شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
بابری مسجد کا مقدمہ ہندوستان کی تاریخ کا طویل ترین مقدمہ ہے، جس نے انصاف کے لئے نہیں صرف فیصلہ کے لئے پون صدی کا وقت لے لیا، پہلا فیصلہ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے کیا، جس سے کسی فریق کو اطمینان نہیں ہوا، ریٹائرڈ ججس اور ماہرین قانون نے بھی اس پر حیرت کا اظہار کیا، آخر معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا، اور طویل بحث کے بعد ۹؍نومبر ۲۰۱۹ء کو صبح کے ساڑھے دس بجے فیصلہ سنا دیا گیا، یہ فیصلہ بھی کچھ کم باعث تعجب نہیں، اس میں دلائل تو مسلمان فریق کے مانے گئے اور ہندو فریق کے دلائل کہا جا سکتا ہے کہ مسترد کر دیے گئے؛ لیکن فیصلہ ہندو فریق کے حق میں ہوا، افسوس کہ اس فیصلہ کی وجہ سے ملک اور ملک سے باہر ہندوستان کے عدالتی نظام کا وقار مجروح ہوا، اور معزز عدالت سے بے حد ادب کے ساتھ عرض ہے کہ اس رویہ کی وجہ سے اعتماد کا آبگینہ چور چور ہو کر رہ گیا۔
یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ بابری مسجد ایسی مظلوم مسجد ہے، جسے چار بار شہید کیا گیا، پہلی بار یکم فروری ۱۹۸۶ء میں، جب فیض آباد سیشن کورٹ نے مسجد کا تالا کھولنے کا حکم دیا، دوسری بار ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء میں، جب بابری مسجد کا ڈھانچہ دوپہر کی روشنی میں ظلماََ منہدم کر دیا گیا، تیسری بار ۳۰؍ ستمبر ۲۰۱۰ء میں، جب الٰہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا اور فیصلہ کی بنیاد قانون کے بجائے آستھا کو بنایا گیا، چوتھی بار ۹؍ نومبر ۲۰۱۹ء کو سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ، یہ یقیناً ہمارے ملک کے انتظامی اور عدالتی نظام کے دامن پر ایک داغ ہے۔
حالیہ فیصلہ میں مسلمانوں کے جن دعویٰ کو ان کے دلائل کی روشنی میں قبول کیا گیا ہے، یہاں ان کا تذکرہ کرنا مناسب ہوگا:
۱۔ بابری مسجد کی جگہ کا غاصب مغل بادشاہ بابر کو قرار دیا جاتا ہے؛ لیکن کورٹ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس کو بابر نے نہیں؛ بلکہ بابر کے کمانڈر میر باقی نے ۱۵۲۸ء میں تعمیر کیا تھا۔
۲۔ عدالت نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ یہ مسجد کسی مندر کو منہدم کر کے نہیں بنائی بنائی گئی، اس سے اس جھوٹ کا پردہ فاش ہوجاتا ہے جس کو خوب پھیلایا گیا، مسلمانوں کے بارے میں نفرت پیدا کی گئی اور فرقہ پرستوں کی ایک جارح شدت پسند اور دہشت گرد فوج تیار کر دی گئی، ظاہری ناکامی کے پردہ میں یہ مسلمانوں کی بہت بڑی کامیابی ہے۔
۳۔ فیصلہ میں یہ بات تو کہی گئی ہے کہ آثار قدیمہ کی کھدائی میں مسجد کے نیچے کوئی ڈھانچہ پایا گیا اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ڈھانچہ مسلمانوں کی مقدس عمارت کا نظر نہیں آتا؛ لیکن ساتھ ساتھ یہ بات بھی تسلیم کی گئی کہ یہ کسی مندر کا ڈھانچہ بھی نہیں ہے، اس سے اس خیال کی تردید ہوتی ہے جو بعض دروغ گو میڈیا والے کہتے ہیں کہ آثار قدیمہ کی کھدائی میں نیچے مندر پایا گیا؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس کھدائی میں ایک لمبی دیوار پائی گئی ہے جو بظاہر عیدگاہ کی ہو سکتی ہے؛ کیوں کہ قدیم مندروں میں عام طور پر لمبا احاطہ نہیں ہوتا تھا۔
۴۔ اس بات کو بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ ۱۶؍دسمبر ۱۹۴۹ء کو بھی بابری مسجد میں عشاء کی نماز ادا کی گئی گویا صدیوں تک وہاں نماز ہوتی رہی ہے۔
۵۔ کچھ فرقہ پست ہندوؤں کا خیال ہے کہ ۲۲؍۲۳؍ دسمبر ۱۹۴۹ء کی درمیان شب میں شری رام جی خود ہی پرکٹ ہو گئے تھے، یعنی زمین میں سے اوپر نکل آئے تھے، عدالت نے تسلیم کیا ہے کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں، حقیقت یہ ہے کہ کچھ لوگوں نے غیر قانونی طور پر دیوار پھاند کر مسجد کے درمیانی گنبد کے نیچے رام چندر جی کی مورتی رکھ دی تھی اور ان کا یہ فعل خلافِ قانون تھا۔
۶۔ عدالت نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو بابری مسجد منہدم کرنے کا واقعہ غیر آئینی اور قابل مذمت تھا اور اس کے مجرموں کو سزا ملنی چاہئے۔
۷۔ عدالت نے اگرچہ بابری مسجد کی اصل جگہ کا فیصلہ ہندو فریق کے حق میں کیا؛ لیکن یہ بھی کہا کہ مسلمانوں کو اس کے عوض پانچ ایکڑ زمین دی جائے، اس جگہ کے عوض پانچ ایکڑ زمین دینے کا حکم اس بات کی دلیل ہے کہ کورٹ نے بابری مسجد کی جگہ پر سنی وقف بورڈ کی ملکیت کو تسلیم کیا ہے، اگر ملکیت تسلیم نہیں کی جاتی تو اس کے بدلہ میں زمین دینے کے کوئی معنیٰ نہیں، اور اسی لئے کورٹ نے نرموہی اکھاڑا کے دعوی ٔملکیت کو رد کر دیا۔
غور کیا جائے تو یہ تمام نکات مسلمان فریق کے نقطۂ نظر کے مطابق ہیں، انصاف کا تقاضہ یہی تھا کہ جب ان دعووں کو کورٹ نے تسلیم کر لیا ہے تو یہ جگہ مسلمانوں کو حوالہ کی جاتی؛ لیکن فیصلہ مندر کے حق میں کیا گیا، اور اس میں شری رام جی کو مقدمہ کا فریق مانا گیا، ہمارے ہندو بھائی شری رام جی کو خدا مانتے ہیں اور ان کی عبادت کرتے ہیں، خدا کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ انسانوں کی عدالت میں آکر انصاف کے لئے التجا کرے، اگر ہمارے ہندو بھائی گہرائی کے ساتھ غور کریں تو یہ تو شری رام جی کی اہانت ہے کہ خدا کو اتنا کمزور قرار دیا جا رہا ہے کہ وہ آپ اپنی ملکیت کی حفاظت نہ کر سکے اور اپنے بھکتوں اور عبادت گزاروں کا محتاج ہو جائے؛ اسی لئے میں نے عرض کیا کہ اس فیصلہ میں دلائل مسلم فریق کے تسلیم کئے گئے اور دعویٰ ہندو فریق کا، معزز عدالت کو غور کرنا چاہئے کہ کیا اس سے انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہیں، اللہ کا شکر ہے کہ ہمارے ملک میں ابھی انسانیت زندہ ہے اور برادران وطن کی بڑی تعداد منصف مزاج واقع ہوئی ہے؛ البتہ اپنی سادہ لوحی میں پروپیگنڈہ کا شکار ہو جاتی ہے؛ چنانچہ کئی سابق ججوں نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے وکلاء نے اور ملک کے مشہور قانون دانوں نے اس فیصلہ کو نامنصفانہ قرار دیا ہے اورکوئی شبہ نہیں کہ ملک کے باہر بھی ہندوستان کے وقار کو نقصان پہنچا ہے۔
ان غم انگیز لمحات میں مسلمانوں کے لئے ایک پہلو خوشی کا اور اللہ کا شکر ادا کرنے کابھی ہے کہ بابری مسجد کے مسئلہ میں اپنے ظلم کو جواز بخشنے کے لئے کئی کوششیں کی گئیں، لالچ بھی دی گئی اور خوف بھی دلایا گیا، آخر وقت تک بھی یہ کوشش جاری رہی، مشیر سلامتی امور اجیت ڈوبھال مختلف شخصیتوں اور تنظیمی سربراہوں کو مدعو کرتے رہے، مگر عام طور پر لوگوں نے اسے قبول نہیں کیا، راقم الحروف سے بھی بار بار خود انھوں نے اور ان کے سکریٹری نے فون کیا؛ لیکن ہمیشہ ان سے معذرت کی گئی، بورڈ کے سکریٹری صاحب کو بھی دعوت دی گئی اور انھوں نے علی الاعلان اس کو رد کر دیا، یہ ایک خوش آئند بات ہے، مسلمانوں کی کامیابی یہ نہیں ہے کہ دنیا میں ان کو سرخروئی حاصل ہو جائے، مسلمانوں کی اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ اللہ کے دربار میں سرخرو ہو جائیں، اور اس مسئلہ میں مسلمانوں نے جو قربانی دی ہے، اس سے پوری امید ہے کہ ان شاء اللہ ایسا ہی ہوگا۔
جہاں تک یہ بات ہے کہ اس فیصلہ پر مسلمانوں کا رد عمل کیا ہونا چاہئے تو فیصلہ کے دو جزء ہیں، ایک جزء ہے پانچ ایکڑ زمین دیا جانا، یہ تو ملت اسلامیہ کے لئے قطعاً ناقابل قبول ہے، یہ مسلمانوں کی دینی غیرت اور ایمانی حمیت کے خلاف ہے کہ وہ پانچ ایکڑ زمین لے کر مسجد حوالہ کر دیں، اور شرعی نقطۂ نظر سے بھی اس کا لینا جائز نہیں؛ کیوں کہ کورٹ یہ زمین بابری مسجد کے عوض کے طور پر دے رہی ہے، تو گویا اس زمین کو لینا مسجد کو پانچ ایکڑ کے عوض فروخت کرنا اور اس کی حیثیت میں تبدیلی کو قبول کرنا ہے، یہ درست نہیں ہے، فقہاء اسلام کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جو جگہ ایک بار مسجد ہو جاتی ہے وہ ہمیشہ کے لئے مسجد ہے، غیر مسلم ہوں یا مسلمان، وہ اس کی حیثیت کو نہیں بدل سکتے؛ اس لئے نہ شرعاََ زمین کے اس ٹکڑے کو لینا جائز ہے اور نہ اخلاقاً؛ اسی لئے مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیت علماء نے صاف اعلان کر دیا ہے کہ انہیں یہ زمین لینا قبول نہیں، دوسرے اداروں اور دینی شخصیتوں کو بھی اسی پر عمل کرنا چاہئے؛ ورنہ وہ عند اللہ جواب دہ ہوں گے، مسلمان تو اپنی مسجد کی واپسی کے لئے عدالت میں گئے تھے نہ کہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے۔
جہاں تک بابری مسجد کی اصل جگہ کا مسئلہ ہے تو مسلمانوں کی شرعی ذمہ داری ہے کہ وہ بحد امکان مسجد کو بچانے کی کوشش کریں، اس کوشش کا ایک مرحلہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ پر پورا ہوا، دوسرا مرحلہ ۹؍نومبر کو سپریم کورٹ کے فیصلہ پر تمام ہوا؛ لیکن ابھی ایک گنجائش باقی ہے کہ عدالت میں نظرثانی کی درخواست دی جائے؛ اگرچہ نظر ثانی میں کامیابی کا امکان بہت کم ہے اور ماضی میں دوچار ہی مواقع پر کورٹ نے اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کر کے مدعی کے دعووں کو تسلیم کیا ہے؛ لیکن چوں کہ قانون میں اس کی گنجائش موجود ہے اور کسی نہ کسی درجہ میں اس کے نتیجہ خیز ہونے کا بھی امکان ہے؛ اس لئے مسلمانوں کے عمومی جذبات اور ان کی رائے کو سامنے رکھتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیت علماء ہند نے فیصلہ کیا ہے کہ اس آخری گنجائش سے بھی استفادہ کیا جائے؛ تاکہ اللہ کے دربار میں کہا جا سکے کہ آپ کے گھر کو بچانے کی جو آخری کوشش ہو سکتی تھی، وہ ہم نے کر لی؛ اس لئے بارِ الٰہا! ہمیں مسجد کے محافظین میں شمار کر نہ کہ مسجد فروشوں میں؛ اس لئے موجودہ حالات میں ایک طرف ہمارا فریضہ ہے کہ اس آخری کوشش میں بورڈ کا تعاون کریں اور چوں کہ ہمارے دین نے ہر حال میں امن و امان کو قائم رکھنے کا حکم دیا ہے؛ اس لئے ہماری طرف سے کوئی ایسا رد عمل ظاہر نہیں ہوا، جو امن و امان کو متأثر کرنے والا ہو، ہندوستان کے مسلمان ہمیشہ اس پر کاربند رہے ہیں اور ان شاء اللہ آئندہ بھی اس پر قائم رہیں گے۔
زندہ قوموں کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ حادثات پر صرف رنج وغم کا اظہار کریں؛ بلکہ وہ حادثات سے سبق لیتی ہیں، اور پوری قوت سے ایک نئے مستقبل کا منصوبہ بناتی ہیں، اس حادثہ کا سبق یہ ہے کہ :
۰ مسجدوں سے ہمارا رشتہ مضبوط ہو، صورت حال یہ ہے کہ نماز فجر ادا کرنے والے مسلمانوں کی تعداد ایک فیصد سے بھی کم ہے، پنچ وقتہ نمازوں کی پابندی کرنے والے بمشکل ۲۰؍۲۵؍ فیصد ہوں گے ، شاید وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لئے صرف جمعہ کی نماز فرض کی گئی ہے، پندرہ بیس فیصد مسلمان وہ ہیں جو کاروبار، تعلیم اور مختلف بہانوں سے جمعہ کا بھی ناغہ کر دیتے ہیں، اور شاید عیدین کے سوا کبھی ان کی پیشانی خدا کی چوکھٹ پر نہیں جھک پاتی، اگر مسلمان خود مسجدوں سے اپنا تعلق توڑ لیں تو مسجد کی حفاظت کیسے ہوگی؟ جس مکان کی طرف سے مکینوں کی توجہ ہٹ جائے، وہ بہت جلد ویران اور کھنڈر ہو جاتا ہے، مسلمان خود مسجدوں کو آباد نہ کریں اور سرکار سے امید رکھیں کہ وہ مسجد کی حفاظت کرے گی، اس سے بھی بڑی کوئی ناسمجھی ہو سکتی ہے، اگر ہم خود مسجدوں کا حق ادا کریں گے تو اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے ہماری مسجدوں کی حفاظت فرمائیں گے۔
۰ دوسرے: ہمارے اندر دعاء اور استغفار کا اہتمام ہونا چاہئے، ہمارا ایمان ہے کہ زمین پر جو کچھ واقعات پیش آتے ہیں، اس کا فیصلہ زمین پر نہیں آسمان پر ہوتا ہے، افسوس کہ مسلمانوں کے اندراپنے خالق و مالک سے مانگنے کا جذبہ کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے، ظاہری اسباب پر ہماری نظر ہوتی ہے، سیاسی حالات کو ہم قابل توجہ سمجھتے ہیں؛ لیکن اس بات کی فرصت نہیں ملتی کہ کسی وقت تنہائی میں بیٹھ کر اللہ کے سامنے ہاتھ پھیلائیں، ندامت کے آنسو گرائیں، الحاح والتجاء کے ذریعہ اپنے خدا کو منائیں اور اسباب کے ساتھ ساتھ مسبب الاسباب تک پہنچنے کی فکر کریں۔
۰ تیسرا ضروری کام یہ ہے کہ مسلمان جن مسائل سے دو چار ہوتے ہیں، اپنے اندر ان کا شعور پیدا کریں، مسئلہ کے پس منظر، اس کی نوعیت اور حال اور مستقبل میں اس کے اثرات ونتائج، اس سلسلہ میں کئے جانے والے پروپیگنڈوں کی حقیقت اور واقعات کی سچائی کے بارے میں خود جانیں اور دوسروں کو بتائیں، خاص کر غیر مسلم بھائیوں کو حقیقی صورت حال سے آگاہ کریں، ان میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہیں جو جانتے بوجھتے جھوٹ کو سنتے ہیں اور پھیلاتے ہیں؛ لیکن ان کی بڑی تعدار ناواقفیت کی وجہ سے فرقہ پرستوں کی سازشوں کا شکار بنتی ہے، بہر حال ہمیں ایسے واقعات سے گھبرانا نہیں چاہئے، اللہ نے اس امت کو قیامت تک باقی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے، انجام کار اسے غلبہ دینے کا وعدہ فرمایا ہے اور ان شاء اللہ یہ ہو کر رہے گا کہ:
صبح ایک زندہ حقیقت ہے، یقیناً ہوگی!