بجنور بم دھماکہ کیس: تفتیشی ایجنسیوں کا جھوٹ بے نقاب! خصوصی سرکاری گواہ نے این آئی اے کے بیانات کو اپنا بیان ہونے سے کیا انکار

ممبئی: (پریس ریلیز) اتر پردیش کے شہر بجنور میں 2014 میں ہوئے بم دھماکہ کے الزام میں بر سوں سے قید و بند کے صعو بتیں جھیلنے والے رئیس،عبد اللہ فرقان،ندیم اور حسنہ نامی خاتون کے مقدمہ کی سماعت لکھنو کی خصوصی این آئی اے عدالت میں جاری ہے،اور اس کیس سے متعلق گواہوں کو عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے آج یہاں این آئی اے کی خصوصی عدالت میں استغاثہ کی جا نب سے پیش کر دہ سرکاری گواہ ثمود خان الورنے اپنے بیان میں کہا کہ امجد اور سالک جن کا کھنڈوہ جیل سے فرارہو نے کے الزام میں انکاؤ نٹر ہو چکا ہے یہ دو نوں بجنور واقعہ سے قبل اس کے مکان میں کیرایہ پر رہتے تھے اسی دوران امجد سےحسنی کی بات چیت ہونے کا الزام لگا یا گیا ہے تاکہ ملز مین کو غلط طریقہ سے پھنسایا جا سکے۔دفاع کی جرح کے دوران ثمود خان نے اقرار کیا کہ این آئی اے کی جانب سے میری طرف منسوب کرکے جو بیانات درج کرائے گئے ہیں میرے اپنے بیان نہیں ہیں بلکہ ایجنسی کے مفرو ضہ تیار کرہ بیا نات ہیں۔ اس بات کی اطلاع آج یہاں اس مقدمہ میں مفت قانونی امداد فراہم کرنے اور بے گناہ نو جوانوں کی عدالتوں میں پیروی کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء مہا راشٹر کے صدر مولانا حافظ محمد ندیم صدیقی نے دی ہے۔مزید تفصیلات دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ دیگر گواہوں کی طرح ثمود خان نے بھی دفاع کے سوالوں کے جواب میں یہی کہا کہ اسے اس کیس کے سلسلہ میں زیادہ معلومات نہیں ہے،اسے یہ بھی یاد نہیں ہے کہ این آئی اے کو اس سے قبل کب اور کس تاریخ میں بیان دیا تھا۔وہیں دوسری طرف این آئی اے کے دباؤ کی وجہ سے حسنی کے بھائی ندیم کو لکھنو جیل سے بارہ بنکی جیل ٹرانسفر کر دیا گیا ہے جہاں اسکے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جار ہا ہے نماز اور دیگر احکام شرع کی ادئیگی سے روکا جا رہا ہے،اس طرح کی سختیاں اس لئے کی جا رہی ہیں تاکہ وہ مجبور ہو کر اپنے ناکردہ گناہوں کا اقرار کرلے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ این آئی اے اپنے جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے ایسے ایسے گواہوں کو عدالت میں پیش کر رہی ہے جس کا اس کیس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے،یہی وجہ ہے کہ دفاع کی زور دار جرح کی تاب نہ لاکر اکثر گواہ اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ این آئی اے پہلے سے ان کے جھوٹے بیان لکھ رکھے ہیں جنہیں ہمارے ذریعہ عدالت میں پیش کر رہے ہیں،این آئی اے کے زیادہ تر بیانات ہمارے اپنے بیان نہیں ہیں بلکہ انہیں کی طرف سے مفروضہ بنائے گئے بیانات ہیں۔ واضح رہے کہ بجنور(اتر پر دیش) میں 12/ستمبر2014 میں ایک دھماکہ ہو ا تھا، جس کے بعد یوپی ایس ٹی ایف نے رئیس،عبد اللہ،فرقان،ندیم اور حسنہ نامی ایک خاتون کو گرفتار کرتے ہوئے ان پر ملک کے خلاف جنگ، سازش اور غیرقانونی ہتھیار و دھماکہ خیز مادہ رکھنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا اور اسی کے مطابق ان کے خلاف فرد جرم بھی عائد کیا۔اس کیس کی سماعت پہلے بجنور کی ضلع عدالت میں ہو ئی، اس کے بعد حکومت ہند نے جب یہ مقدمہ این آئی اے کے حوالے کر دیا تواس کی سما عت بجنور ضلع عدالت سے لکھنواین آئی اے کی خصوصی عدالت میں منتقل ہو گئی تھی،اس وقت سے مقدمہ کی سماعت اور جرح لکھنو خصوصی عدالت میں جاری ہے۔اس موقع پر جمعیۃ علماء مہا راشٹر کے صدر مولانا حافظ محمد ندیم صدیقی نے کہا کہ بجنور کی ضلعی عدالت میں وکلاء نے اس کیس کا با ئیکاٹ کر دیا تھا جس کے بعد ان ملز مین کے اہل خانہ نے اس کیس کی پیروی کرنے کے لئے جمعیۃ علماء مہاراشٹرسے درخواست کی تھی جمعیۃ علماء مہاراشٹر نے اس کیس کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اس مقدمہ کی پیر وی کے لئے دہلی کے مشہور ایڈوکیٹ ابوبکرسباق سبحانی و دیگر کونامزد کیا ہے اور وہ اس مقدمہ کی پیروی جمعیۃ لیگل ٹیم کے سر براہ ایڈوکیٹ پٹھان تہور خان کی نگرانی میں موثر انداز میں کر رہے ہیں ۔