پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے

 کلیم الحفیظ 

نوجوان کسی بھی قوم کا عظیم سرمایہ ہیں۔ ہر قوم اپنے جوانوں پر فخر کرتی ہے۔ یہ عمر عزم، ہمت ، حوصلے اور کچھ کر دکھانے کے جذبہ سے سرشار ہوتی ہے۔ نوجوان طوفانوں کا رخ موڑ سکتے ہیں، پہاڑوں کا سینہ چیر کر راستا بنا سکتے ہیں، آسمانوں پر کمندیں ڈال سکتے ہیں۔ نوجوان اولاد اپنے والدین اور بزرگوں کا سر اونچا رکھتی ہے، خاندان، قوم اور ملک کانام روشن کرتی ہے۔ لیکن یہ سب اسی وقت ہوتاہے جب نوجوان قابل فخر کارنامے انجام دیتے ہیں۔ اگر بدقسمتی سے کوئی نوجوان غلط رخ اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے گھر، سماج ، قوم اور ملک کے لےے مہلک ثابت ہوتا ہے۔

بدقسمتی سے آج مسلم ملت کی صورت حال اس پہلو سے بہت تشویشناک ہے۔ قوم کے اس عظیم سرمائے کو نکھارنے، سنوارنے ، بچانے اور کام میں لانے کی کوئی منصوبہ بندی ہمارے پاس نہیں ہے۔ نوجوانوں کو کوئی راستا دکھانے والا نہیں، اس لےے وہ جدھر چاہتے ہیں، چل پڑتے ہیں ۔

ہم اپنے نوجوانوں کی برائیاں شمار کرتے ہیں، ان کا چرچا کرتے ہیں، ان پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں، اُن سے نفرت کرتے ہیں، ان پر لعن طعن کرتے ہیں،لیکن ہم کبھی اس پر غورنہیں کرتے کہ ان نوجوانوں کا استعمال کس طرح کیا جائے۔ کوئی اٹھتا ہے اور ان کو اپنی سیاسی جماعت کے جلسے جلوس میں لے جاکر نعرے لگواتا ہے، کوئی نیک بنانے کے نام پر ہاتھ میں تسبیح تھما دیتا ہے۔ کوئی ان کو عرس اور میلے گھماتا ہے۔ بلا مبالغہ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ کسی کے پاس بھی نوجوان نسل کے لےے کوئی منصوبہ، پروگرام اور پالیسی نہیں ہے۔

یہ نوجوان نسل مسلم محلوں میں ادھر ادھر بھٹکتی ملے گی۔ خالی میدانوں میں گلی ڈنڈا اور کرکٹ کھیلتے نظر آئے گی۔ پان، بیڑی، گٹکا سے لے کر چرس، گانجا اور شراب پیتی پلاتی نظر آئے گی۔سٹا اورجوا کھیلے گی، راہ چلتی لڑکیوں کو تاکتی، جھانکتی اور چھیڑتی نظر آئے گی ، موبائل پر فحش اور فضول ویڈیوز میں وقت گزارے گی۔ اس کے چہرے پر مایوسی اور تکان دورسے ہی دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ اندیشوں میں جی رہی ہے۔یہ ڈپریشن کا شکار ہے۔ اس کے سامنے نہ راستا ہے نہ منزل۔ 

آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا ہماری مذہبی، سیاسی اور سماجی قیادت کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ مسلم نوجوانوں کے لےے پروگرام بنائے۔ تعلیم اور کیئریئر میں ان کی رہنمائی کرے۔ بے روزگار نوجوانوں کے لےے پلاننگ کرے ، ان کے مسائل کو حل کرنے کا لائحہ عمل بنائے تاکہ ان کے چہرے پر مسلسل چھائی مایوسی کے بادل چھٹ جائیں،ان کے عزم وحوصلہ کو جلا ملے،ان کامستقبل روشن ہو۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان کے مستقبل سے ہی قوم اور ملک کا مستقبل وابستہ ہے۔ کسی بھی سماج میں نوجوانوں کی تعداد بچوں اور بوڑھوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ 20 سال کی عمرسے لے کر 40 سال کی عمر تک 20 سال ہی کسی شخص کی زندگی کا رخ طے کرتے ہیں۔ یہ عالم شباب ہے ،اگر اس عمر میں کوئی نوجوان مثبت سوچ کے ساتھ منزل کی طرف سفر شروع کرتا ہے تو منزل اس کے قدم چھوتی ہے۔ یہی ایام اگر لاپرواہی میں گزر جائیں تو ان کی زندگی اس کے لےے عذاب بن جاتی ہے۔ بلکہ اس کی کئی نسلیں اس کو معاف نہیں کرتیں۔

میں جب کسی شہر کے ہزاروں نوجوانوں کو کوڑا کرکٹ سے بھرے میدانوں میں فضول کاموں میں مصروف دیکھتاہوں تو خون کے آنسو روتا ہوں۔ اگر یہ نوجوان سو روپے روزبھی کماتے تو قوم کو ہزاروںکروڑ روپے کا فائدہ ہوتا۔ میری گزارش ہے کہ اصلاح معاشرہ اور اصلاح قوم کا کام کرنے والوں سے کہ وہ خصوصی طور پر اس جانب توجہ دیں اور ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کے لےے ذریعہ معاش کی فکر کریں۔ خالی پیٹ نہ تعلیم اچھی لگتی ہے نہ بھجن۔ آپ تمام نوجوانوں کو مصروف کردیجےے ، وہ تمام نوجوان خود ہی کارآمد ہوجائیں گے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کریں؟ ان کو کس طرح مصروف کیا جائے؟ اس کے لےے ہمیں تھوڑی محنت کرنا ہوگی، ہمیں سروے کرنا ہوگا، بے روزگار نوجوانوں کی فہرست بنانا ہوگی۔ خاص طور پر ان نوجوانوں کی جو بے روزگار بھی ہیں اور اخلاقی بگاڑ میں بھی مبتلا ہیں۔ ان کی صلاحیتوں کو جانچنا ہوگا۔ اس کے بعد ان کے لےے کام تجویز کرنا ہوگا۔ یادرکھئے اللہ تعالیٰ نے کوئی شے بے کار پیدا نہیں کی۔ اس نے ہر انسان کو کام کا بنایا ہے لیکن ہر انسان کو ہر کام کا نہیں بنایا۔ کہیں یہ حالت ہے کہ بے روزگاروں کی فوج ہے اور کہیںیہ حالت ہے کہ کام کے لےے مزدور تک نہیں ہےں۔ ہمیں ان کو عزت دینا ہوگی، ان کو ان کے نقصان کااحساس کرانا ہوگا، ان کی کاو ¿نسلنگ کرنا ہوگی، ان کی رہنمائی کرنا ہوگی۔ انسانی زندگی کے لےے ہر طرح کے افراد کی ضرورت ہے۔ یہاں مزدور، راج مستری، کاری گر، اساتذہ ، کلرک ، لوہار،بڑھئی ، ڈاکٹر،کمپاؤنڈر ،فارماسسٹ، ڈرایﺅر، کنڈکٹر، دوکاندار،سیلس مین، باورچی، ریسیپشنسٹ، مینجیر، رایٹر، ایڈیٹر، امام، مدرس، آرٹسٹ، جرنلسٹ وغیرہ سب کی ضرورت ہے۔

ہمارے نوجوانوں کوپنے آس پاس کے کاموں پر نظر رکھنا چاہےے، خود کو ان میں سے کسی کام کے قابل بنانا چاہیے۔ یہ انسانی سماج ہے ،یہاں ہر ایک کی ضرورت دوسروں سے پوری ہوتی ہے۔ لہٰذا ہمارے نوجوانوں کو بھی کسی کی ضرورت بننا چاہیے ۔ اگر وہ کسی کی ضرورت بنیں گے تو ان کو روزگار ملے گا۔ روزگار رہے گا تو خوش حالی آئے گی۔ خوش حالی آئے گی تو ملک اور قوم کا مستقبل روشن ہوگا۔

ہماری قیادت کو محبت کے ساتھ اس مسئلہ پر غور کرنا چاہےے۔ آل انڈیا کی پروگرامنگ نہ سہی کم از کم اپنی بستی،شہر، اپنے محلہ، اپنی برادری اور اپنے علاقوں کی پلاننگ تو کی جاسکتی ہے۔ اگر وقت رہتے اس طرف توجہ نہ کی گئی تو کرائم اور جرائم کا گراف بڑھتا جائے گا۔ خوش حال، بر سرروزگارافراد اور قائدین ملت یہ سوچ کرخوش نہ ہوں کہ وہ اور ان کے بچے معاشی طور پر مستحکم ہیں، اس لےے کہ جب کسی سوسائٹی کا نوجوان طبقہ بگڑتاہے تو شریفوں کی زندگی بھی اجیرن کردیتا ہے۔خدا سے دعا ہے کہ:

جوانوں کو مری آہ سحر دے

پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے  

( مضمون نگار انڈین مسلم اٹیلیکچول فورم کے کنوینر ہیں) 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں