیر غفلت سے بیدار،اور تباہی کی جگہوں سے چوکنا رہنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہوتا ہے ، ایک حدیث میں ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے ایک خط مستقیم کھینچا، اور اس کی دونوں جانب خطوط کھینچے ، خط کے سرے پر ایک پکارنے والا ہے ، اور اس سے اوپر ہے واعظ ہے ، “خط مستقیم” سے مراد اللہ کا راستہ ہے ، اس کے سرے پر “پکارنے والے ” سے مراد : کتاب اللہ ہے ، اور اس سے اوپر نصیحت کرنے والا واعظ ، ہر مومن کے دل میں موجود نصیحت کرنے والا ضمیر ہے ، جبکہ دائیں بائیں خطوط گمراہی ، اور حرام کاموں کے راستے ہیں(اغیار کی نقالی بھی اسی کا ایک حصہ ہے )۔ علامہ ابن تیمیہ نے اپنی کتاب اقتضاءالصراط المستقیم میں غیروں کی یعنی مسلمانوں کے علاوہ دوسروں کی مشابہت اختیار کرنے کے ممنوع ہونے کے بارے میں بہت سی وجوہات بیان فرمائی ہیں چند کو ذکر کیاجاتاہے ۔ غیرمسلموں کی نقل اور پیر وی کرنے سے آدمی خود بخود صراط مستقیم سے ہٹ جاتا ہے ،کفارکی مشابہت پر، کفار کے طریقوں پر جمے رہنے سے خود ہی شریعت مطہر ہ سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے اور پھر یہ ہو رہاہے کہ مسلمانوں کی اس نقالی کو دیکھ کر کفار دلی خوشی محسوس کرتے ہیں اور اپنے کفر پر مضبوط سے مضبوط تر ہو تے چلے جاتے ہیں ۔ کفار کے اعمال وعقائد رسم ورواج اور جشن وتہوار سب کے سب برائیوں کا مجموعہ اور بھلا ئیوں سے بالکل خالی ہیں ۔

 

نئے سال کا جشن یا مغرب کی نقالی ؟

 یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ آج کا مسلمان احتساب زندگی کو پس پشت ڈال کر،اسلامی تعلیمات کو دقیانوسی بتاکر،سنتوں کا مذاق اڑاتے ہوئے ، مغربی تہذیب کی رنگینیوں میں بدمست ہوکر ،نئے سال کی اس رسم بد کو غیروں کی طرح دین وشریعت کی کسوٹی پر پرکھے بغیر بڑی خوش دلی کے ساتھ منارہا ہے ؛ جبکہ اسلام نے اقوام عالم میں ہماری مستقل الگ شناخت پیدا کی اور ہمیں اس پر قائم رہنے کا حکم دیا ، جب تک ہم اپنی شناخت کی حفاظت کریں گے ہمارا وجود باقی رہے گا ورنہ اہل تاریخ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جو قومیں اپنی شناخت کھو بیٹھتی ہیں وہ اپنے وجود اور بقاءسے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں ۔

جشن سال نو میں کیاہوتاہے ؟اخلاق باختگی اور بے ہودگی کی انتہاءپر پہنچ کر لوگ اس رات نت نئے تماشے کرتے ہیں ،چنگ و رباب کی محفلیں سجائی جاتی ہیں ، مردو عورت کا بے حجابانہ ملاپ جہاں عورت کے ماتھے سے حیاءکا زیور لوٹ کر ذلت کا داغ لگا تا ہے وہیں پر مرد کے سر سے انسانیت کا تاج اتار کر اسے شرم سے جھکا دیتا ہے اور دونوں کو انسانوں کی وادی سے نکال کر پلیدگی کے صحرا اور جنسی حیوانیت کے جنگل میں چھوڑ دیتا ہے ۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ سال نوکاجشن ایک ایسا غیر اسلامی اورغیر اخلاقی فعل ہے جس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ناراض ہوتے ہیں،یہ مغربی روش، سنجیدگی ، متانت ، عزت و وقار اور حیاءہی نہیں ؛بل کہ انسانیت کی اولین قدروں کے بھی سراسر منافی ہے ۔ جسے کوئی بھی شریف النفس قبول نہیں کر سکتا ۔ غیروں کی تہذیب سے در آئے اس جشن کی بناءپر کئی عفت مآب بہنوں کی عزت کے آنچل تار تار ہوتے ہیں ، سینکڑوں ایسے واقعات ہیں کہ اس دن عزت و شرافت کے جنازے نکلتے ہیں اور غیور وباشعور خاندانوں میں ماتم کی صفیں بچھ جاتی ہیں ۔ غیر مسلم اقوام کے مخصوص و متعین تہوار کومنا کر ان سے مشابہت کا وبال اپنے سر لیا جاتا ہے ۔ اور ہم احکامات الہی اور فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کر کے ، خود کو اللہ اور رسول کے دشمنوں کی صفوں میں شامل کرتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ مغربی تہذیب اپنانے کی یہ اندھا دھند روش ہمارے لیے کسی طور پر فائدہ مند نہیں؛بلکہ دنیا و آخرت کی تباہی و بربادی ہے ۔ یاد رکھیں کہ ہم اور ہماری آنے والی نسلوں کی عزت و حیا کا بقاءصرف اور صرف اسلام کی روشن تعلیمات میں ہے اس لیے ہمیں اپنے معاشرے سے تمام غیر اسلامی ، غیر اخلاقی اور غیر فطری رواجوں کو ختم کرنا ہوگا۔

خلاصۂ کلام :

 مختصر یہ کہ ۸۱۰۲ اپنے رخصت ہونے کے ساتھ ہمیں یہ پیغام دے رہا ہے کہ جائے دنیا سرائے فانی ہے ، یہ ایک امتحان گاہ ہے ، جس کا ایک ایک لحمہ ہمارے لیے سونے سے زیادہ قیمتی ہے ۔ کائنات کے یہ ماہ و سال یونہی گزرتے رہیں گے صبح و شام کی آمد ہوتی رہے گی اور ہم لمحہ بہ لمحہ موت سے قریب تر ہوتے جائیں گے ۔ابھی بھی وقت ہے ہمیں چاہیے کہ ہم ہوش کے ناخن لیں، اپنا احتساب کریں، اپنی دولت و جائیداد کو تمرد و سرکشی کا ذریعہ نہ بنائیں؛ بلکہ اسے صحیح مصرف میں خرچ کریں۔ اپنے اٹھنے والے قدم کو اللہ کی رضا و خوشنودی کی راہوں میں آگے بڑھائیں، رسول اللہﷺکی تعلیمات کو فروغ دیں، اپنی تہذیب وثقافت کی حفاظت کے لیے ہر ممکن سعی کریں، غیروں کی نقالی کرکے اسلامی تشخص و امتیاز کو مجروح نہ کریں۔ نئے سال کے نام پر انجام پانے والے غیر شرعی امور کے بجائے اللہ کو راضی و خوش کرنے والے کام انجام دیں۔ عیسائیوں کے طریقہ کے مطابق جو نیو ائیر کا استقبال کیا جا تا ہے ،کیک کاٹ کر اور مبارک بادیا ں دے کر اپنی تہذیب کا مذاق اڑایا جا تا ہے اسی طرح شور و شغب کے ذریعہ خدا کے غضب کو دعوت دینے والی حرکتیں کی جا تی ہیں،ان تمام چیزوں سے مکمل اجتناب کریں، اور اپنے نو نہالوں کو ان تمام امور سے روکیں ، اسلامی تعلیمات سے اپنی اولادکو آگاہ کریں ،ورنہ ہماری آنے والی نسلیں دین کی تعلیمات سے بے بہرہ ہو کر، مغربی طریقۂ زندگی ہی میں کامیابی تصور کر کے پروان چڑھتی رہے گی۔اعاذنا اللہ منہ

 

غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی 

گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹادی

 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں