پاکستان نے سود کی شرح میں اضافہ کیا، اقتصادی بحران کا خدشہ ۔ سرمایہ کار بھی پریشان

”سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں شرح سود کم تھی تو اس وقت سرمایہ کاری آرہی تھی۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم آٹھ ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا، لیکن اب پالیسی ریٹ بڑھنے کے بعد سرمایہ کاری میں مسلسل کمی ہو رہی ہے
اسلام آباد (ڈی ڈبلیو)
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے آئندہ دو ماہ کے لیے مانیٹرنگ پالیسی کا اعلان کر دیا ہے، جس کے تحت بنیادی شرح سود میں ڈیڑھ فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ اس کے بعد پاکستان میں پالیسی ریٹ بارہ اعشاریہ پچیس فیصد ہو جائے گا۔اسٹیٹ بینک کے اس فیصلے کے پاکستانی معیشت پر تو اثرات یقیناً پڑیں گے۔ ملکی تاجروں و صنعت کاروں نے فوری طور پر اس فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے شرح سود میں اضافے کو صنعتی ترقی میں رکاوٹ سے تعبیر کیا ہے۔
سرمایہ کاری بورڈ کے سابق چیئرمین اور ممتاز صنعت کار زبیر موتی والا نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا،”شرح سود میں اضافہ صنعتی شعبے کے لیے بلاشبہ مشکل ترین فیصلہ ہے۔ اس فیصلے سے نہ صرف سرمایہ کاری متاثر ہوگی، بلکہ وہ صنعت کار جو ملک میں امن و امان قائم ہونے کے بعد نئی صنعتیں لگانے کے بارے میں سوچ رہے تھے، وہ اب اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔“
انہوں نے مزید کہا،”سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں شرح سود کم تھی تو اس وقت سرمایہ کاری آرہی تھی۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کا حجم آٹھ ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا، لیکن اب پالیسی ریٹ بڑھنے کے بعد سرمایہ کاری میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ حکومت ایک طرف تو لاکھوں ملازمتیں دینے کی بات کرتی ہے لیکن دوسری جانب پیداواری لاگت میں اضافہ کردیتی ہے۔ ایسی صورتحال میں پیداوار اور روزگار کے مواقع کیسے بڑھ سکتے ہیں۔“
ماہرین کے مطابق تین سال قبل 23 مئی 2016 کو پالیسی ریٹ پانچ اعشاریہ سات پانچ فیصد کی کم ترین سطح پر تھی، جس میں اب مسلسل اضافے کا سلسلہ جاری ہے، موجودہ حکومت جب اقتدار میں آئی تو اس وقت بھی 16 جولائی 2018 کو پالیسی ریٹ صرف چھ فیصد تھا، یعنی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے شرح سود کو نہ صرف دہرے ہندسے میں پہنچا دیا، بلکہ دگنا اضافہ بھی کردیا۔
اقتصادی تجزیہ کار عمران سلطان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”پالیسی ریٹ بڑھنے سے نجی شعبے کے لیے قرضوں کی لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے، یعنی کاروباری افراد کو مہنگے ریٹ پر قرضہ ملتا ہے۔ اس سے ایک طرف تو وہ صنعتوں میں توسیع بند کردیتے ہیں اور دوسری طرف اپنا بوجھ صنعتی پیداوار پر منتقل کردیتے ہیں، جس کے نتیجے میں اشیا کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں اور نتیجہ مہنگائی کی صورت میں عام آدمی کو بھگتنا پڑتا ہے۔“
ان کا مزید کہنا تھا،”پالیسی ریٹ بڑھنے سے یقینا مہنگائی میں اضافہ ہوگا، عام آدمی جو پہلے ہی پیٹرولیم مصنوعات اور ڈالر کی قیمت میں اضافے سے ہر چیز پر اضافی پیسے دے رہا ہے، اس کی زندگی مزید مشکل ہوجائے گی، کیونکہ اشیا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، لیکن اس کی آمدنی میں کوئی اضافہ نہیں ہورہا۔”
اسٹیٹ بینک آف پاکستان ہر دو ماہ بعد پالیسی میں ردوبدل کرتا ہے۔ اس سے قبل مرکزی بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس ہوتا ہے، جس میں ملک کے معاشی حالات بالخصوص مہنگائی میں اضافے کی شرح اور نجی شعبے کے قرضوں کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
سندھ انڈسٹریل ٹریڈ اسٹیٹ کے چیئرمین سلیم پاریکھ نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے پالیسی ریٹ پر بات کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا،”جس قدر اضافہ کردیا گیا ہے، اس کی امید نہیں تھی، ایسا محسوس ہورہا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کو خوش کرنے کے لیے پالیسی ریٹ میں اس قدر اضافہ کیا گیا ہے، شرح مبادلہ میں بھی استحکام نہیں، ڈالر روز اوپر سے اوپر جا رہا ہے، ایسے میں صنعت کار یا عام آدمی کیا کرے۔“انہوں نے مزید کہا،”پہلے ہی عام آدمی مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے۔ اب مزید مہنگائی ہوگی، اتنے زیادہ ریٹ پر صنعت کیسے چل سکتی ہے، اب انڈسٹری سے لوگوں کی چھانٹی ہوگی اور پیداوار کم ہوگی، یعنی ہر طرح سے متاثر عام آدمی ہی ہوگا۔“
پاکستانی حکام اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے درمیان گزشتہ ہفتے چھ ارب ڈالر قرضے کے لیے معاہدہ طے پایا ہے، جس کے خدوخال تاحال سامنے نہیں آئے ہیں، لیکن اقتصادی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاکستان میں بجلی، گیس، ڈالر کی قیمت اور پالیسی ریٹ میں اضافہ اسی معاہدے کا حصہ ہے۔

SHARE