نفرت کے ماحول کو ختم کرنے کی ذمہ داری ہماری: مولانا اسامہ قاسمیؔ 

 کانپور: (ملت ٹائمز ) ملک کے موجودہ حالات ہم سے سیرت نبویؐ پر عمل کا نقاضہ کر رہے ہیں۔ آج ہم نہ تو صحیح طور پر دین کے ماننے والے رہ گئے ہیں اور نہ ہی دنیا کے ، ہم صرف مرثیہ پڑھ کر دوسروں کو برا بھلا کہنے والے رہ گئے ہیں، یہ حضورؐ، صحابہ اور بزرگان دینؒ کا طریقہ نہیں تھا ۔ مذکورہ خیالات کا اظہار جمعیۃ علماء اترپردیش کے صدر مولانا محمد متین الحق اسامہ قاسمی قاضی شہر کانپور نے جامع مسجد اشرف آباد میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نے حضورؐ پر دین کی تکمیل فرمائی اب کوئی نیا نبی اور نئی و شریعت آنے والی نہیں ہے ، آپؐ سے صحابہؓ نے دین و شریعت کو سیکھاان سے تابعین، تبع تابعین، اولیاء اللہ اور بزرگان دین سے ہوتے ہوئے یہ دین ہم تک پہنچا ہے۔ ہم انسانوں کا تعلق اللہ اور اللہ کی مخلوقات دونوں سے ہے، اللہ سے عبادت اور عقائد کا تعلق ہے تو اللہ کے بندوں اور مخلوقات سے حسن سلوک، معاملات اور اخلاقیات کا رشتہ ہے۔ مذہب اسلام کی تعلیمات نے ہر کسی کا حقوق بتاکر دنیا میں رہنے کا پورا نظام دیا ہے۔ مولانا اسامہ نے کہا کہ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ جب آپؐ نے دین کی دعوت دینی شروع کی تو چچا سمیت سگے رشتہ بھی آپؐ کے کٹردشمن بن گئے، ایسے میں آپؐ نے اخلاق و کردار کا اعلیٰ نمونہ پیش کر کے دشمنوں کا بھی دل جیت لیا۔مولانا نے بتایا کہ کچھ لوگوں کو غلط فہمی ہوتی ہے کہ اخلاق اور محبت کی بات کرنا صحابہ کرامؓکی مجبوری تھی، ان کو طائف کا وہ منظر یاد کرنا چاہئے، جب آپؐ اپنے اوپر پتھر برسانے والوں کیلئے رحمت کی دعاء مانگ رہے ہیں، اور فرشتوں کو پہاڑوں کے درمیان بستی کو کچلنے سے منع فرما رہے ہیں۔ 3سال کے بائیکاٹ کا واقعہ بتاتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی کہ کوئی آپ پر پتھر چلائے، سالوں تک راشن ، پانی ، لوگوں سے ملنا جلنا بند کردے اور آپ اختیار ملنے کے باوجود اُس کیلئے رحمت اور ہدایت کی دعاء مانگیں۔ اِس وقت سیرت کا یہ حصہ ہماری نظروں سے اوجھل ہے، ہمیں اس پر غور کرنا ہوگا۔ 

صحابہ کرامؓ نے نبیؐ کی سیرت پر عمل کرکے لوگوں کے دلوں کو جیتا ہے۔ مولانا اسامہ نے کہا کہ ابھی ہمارے اوپر اتنے برے حالات نہیں آئے ہیں کہ ہم کسی کیلئے بد دعاء کرنے لگیں، ہمیں اس وقت اپنے برادران وطن کے سامنے اخلاق وکردار کا اعلیٰ نمونے کوپیش کرنے کی ضرورت ہے۔ مولانا نے کہا کہ نبیﷺ اور صحابہ کرامؓ شہادت کی تمنا رکھنے کے ساتھ ساتھ اللہ کو راضی کرنے کی تمنا رکھتے تھے۔ ہمیں بھی رضائے الٰہی کی تمنا رکھنی چاہئے لیکن پہلے نبی ؐ کی سیرت کو اپنانا پڑے گا کہ کن حالات میں انہوں نے کو ن سالائحہ عمل اپنایا۔ آج ہمارے ملک میں جھوٹی اور فرضی کہانیاں گڑھ کر چینلوں، اخباروں اور سوشل میڈیا کے ذریعہ نفرت پھیلانے کا کام کیا جا رہا ہے، ایسے میں امن ، محبت اور بھائی چارے کا پیغام دے کر ہمیں انہیں جواب دینا چاہئے۔ مولانا نے موجود لوگوں کو اپنے اکابرین مولانا حسین احمد مدنیؒ اور مولانا قاسم نانوتویؒ کی تاریخ سے واقف کراتے ہوئے کہا جس وقت مولانا حسین احمد مدنیؒ جیل میں تھے ان کے ساتھ برادران وطن کے غیر مسلم لیڈر بھی تھے انہوں نے جیلر کو خط لکھا تھا ’’ اگر میں مولانا صاحب کے ساتھ کچھ دن اور رہا تو میں مسلمان ہونے کیلئے مجبور ہو جاؤں گا ‘‘ بعد میں پتہ چلا کہ جیل میں مولانا ؒ اس کی اتنی خدمت کرتے تھے کہ وہ یہ بات کہنے سے خود نہیں روک پائے، اسی طرح مولانا ؒ ٹرین کے سفر کا واقعہ بتایا جس میں آپؒ نے سردار کیلئے بیت الخلاء کو صاف کر دیا تھا۔ مولانا اسامہ نے بانی دار العلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتوی ؒکے واقعہ کو بتایا ایک شخص آپؒ سے ملنے آیا تو وہ آپ کو پہچانتا نہیں تھا، اتفاق سے اسٹیشن پر جب وہ پہنچا تو مولانا کو قلی سمجھ کر اپنا سامان ان کے سر پر رکھ دیا ، علاقہ میں پہنچنے کے بعد جب اسے معلوم چلا کہ یہ اتنے بڑے بزرگ ہیں تو وہ ان کے قدموں میں گر گیا۔

اس لئے آج ہم اپنے طریقہ کو بدلیں، نفرت کے ماحول کو ختم کرنے کی ذمہ داری ہمارے اوپر ہے ، ہم اپنے سامنے نبیؐ، صحابہؓ ، اولیاء اللہ اور بزرگان دینؒ کی زندگیوں کو سامنے رکھیں اور ہر حال میں لوگوں کے ساتھ اچھا معاملہ کریں ، دلوں کو دکھانے اور برا کہنے کے بجائے دلوں کو جیتنے کی کوشش کریں۔