فرقہ وارانہ تشدد کے زیر سایہ ہندوستان

انجم پروین
ملت ٹائمز
آج فرقہ واریت سے کون واقف نہیں،اس لفظ نے لوگوں کے دلوں میں دہشت پیدا کر دی ہے۔ان کے ذہن و قلب میں لفظ فرقہ وارانہ جارحیت یا فرقہ وارانہ فساد اژدہ کی مانندکنڈلی مار کر بیٹھ گیا ہے۔یہ چنگاری اگر ایک بار کہیں لگ جائے تو اسکی آگ بجھائے نہیں بجھتی۔فرقہ واریت ایک ایسی آئیڈیالوجی کہی جا سکتی ہے جو کسی بھی فرد،جماعت یا قوم کو اپنی تہذیبی و سماجی اور مذہبی رسم و رواج کے بقاء اور احترام میں بہت Conscious) (کانشیس بنا دیتی ہے۔اس کے تحفظ کے لئے وہ کسی بھی شخص،گروہ،قوم یا جماعت سے لڑنے مرنے پر اتارو ہو جاتا ہے،اور پھر اسکا یہ تصورآگے چل کر دشمنی، بغض وعداوت اور نفرت کی شکل اختیار کر لیتا ہے، نیز جب کسی بھی دو قوموں یا دو الگ الگ مذہب کے ماننے والوں کے خیالات،جذبات اور مذہبی عقائد ایک دوسرے سے متصادم ہوتے ہیں تو فرقہ وارانہ فسادات جنم لیتے ہیں اور قتل و غارت گری و خونریزی کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔
فرقہ واریت کی کوئی واضح صورت نہیں ہوتی اور نہ ہی بآسانی اسکی شناخت کی جا سکتی ہے،جبکہ یہ متعدد شکلوں میں رونما ہو سکتی ہے جیسے سیاسی،سماجی،تہذیبی و تمدنی،مذہبی ،تاریخی وغیرہ ،جو مختلف جہتوں سے ملک کی امن و آشتی کو بھنگ کرنے کا سبب بنتی ہیں۔فرقہ واریت ایک سیال مادہ کی طرح ایک سمت سے دوسری سمت رواں رہتی ہے اور بار بار فسادات اور قتل عام کو دعوت دیتی ہے۔آج یہ فرقہ واریت ملک میں اتنی مضبوط اور مستحکم ہو گئی ہے کہ اس نے ایک ہی مذہب کے پیروؤں،ایک ہی برادری،ذات اور خاندان کے لوگوں میں نفرت اور عداوت کا بیج بو دیا ہے،ایک چھوٹے قریہ سے لیکر ملکی و غیر ملکی سطح تک فرقہ واریت اپنے پاؤں پسارے بیٹھی ہے۔چاہے وہ فلسطین ہو یا انڈونیشیا،کوریا ،پاکستان ہو یا یروشلم ، گجرات و کشمیریا دہلی ہی کیوں نہ ہو،ہر طرف اسکا ہی شہرہ ہے۔
فرقہ واریت اور فسادات کی پشت پناہی کے پیچھے سیاست کا بہت بڑا ہاتھ ہے،اور ہندوستان میں یہ انگریزوں کی دین ہے۔جب انگریز ہندوستان میں داخل ہوئے تو یہاں حکومت حاصل کرنے کے لئے انھوں نے ایک گھناؤنی چال چلی نفاق قائم کرواور اقتدار حاصل کرو اور بہت ہی آسانی سے ہندوستان کی دونوں بڑی قومیں(ہندواور مسلمان) انکے اس پروپیگنڈہ کا شکار ہو گئیں۔رفتہ رفتہ انگریزوں کا بویا ہوا نفاق کا بیج فرقہ واریت کا ایک تناور درخت بن گیا،اس کے سبب ملک کی سا لمیت پاش پاش ہو گئی،اسکی شاخیں ہندوؤں اور مسلمانوں کو اپنی چپیٹ میں لیتی ہوئی انکے مختلف طبقوں اور خاندانوں تک پہنچ گئیں اور پھر ایک زوردار آندھی کے زیرِاثر اس کی پتیاں اڑکر ملک کے دوسرے مذاہب اور طبقوں مثلاََ ۔سکھوں ،عیسائیوں ،شیعوں ،بودھوں اور جینیوں تک جا پہنچی ۔ آج یہ حال ہو گیا ہے کہ فرقہ واریت کی چنگاری ملک کے کسی بھی گوشے سے ذرا سی ہوا دینے سے ہی بھڑک اٹھتی ہے اور فسادات و خونریزی کو جنم دیتی ہے۔ موجودہ دور میں اس کی شکلیں کچھ مختلف ہو گئی ہیں۔آج ہم اسے علاقائیت، مذہبی فرقوں اور زبانی تعصبات کے تناظر میں بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔
آج ہمارا ملک گوروں کی قائم کردہ اُس پالیسی پر اس طرح کاربند ہے جیسے یہ کوئی مذہبی رسم ہو۔ انگریزوں کے جانے کے بعد ہمارے سیا ستدانوں نے فرقہ واریت کی اس چنگاری کو کبھی راکھ تلے دبنے ہی نہیں دیابلکہ سیاست کا زہریلا پیٹرال ڈال ڈال کر اس چنگاری کو ایک بھڑکتا ہو اشعلہ بنا دیا،جس نے مہرو مروت،بھائی چارگی اور محبت و اخوت کے لہلہاتے سبز باغ کو جلانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ ملک کی اکثریت (ہندو)نے کچھ ایسے پروپیگنڈے اور شر پسند عناصر کو جنم دے دیا ہے جس نے اقلیتی طبقے (مسلمان )کو خوف و ہراس میں مبتلا کر رکھا ہے۔ہندو سماج کے نو مولود متعدد فرقوں آر۔ایس ۔ایس،بجرنگ دل ،وشو ہندو پریشد،سناتن سنستھا، اکھل بھارتیہ ہندو مہا سبھا، گؤ رکھشا سمیتی، ہندو سوراجیہ پرتشٹھان،ہندو سینا،ابھینو بھارت،ہندو جاگرتی منچ وغیرہ نے ملک کی مشترکہ تہذیبی فضا کو آلودہ کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی ہے اور دن بہ دن ان کی اس مصروفیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ہماری حکومت ہند اس کی پشت پناہی بخوبی کر رہی ہے ۔اس کے ثبوت کے طور پر انہوں نے واقعہ کو پیش کیا جا سکتا ہے جب ملک ہندی ،ہندو ،ہندوستان جیسے نعروں سے گونج اٹھا۔ اس طرح تو فرقہ وارانہ جارحیت بجائے ختم ہونے کیاور بڑھے گی ہی۔ان شر پسند اور احیاء پسند عناصر کے اندر اس وقت سے دیدہ دلیری پیدا ہونا شروع ہوئی جب سے ایک فرقے کو رام مندر میں پوجا پاٹ کرنے کا کھلا نِمنترن دے دیا گیا اور وہاں شیلا پوجن و شیلا نیاس کرایا گیا۔اجودھیا میں شیلا پوجن،رام مندر کی تعمیری سرگرمیاں اور پارلیمنٹ میں جے شری رام کے نعرے اس بات کا کھلا استشارہ ہے کہ ملک کو ہندو راشٹربنانے کا شڈینتر بڑی شد و مد کے ساتھ رچا جا رہا ہے۔یہاں تک کہ ایک دوسرے کے مذہب پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے،اقلیت و اکثریت دونوں ہی ایک دوسرے سے خوفزدہ اور متنفر ہیں،موجودہ دور میں فرقہ وارانہ جارحیت نے مذہبی تشدد اور جوابی وار سیاست کا روپ دھار لیا ہے۔
گزشتہ دنوں جوابی وار سیاست کا منظر نامہ بھی دیکھنے کو مل گیا جب مطعون کملیش یادو (لیڈر ہندو مہا سبھا)نے مسلمانوں کو جذباتی طور پر مشتعل کرنے کے لیے حضرت محمد مصطفی? کی شان مبارک میں بے ادبی اور گستاخی کی تھی۔جس کے باعث ملک کی پوری فضا شعلہ انگیز ہو گئی ۔اور تواور مسلم بادشاہوں و حکمرانوں اور مسلمانوں کے اسلاف کو متعصب اور شبہات کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے ،ہندوستان کی تاریخ اور حقائق میں ردّ و بدل کرکے اپنی منشا کے مطابق پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔مسلمانوں کے حوالے سے ہندوستانی عوام کو گمراہ کرنے کی ہر ممکن سازش رچی جا رہی ہے۔ان کو دہشت گرد تو ایک طویل مدت سے بتایا جا رہا ہے اور ثابت کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔یہاں تک کہ اردو زبان کو لیکر بھی متعصبانہ رویہ برتا جا رہا ہے اور اسے صرف ایک طبقے یعنی مسلمانوں کے ساتھ مخصوص کیا جا چکا ہے،کیا ہمارے لیڈران اور تشدد پسند فرقے یہ بھول گئے ہیں اردو زبان کسی مخصوص فرقے کی زبان نہ ہو کر ملک بھرمیں سب سے بڑے پیمانے پر بولی جانے والی دوسری زبان ہے۔مزید برآں کہ درختوں اور پھلوں تک کو مذاہب کے ساتھ وابستہ کیا جا چکا ہے۔ایک اردو اخبار کی خبر کے مطابق مہاراشٹر کی بی جے پی شیو سینا سرکار نے فروغِ شجر کاری کے واسطے Social Forestry کے موضوع پر ایک ایسا کتابچہ شائع کیا جس میں کھجور،زیتون اور انگور کو اسلام کے ساتھ،انار، انجیر اور انگور کو عیسائیت ، برگد،سال اور کھیرنی کوبودھ مذہب اور پیپل ،ریٹھااور بیر کو ہندو دھرم کے ساتھ مخصوص کر کے اپنی طفلانہ حرکت اور پاگل پنتھی ذہنیت کی سند پیش کی ہے۔جو فرقہ پسند عناصر ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے خیالی خواب دیکھ رہے ہیں اور منہ زور کھلے سانڈ کی طرح بنا سوچے سمجھے یہاں وہاں دندناتے پھر رہے ہیں اگر انھوں نے ہوش کے ناخن نہیں لیے تو منہ کی کھا سکتے ہیں،انھیں پلٹ وار سیاست کا جواب کافی مہنگا پڑ سکتا ہے۔وقت کبھی بھی تبدیل ہو سکتا ہے اور جب ظلم و تشدد حد سے بڑھتا ہے تو کوئی نہ کوئی مسیحا جبر و بربریت کے اس طوفان کو روکنے لیے ضرور پیدا ہوتا ہے۔روس کی تاریخ اور بادشاہ زار کی تباہی اس کی بیّن شاہد ہے۔
ان سبھی دلائل اور شواہد کے پیشِ نظر ہر ذی شعور اور دانا شخص بہ آسانی یہ سمجھ سکتا ہے کہ ملک تباہی کے کس دہانے پر کھڑا ہے؟ اس کی پشت پناہی کون کر رہا ہے کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آج گنگا جمنی تہذیب آلودہ ہو چکی ہے۔ محبت و بھائی چارگی ،مہر و وفا اور رواداری کی جگہ نفرت و عداوت ،بغض و کینہ اور متعصبانہ سوچ نے لے لی ہے۔ملک کی کس کس صورتحال پر روشنی ڈالی جائے یہاں تو ہر طرف فرقہ واریت کی تاریکی ہی تاریکی پاوں پسارے ہوئی ہے۔یہاں ہر مسئلے کا حل سیاسی مفاد کے تناظر میں پوشیدہ ہے۔ہندوستانی سیاست داں اتنے بے غیرت اور انسانیت سے عاری ہو چکے ہیں کہ سیدھی سادی عوام کے دلوں میں اپنا سکہ جمانے اور اقتدار حاصل کر نے کے لیے آئے دن فرقہ وارانہ فسادات کرائے جاتے ہیں اور انتہائی بے غیرتی کے ساتھ وہاں کا معائنہ کیا جاتا ہے اور ان کے زخموں کو کریدتے ہوئے ان سے جھوٹی ہمدردی اور کھوکھلے سیاسی وعدے کیے جاتے ہیں۔اور ہندی ،ہندو ،ہندوستان کے نعرے باز خود ہندو کی حقیقت سے نابلد ہیں۔ یہاں کا ہر فرد ہندو ہے کیونکہ وہ ہندوستان کا باسی ہے۔ہر ملک کے باسی کو اسی ملک کی جانب منسوب کرکے پیش کیا جاتا ہے جہاں وہ رہتا ہے۔اگر امریکہ سے ہے تو امریکی،جرمنی سے ہے تو جرمن ،چین سے ہے تو چینی۔اور اگر کشمیر سے ہے تو کشمیری یا گجرات سے ہے تو گجراتی کہلایا جاتا ہے۔اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ امریکی ،جرمنی،چینی،کشمیری یا گجراتی کاکوئی مذہب ہے۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے برسوں پہلے یوں ہی نہیں کہا تھا :
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ،ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
کہنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ آج وہ ملک جو Diversity کی علامت ہونے کے باوجود ایک اکائی کا نمونہ اور امن و آشتی کا گلستاں تھا ،فرقہ وارانہ سوچ اور تخریب کاری کی بدولت جہنم کی آگ کی مانند دہکنے لگا ہے۔اگر فوری طور پرفرقہ وارانہ جارحیت کے اس سیلاب کو روکنے کی جدو جہد نہ کی گئی تو بہت جلد یہ سیلاب سنامی کی شکل اختیار کر لے گا۔ہندو راشٹر کو جبراََ عوام پر تھوپنے سے صرف اقلیتوں کے لئے ہی جینا مشکل نہ ہوگا بلکہ ملک کی امن و آشتی،اس کی سا لمیت،مذہبی پاسداری،تعلیمی و زبانی اور خوردو نوش کی آزادی اور مشترکہ کلچر کو زبردست گزند پہنچنے کا شدید امکان ہے،اور اکثریت کے ان محبِ وطن،جانثار اور متعصبانہ فکر سے بے نیاز ہندو افراد کے لیے بھی اس قدم کو وبالِ جان بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ملک بڑے ہی نازک دوراہے پر کھڑا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستان کے ہر فرد کو متحد ہو کر اپنے وطن کو مزید تباہکاریوں سے بچانا ہوگا۔فرقہ پسند عناصر کی جڑیں ملک میں اتنی گہری ہو چکی ہیں کہ بہ آسانی ان کو اکھاڑ پھینکنا بہت مشکل ہے لیکن ۔۔۔ناممکن نہیں! کیونکہ پانی کی مستقل روانی ایک سخت جان پتھر میں سوراخ کر سکتی ہے اور پھول کی پتّی ہیرے کے جگر کے پار ہو سکتی ہے،تو پھر ہم اپنے محبوب وطن کی پر امن فضا اور سا لمیت کو برقرار کیوں نہیں رکھ سکتے؟بس یک جٹ ہونے کی ضرورت ہے اس لیے کہ :
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید ِ مُبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے
(مصنفہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ میں ریسرچ اسکالرہیں )