مولانا محمود احمد خاں دریابادی
۲۰۱۹ کے انتخابات ختم ہوچکے، نتیجے آگئے، ۳۰ مئی تک نئی حکومت بھی بن جائے گی، الیکشنی طوفان کا غبار بیٹھ جائے گا۔ تب ایک گوشے میں بیٹھ کر غیر جذباتی ہوکر ٹھنڈے دل سے سوچئے گا کہ ہم مسلمانوں کے لئےیہ الیکشن کتنے عبرتناک اسباق چھوڑ گیا ہے۔ اگر آپ ایک زندہ قوم ہیں تو ان اسباق پر غور کیجئے، ان کو سامنے رکھ کر آئندہ کا لآئحہ عمل ترتیب دیجئے، نئی اسٹریجی بنائیے۔
یاد کیجئے الیکشن کے آغاز سے قبل بھی ہم نے ایک مضمون لکھا تھا جس میں سوال کیا گیا تھا کہ کیا ہندوستان میں سیکولر ازم کو بچانے کا سارا ٹھیکہ صرف مسلمانوں نے ہی لے رکھا ہے ؟
آج الیکشن ختم ہوجانے کے بعد ہمارے سوال جواب یہ ملا ہے کہ ” ہاں سارا ٹھیکہ صرف ہمارا ہی تھا “ جس کے لئے ہم نے ( نام نہاد سیکولر پارٹیوں میں آپسی اتحاد بنانے میں ناکامی کے باوجود ) دانشمندانہ کوششیں بھی کی، عام مسلمانوں نے ہر جگہ اُس سیکولرپارٹی کا ساتھ دیا جو فرقہ پرستوں کے مقابلے میں مضبوط نظر آرہی تھی ـ مگر ہم سیکولر ازم کو بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ …. کیوں ؟؟
حالانکہ ہم نے صرف سیکولر ازم کو بچانے ہی کے لئے بڑے پیمانے پر اپنی مسلم پارٹی نہیں بنائی، اویسی اور بدرالدین اجمل جیسے مسلم سربراہوں والی پارٹیوں کا بھی عممومی طور پر ساتھ اس لئے نہیں دیا کہ اس سے کہیں سیکولر ازم کمزور نہ ہوجائے، ….. مگر اس کے باوجود بھی فرقہ پرست کہی جانے والی پارٹی دوبارہ زبردست پیمانے پر اقتدار میں آگئی۔ …… کیوں؟؟
دراصل ہم نے نام نہاد سیکولروں کا ساتھ اس لئے دیا تھا کہ ہم مسلمان اس ملک میں اقلیت میں ہیں ہم تنہا کامیاب نہیں ہوسکتے اس لئے دیگر غیر مسلم ووٹ بنک رکھنے والی سیکولر پارٹیوں کا ساتھ دیکر انھیں اقتدار میں پہونچائیں نیز ان کے سہارے ہمیں بھی اقتدار میں کچھ حصہ مل جائے گا ـ مگر ہوا کیا ؟ …. وہ پارٹیاں خود ہھی بے حیٹیت ہوکر رہ گئیں اور ہمیں بھی بے حیثیت بنادیا، اُن کا سارا ووٹ بنک اُن کے پاس سے کھسک گیا، صرف ہم لوگ ہی اُن کے ساتھ کھڑے رہ گئے …. اس وجہ سے ایک بڑا نقصان ہمارا یہ بھی ہوا کہ برسر اقتدار پارٹی جو پہلے بھی ہم سے بدظن تھی اس سے ہماری دشمنی اور مضبوط ہوگئی جس کے نتیجے میں اللہ نہ کرے آئندہ پانچ برسوں میں مزید نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ …. یہ بات سچ ہے کہ مسلمان حالات سے گھبراتا نہیں ہے، مگر اپنی توانائیاں تعمیر و ترقی کے بجائے ہمہ وقت اپنے دفاع اور تحفظ میں لگاتے رہنا بھی دانشمندی نہیں ہے۔
ہم اس ملک میں پندرہ فیصد ہیں ہم نے ہمیشہ مسلم اتحادکا زور شور سے نعرہ لگایا مگر متحد کبھی نہیں ہوئے، ….. پھر ہم نے مسلمانوں کے ساتھ دلتوں ودیگر پچاسی فیصد کمزور طبقات سے اتحاد کرنے کی کوشش کی مگر اس میں بھی کامیاب نہیں ہوئے، ….. دلتوں اور کمزور طبقات کا ووٹ بنک رکھنے والی پارٹیوں کا بھی اسی لئے ساتھ دیا، …. مگر ہوا یہ کہ برسر اقتدار پارٹی نے راشٹرا واد ( ہندوتوا پڑھا جائے) کے نام پرتمام پچاسی فیصد غیر مسلموں کو متحد کرنے کی کوشش کی اور اس میں بڑی حد تک کامیاب ہوگئے، …… آج نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بھاجپا کوجو موجودہ الیکشن میں جو ۳۰۳ سیٹیں حاصل ہوئی ہیں اُن میں ۲۳۰ سیٹیں پچاس سے ساٹھ فیصد ووٹ حاصل کرنے کے بعد ملی ہیں نیز ۳۵ سے ۴۰ سیٹیں پیتالیس سے پچاس فیصد ووٹ حاصل کرنے کے بعد حاصل ہوئی ہیں، اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ تقریباً ۲۷۰ سیٹیں پچاس فیصد ووٹ کے ڈریعے ملی ہیں جو تنہا حکومت بنانے کے لئے کافی ہیں۔
سوچئے! اب کیا رہ گیا، اگر کانگریس اور دیگر تمام پارٹیاں ایک ساتھ آجاتیں تب بھی بھاجپا کو حکومت بنانے سے کوئی روک نہیں سکتا تھا۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا ؟
ممکن ہے یہ کہا جائے کہ مشین کی گڑبڑی کی وجہ سے ایسا ممکن ہو سکا ہے۔ …… مگر میں اس سے پوری طرح اتفاق نہیں کرسکوں گا، ہوسکتا ہے کہیں مقامی پیمانے پر کچھ گڑبڑ ہوئی ہو، اگر اتنے پڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہوتی تو اپوزیش جس نے اس الیکش کو جیتنے کے لئے اہنا سب کچھ لگا دیا تھا، راہل، پرینکا، مایاوتی، اکھلیش، ممتا، لالو وغیرہ کیا کر رہے ہیں، آجکل دنیا بہت چھوٹی ہوگئی ہے ہندوستانی میڈیا خریدا جاسکتا ہے تو کیا سارا عالمی میڈیا بھی خاموش رہتا۔
دراصل اس جیت کے پیچھے مکمل پلاننگ ہے، کئی سطح پر کام ہوا ہے، پہلے دستوری ادارے عدالتیں، الیکشن کمیش وغیرہ کمزور کئے گئے، میڈیا کو مینج کیا گیا، پچھلے پانج برسوں میں گو رکھشا، موب لنچنگ وغیرہ کے ذریعے عام مسلمانوں پر ہونے والے تشدد کو عام کرکے غیر مسلموں کو یہ پیغام دیا گیا کہ ہماری پارٹی ہی ان کو قابو میں رکھ سکتی ہے، درمیان میں تین طلاق جیسے مسلم مسائل پرقانون سازی کرکے اس تاثر کو اور مضبوط کیا گیا اور پھر آخر میں پھلوامہ اور بالاکوٹ ….. گُھس کر ماریں گے جیسے فلمی ڈائیلاگ اور پرگیہ سنگھ کی امیدواری!
اس طرح کے اقدامات نے ہندوستان کے اکثر باشندوں خصوصاً نوجوانوں کے دل میں پچھلے پانچ سالوں میں نوٹ بندی، جی اس ٹی وغیرہ زخموں کو بھلادیا اور ان کے اندر نام نہاد راشٹراواد / ہندوتوا کا ایسا جذبہ پیدا کردیا کہ کچھ بھی ہوجائے ” آئے گا تو مودی ہی ” ….. یاد ہوگا دگ وجے سنگھ نے جب ایک بھرے جلسے میں پوچھا کہ جس کو پندرہ لاکھ ملے ہوں وہ ہاتھ اُٹھائے، ایک نوجوان نے ہاتھ اُٹھایا، دگ وجے نے اسٹیج پر بلاکر جب اس کا اکاونٹ نمبر معلوم کیا تو اُس نے مائیک ہاتھ میں لے کر کہا کہ مودی نے سرجیکل اسٹرائیک کرکے آتنک وادیوں کو سبق سکھایا ہے۔ بالکل یہی جذبہ دیگر نوجوانوں کے دل میں بھی جگایا گیا کہ تمام پریشانیاں، جھوٹ اپنی جگہ مگر دشمنوں کے لئے مودی ہی ضروری ہے۔
ہم مسلمان عام طور پر اپنے ماحول میں رہ کر اردو اخبارات اور شوشل میڈیا میں شایع ہونےوالے مسلمانوں کے مضامین، سید شجاع جیسی مجہول شخصیت اور پنیہ پرسون باچپئی جیسے صحافی جو ذاتی بنیادوں پر حکومت کے مخالفت کررہے تھے کے تبصرے سن کر یہ تصور کئے بیٹھے تھے کہ اس بار بی جے پی کی سیٹیں دوسو کے اندر ہی رہیں گی …… مگر اپنے مطب میں غیر مسلم مریضوں سے جب بھی اس موضوع پر میں نے گفتگو کی سب نے تمام تر پریشانیوں کے باوجود مودی کی دوبارہ واپسی اگرچہ کم سیٹوں کے ساتھ ہو کی بات ہی کی۔ بہت سے غیر مسلم ملاقاتی جن میں صحافی، سرکاری افسران اور عام بیوپاریوں سے بھی اگر ایسی گفتگو ہوئی تو ان کا بھی یہی جواب ہوتا تھا۔
توعرض کرنے کا منشا یہ ہے کہ ایک لمبی پلاننگ اور کڑی محنت، بڑے بڑے جلسوں، ریلیوں اور روڈ شو سے لے کر لوکل بوتھ تک کی مرتب کوششوں کا نتیجہ ہے جو آج بھاجپا کو حاصل ہوا ہے۔
اب آخری بات یہ رہ جاتی ہے کہ ایسے میں ہم مسلمان کیا کریں؟ ….. کیا ہم اب بھی سیکولرازم کا جھنڈا اُٹھا کر عوام میں اپنی قدر کھو دینے والی پارٹیوں کا لاحقہ بنے رہیں …. یاد رہے نام نہاد سیکولروں کے پاس اب کوئی ووٹ بنک نہیں رہا، ہم اُن کے ساتھ جاکر بھی اُنھیں کامیاب نہیں کراسکیں گے۔
یا پھرہم سیکولرازم، کمیونزم کے چکر میں پڑے بغیر حکمت اور مصلحت کے ساتھ ( چاپلوسی اور تملق کا سہارا لئے بغیر) برسراقتدار طبقے سے اجتماعی طور پر رابطہ بڑھائیں، براہ راست لاجیکل انداز میں اُن سے مختلف مسائل پر گفتگو کریں، اپنا موقف ایسے انداز میں ان کے سامنے رکھیں جس سے اُن کے کسی مذہبی جذبے کو ٹھیس بھی نہ پہونچے اور یہ بھی واضح ہوجائے کہ ہمارے موقف کو اختیار کرنے میں ملکی مفاد بھی متاثر نہیں ہوتا بلکہ عالمی پیمانے پر ہندوستان اور اس کے حکمرانوں کے روشن تصویر مزید واضح ہوکر دنیا کے سامنے پہونچے گی۔
میل ملاقات بڑھتی ہے تو کشیدگی کم ہوتی ہے، آنکھوں کی شرم بھی بڑھتی ہے اور ایک مسلمان کے لئے اپنے اخلاق و کرار کے ذریعے کسی غیر کو اسلام کے قریب کرنے کا موقع بھی ملتا ہے، خیر امت ہونے کی حیثیت سے یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
اپنے اس مضمون کے ذریعے ہم ملت کے ارباب حل وعقد کے سامنے موجودہ ماحول میں سارے حالات اور پس منظر کو سامنے رکھ کر غور کرنے کی اپیل کرتے ہیں ـ ارایس ایس کی آئیڈیا لوجی اور مندر مسجد جیسے خالص مذھبی مسائل بھی ہیں، اس سلسلے میں ہمارا ماننا ایسا ہے کہ جب براہ راست گفتگو ہونے لگے گی تو ہم اس طرح معاملات میں بھی اپنا موقف مضبوط اور کنونسنگ انداز میں اُن کے سامنے رکھ سکیں گے ـ اور اگر خدانخواستہ ہم اپنی ان مثبت کوششوں میں کامیاب نہیں ہوسکے تو اس میں ہمارا مزید کیا نقصان ہوسکتا ہے، برسوں تک ہم نام نہاد سیکولروں کے چکر میں رہے ایک بار دوسروں سے بھی بات کرکے دیکھ لیں، ممکن ہے کچھ بہتر صورت سامنے آئے۔
کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہماری تمام باتوں سے اتفاق کیا جائے اس لئے دلیل کے ساتھ سنجیدہ اور غیر جذباتی انداز کی دوسری آرا کا بھی خیر مقدم ہے۔ انشااللہ ہم سب کے گراں قدر مشوروں کی روشنی میں ملت کے سامنے موجودہ حالات میں کوئی انسب راستہ سامنے آئے گا۔ واللہ المستعان۔