2018:سپریم کورٹ نے سنائے عدالت میں بھروسہ مضبوط کرنے والے کئی اہم فیصلے۔چیف جسٹس آف انڈیا پر تاریخ میں پہلی بار سوال بھی اٹھے

عدالت عظمی نے 4:1کی اکثریت سے اس پابندی کو ختم کر دیا جس کے تحت 10-50سال کی عمروالی خواتین جو عورتیں تھیں انہیں روایت اور رواج کے نام میں سبری مالا مندر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تھی
نئی دہلی(ملت ٹائمز)
مریم ویبٹر ڈکشنری کے ذریعہ’جسٹس‘ کوورڈآف دی ایئر منتخب کیا گیا ہے۔پورے سال اس لفظ کو ویب سائٹ پرسب سے زیادہ سرچ کیاگیا۔ میرریم ویبرٹر کے ایڈیٹرپیٹرسولوسکی کے مطابق ’جسٹس‘لفظ سال بھر لوگوں کے دل ودماغ پرچھایارہا۔سیاسی گلیاروں میں روسی تحقیقات کا مسئلہ مرکز میں رہنے، امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ذریعہ ڈپارٹمنٹ آف جسٹس کے تناظر میں’جسٹس‘لفظ کو ٹویٹ کرنے،ٹیسلاتحقیقات، رابرٹ میولر کی انکوائری اور مائیکل کوہن کو تین سال قید کی سزا ملنے جیسے واقعات کے درمیان’جسٹس ‘ضروری طورپر امریکہ میں زیر بحث رہا۔جسٹس یا انصاف کی بات کریں تو ہندوستان میں بھی اس علاقے میں کافی اتھل پتھل رہی اور معزز سپریم کورٹ کے بہت سے تاریخی فیصلوں کو دیکھتے ہوئے انصاف کے علاقے میں سال 2018حیرت انگیز اور قابل ذکر رہا۔یہ سال رہا جس میں دو چیف جسٹس سابق چیف جسٹس دیپک مشرا اور موجودہ رنجن گوگوئی کی سربراہی میں آئینی بنچ نے سال کے بہت سے اہم فیصلے دئے تو وہیں رنجن گوگوئی نے رافیل سودے کے بارے میں قابل ذکر فیصلہ سنایا۔دفعہ 377ہٹانے سے لے کر خواتین کو سبریمالا میں داخلے کی اجازت، جہاں پہلے ان کا داخل ممنوع تھا، جیسے فیصلوں سمیت 2018نے ایسے ترقی پسندانہ فیصلوں کی لہر دیکھی جس نے قوانین میں تبدیلی کے ساتھ ہماری زندگی میں بھی تبدیلی لائی۔سال 2018خواتین کے لئے قابل ذکر بھی تھا۔اس دوران خواتین کو سبری مالا میں داخل ہونے کی اجازت ملی، جسٹس انڈو ملہوترابارسے براہ راست سپریم کورٹ میں آنے والی پہلی خاتون بن گئی۔اتنا ہی نہیں اپنے دہائیوں پرانی تاریخ میں رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے جموں و کشمیر ہائی کورٹ کو 2018میں ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج او پی شرما کی وکیل بیٹی سندھو شرما کے طور پر پہلی خاتون جج ملی اور جسٹس گیتا متل کی چیف جسٹس کی تقرری کے ساتھ ایک بار بارتاریخ بنائی گئی۔جموں و کشمیر ہائی کورٹ کی تاریخ میں پہلے 107ججوں میں کوئی خاتون نہیں تھی اور حال ہی میں ایڈوکیٹ مادھوی دیوان کو سپریم کورٹ کی ایڈیشنل سولسٹر جنرل (اے اےس جی)مقرر کیا گیا، جو اے اےس جی کے طور پر مقرر ہونے والی تیسری خاتون ہیں۔صنفی انصاف کی وکالت کرتے ہوئے اور ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے یہ کہا کہ احترام کے معاملے میںصنف امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔عدالت عظمی نے 4:1کی اکثریت سے اس پابندی کو ختم کر دیا جس کے تحت 10-50سال کی عمروالی خواتین جو عورتیں تھیں انہیں روایت اور رواج کے نام میں سبری مالا مندر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تھی۔تاہم یہ بھی حیران کرنے والا تھا کہ بنچ میں تنہاخاتون جج اندو ملہوترا نے اس فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی رسومات کے بارے میں عدالت کو فیصلہ نہیں لینا چاہئے۔تاہم اس فیصلے نے بھگوان ایپا کے روایتی عقیدت مندوں میں ناراضگی پیدا کردی، جو فیصلہ آنے کے بعد سے ہی اس کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کر رہے ہیں اور اس بات پر قائم ہیں کہ وہ مندر کی روایت کو نہیں ٹوٹنے دیں گے۔صنفی مساوات کی ایک بار پھر پیروی کرتے ہوئے اور اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ خاتون شوہر کی جائیداد نہیں ہے، عدالت کی پانچ ججوں والی بنچ نے 138سالہ پرانے قانون کو منسوخ کرتے ہوئے تعزیرات ہند کی دفعہ 497کو منسوخ کر دیا،اگرچہ یہ اب بھی طلاق کی بنیاد ہوسکتی ہے اور اگر کوئی شخص اس کی وجہ سے خودکشی کرتاہے تو اس عمل کو خودکشی کیلئے ابھارنے والا جرم کے طور پر سمجھا جائے گا۔سپریم کورٹ نے ایک اور تاریخی فیصلے میں ہم جنس کے درمیان جنسی تعلق کو بھی یہ کہتے ہوئے جرم کے دائرے سے باہر کر دیا کہ دو بالغوں کے درمیان رضامندی سے بنا جنسی تعلق رازداری کے حقوق کا معاملہ ہے۔عدالت نے کہا کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 377کو کمیونٹی کے ارکان کو پریشان کرنے کے لئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیاجانے والابتایا۔آدھار کی آئینی حیثیت پر چھڑی بحث پر روک لگاتے ہوئے سپریم کورٹ کے پانچ ججوں والی بنچ نے ایک اور اہم فیصلے میں کہا کہ آدھار آئینی ہے، لیکن یہ بینک اکا¶نٹ، موبائل وغیرہ سے لنک کرنا اور سرکاری خدمات کا فائدہ اٹھانے کے لئے لازمی کرنا غیر آئینی ہے۔سال 2018میں سپریم کورٹ نے مہلک بیماریوں یا لاعلاج بیماریوں میں مبتلا مریضوں کے لئے ہدایات کے ساتھ ’پےسو یوتھنےسیا‘یا خود کی مرضی سے مرنے کے لئے لکھی گئی وصیت (لیونگ)کو قانونی منظوری دے دی۔عدالت نے اس فیصلے میں کہا کہ ہر شخص کو وقار سے مرنے کا حق ہے ۔نئی عبارت لکھنے والے فیصلوں کے علاوہ، 2018کو ان سیاہ مثالیں اور حق کی آوازاٹھانے کے لئے بھی یاد رکھا جائے گا جو ہندوستانی عدلیہ کو اس سال دیکھنے پڑے،کبھی کسی کے ذہن میں بھی نہیں آیا ہو گا کہ ہندوستان کے چیف جسٹس کے مقدس اور باوقار عہدے پر سوالیہ نشان اٹھے گا، لیکن اس سال کے آغازمیں چار سینئر ججوں کی اچانک بلائی گئی پریس کانفرنس کے ساتھ ہوئی جس میں انہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشراکی طرف سے مقدمات کے سپردکرنے میں تعصب کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ بنچ بنانے میں انہوں نے عہدے کا غلط استعمال کیاہے۔اتنی ہی نہیں چیف جسٹس پر مواخذہ چلائے جانے کے اپوزیشن کے مطالبہ نے بھی ہندوستانی عدلیہ میں ہی نہیں، بلکہ سیاسی گلیاروں میں بھی ہلچل مچا دی۔اعلی عدلیہ میں ہونے والی تقرریوں میں تعطل بھی سنگین فکر اور عدلیہ اور حکومت کے درمیان تنازعہ کا مسئلہ بنا رہا اورسی جے آئی رنجن گوگوئی نے حال ہی میں این جی او سینٹر فار پبلک انٹریسٹ لیٹگےشن کی درخواست پر یقین دہانی کرائی کہ وہ مرکزی حکومت کے پاس زیر التواءکالجیم کی سفارشات کے معاملے پر غور کریں گے۔مجموعی طور پر کہیں تو سال 2018انصاف کے علاقے میں انتہائی قابل ذکر رہا جس میں ہمارے ملک کی عدالتوں کی طاقتوں پربھروسہ مضبوط ہوا تو ساتھ ہی یہ تاثر بھی ہوا کہ سب کو انصاف دینے والی عدلیہ میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔(آئی این ایس انڈیا کے ان پٹ کے ساتھ)

SHARE