عمر فاروق (قاسمی)
مولانا نور عالم خلیل امینی ایشیا کی عظیم اسلامک یونیورسٹی ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کے مایۂ ناز استاذِ ادب ہیں، زبان و ادب کے حوالے سے موجودہ دور میں ان کا شمار حلقۂ دیوبند کی نمائندہ شخصیات میں ہوتا ہے، سرزمین بہار کے مشہور و معروف ضلع مظفرپور کی بستی ہرپور بیشی سے ان کا تعلق ہے، آبائی سرزمین مردم خیز بستی رائے پور ضلع سیتامڑھی ہے۔ اپنی ٹھوس صلاحیت، عبارت پر گرفت، محنت و لگن اور حسن خط کی بنیاد پر طلبۂ دارالعلوم کے درمیان مقبول ترین استاد ہیں، لگ بھگ تیس پینتیس سالوں سے وہاں سے شائع ہونے والے عربی ماہنامہ ” الداعی “ کے چیف ایڈیٹر ہیں، عربی اور اردو دونوں پر یکساں قدرت حاصل ہے، دونوں زبانوں میں ان کے قلمی شاہکار کو دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کرنا بڑا مشکل ہے کہ آپ عربی زیادہ اچھی لکھتے ہیں یا اردو؟
ویسے تو اردو زبان میں ان کی دوسری تصنیفات بھی اپنے عمدہ اسلوب کی بنیاد پر اہل ادب کے درمیان اپنی پہچان رکھتی ہیں، تاہم ” وہ کوہ کن کی بات … “ اردو زبان و ادب کے حوالے سے ان کی سب سے پہلی شناخت بن کر سامنے آئی، 384 ( جو نسخہ میرے سامنے ہے ) صفحات پر مشتمل یہ کتاب زبان کے بانکپن، تعبیر کے اچھوتے پن اور طرز نگارش کی بے ساختگی کی وجہ سے ریکارڈ توڑ مقبولیت حاصل کرچکی ہے ۔ پہلا ایڈیشن 1995 میں چھپا تھا اور اب تک کتنے ایڈیشن منظر عام پر آچکے ہیں، اسی کتاب کے ذریعے دنیائے ادب کو پتہ چلا کہ موصوف اردو زبان و ادب کے بھی بادشاہ ہیں ۔ یہ کتاب ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کی تاریخ ساز اور انسانیت ساز شخصیت، عربی و اردو کے جادو بیان مقرر، بےدار مغز، مدبر و منتظم، مولانا امینی کی زبان میں عربی زبان و ادب کے جمال آفریں، ذوق ساز، سلیقہ شعار اور ” با برکت مستری “ دارالعلوم دیوبند کے سابق استاد، ناظمِ تعلیمات اور معاون مہتمم مولانا وحید الزمان کیرانویؒ کے حالات، ان کے اچھوتے طریقۂ تعلیم اور طالبانِ علوم نبوت پر ان کے دیر پا اثرات، مختلف میدان ہائے حیات میں ان کے زندہ و جاوید کارناموں پر مشتمل مولانا امینی کے احساسات و تأثرات کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب مولانا کیرانویؒ کی مکمل سوانح حیات نہیں ہے اور یہی اس کتاب کا نقص بھی ہے، لیکن دلچسپ انداز بیان، اچھوتے پیرایۂ اظہار، تسلسل، توازن، خوبصورت تعبیرات، عمدہ ترکیب و ساخت ، نکتہ آفرینی اور ادبی لطائف کی بنیاد پر مولانا امینی کے ادبی شعور کی غماز ہے۔ کتاب کا مقدمہ بھی انتہائی دلچسپ اور رواں دواں ہے، کتاب کے نام ہی سے ادبی شعور کا پتہ چلتا ہے۔ مولانا کیرانویؒ در حقیقت اس کتاب میں چلتے پھرتے اور علمی و ادبی دنیا میں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں، بلاشبہ یہ کتاب مولانا کیرانویؒ کی مکمل سوانح تو نہیں کہی جا سکتی ہے اور نہ ہی مصنف کو اس کا دعویٰ ہے، البتہ ارد کے دلچسپ اور اہم خاکوں میں اس کا شمار ضرور ہونا چاہیے، کیونکہ وہ اردو کے دوسرے خاکوں سے کسی بھی اعتبار سے کم نہیں ہے۔ خاکہ کی جو تعریف عموماً کی گئی ہے، یہ کتاب اس کی مصداق ہے۔ پپرایۂ بیان شستہ اور شگفتہ ہے، زبان ٹکسالی ہے اور لب و لہجہ میں بے ساختگی ہے، چنانچہ جب یہ کتاب پہلی مرتبہ منظر عام پر آئی تو ہندوستان اور بیرون ہند کے اخبارات و رسائل کے ساتھ ساتھ اساطینِ ادب اور اقلیمِ سخن کے بادشاہوں نے بھی آپ کی انشاء پردازی کا کئی کئی صفحات میں اعتراف کیا، چنانچہ برصغیر کی عظیم عصری درسگاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر جناب سید حامد کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو :
ُ ” فاضل مصنف دارالعلوم دیوبند میں عربی ادب پڑھاتے ہیں، لیکن ان کا پیرایۂ بیان فارسی ادب کے اثرات کی غمازی کرتا ہے، دعا ہے کہ زور قلم میں اضافہ ہو ……. محسوس ہوتا ہے کہ فاضل مصنف نے اپنے اسلوبِ نگارش کو مولانا ابوالکلام آزادؒ کے طرز پر ڈھالا ہے، فارسی اور اردو ادب سے ان کا شغف ہر سطر سے جھلکتا ہے۔ “ (وہ کوہ کن کی بات ص 361 )
قاضی اطہر مبارک پوری لکھتے ہیں :
” کتاب اس قدر دلچسپ اور مؤثر انداز میں لکھی گئی ہے کہ ملتے ہی ہاتھ میں لیا تو ختم کرکے ہی رکھا، اس میں نہ انشائیہ ہے نہ سوانحی خاکہ اور نہ سوانح عمری، بلکہ اس میں مختصر ہونے کے باوجود سب کچھ ہے “ (حوالہ سابق 360 )
معروف نقاد پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے لکھا ہے :
” آپ کی کتاب نے مجھے متاثر ہی نہیں مرعوب بھی کیا ہے۔ “ (حوالہ سابق ص 369 )
اردو عربی کے شہرت یافتہ ادیب ڈاکٹر شمس تبریز پروفیسر لکھنؤ یونیورسٹی اپنے تاثراتی مضمون میں لکھتے ہیں :
” کتاب اپنے ظاہری و معنوی خوبیوں کے لحاظ سے ” عروسِ جمیل در لباس حریر کی مصداق ہے “ …. میں مدیر الداعی کی عربیت کا تو قائل تھا ہی، ماشاءاللہ اردو بھی بہت رواں دواں اور شستہ و شگفتہ ہے ۔ “ (حوالہ سابق ص 362-363)
ڈاکٹر محمد ظہور الحق پروفیسر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اپنے تاثرات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں :
” موضوع کے ساتھ نام ہی اس کا کچھ ایسامنفرد ہے جو پڑھنے کا شوق پیدا کردے ۔ “ (حوالہ سابق ص 371 )
معروف مؤرخ مولانا اسیر ادروی ایڈیٹر ترجمان الاسلام بنارس نے کتاب پر اپنے تاثرات کا اظہار اس طرح کیا ہے :
ُ” مولانا مرحوم (وحید الزماں کیرانوی) کے انداز تعلیم و تربیت کی اچھی عکاسی کی گئی ہے، ان کے طریقۂ تدریس، جس نے بہت جلد طلبہ میں ذہنی و فکری انقلاب برپا کر دیا، اس کی بہترین منظر کشی کی گئی ہے، کہ سارا منظر نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے جو خوبصورت بھی ہے اور دلکش بھی، کہیں کہیں بالکل شاعرانہ انداز ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے ادبی ذوق رکھنے والوں کے لیے کتاب میں دلکشی بڑھ گئی ہے۔ “ (حوالہ سابق 368 )
رکن پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل قاسمی لکھتے ہیں: ” مولانا موصوف کا اسلوبِ نگارش نہایت دل چسپ، پیرایۂ بیان شستہ و شگفتہ اور جملوں کی نشست و برخاست، تذکرہ نگاری کی دنیا اور ہمارے عربی مدارس کے ماحول میں ٹکسالی اردو زبان و ادب کا اچھا نمونہ ہے۔ “
(حوالہ سابق ص 362)
اردو کے صاحب طرز ادیب مولانا رضوان القاسمی انداز نگارش کے حوالے سے لکھتے ہیں :
” آپ نے اپنی کتاب میں اپنے پُرتاثیر قلم کا جادو کچھ اس طرح جگایا کہ کتاب کے اوراق میں مولانا (وحیدالزماں کیرانوی ) ہمیشہ چلتے پھرتے نظر آئیں گے، ان کو دیکھنے والے اور نہ دیکھنے والے دونوں یکساں طور پر ان کی اس نقل و حرکت اور آمد و رفت سے لطف اندوز اور مستفید ہوتے رہیں گے “ (حوالہ سابق ص 365)
احوال و آثار کے ایڈیٹر مولانا نورالحسن راشد کاندھلوی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے :
” معلومات، مشاہدات، تاثر و محبت اور خراج تحسین کا ایک ایسا ملا جلا مجموعہ ہے، جس میں سوانح و تذکرہ کا لطف بھی ہے، محبت کی چاشنی بھی ہے، عقیدت کی تراوش بھی ہے اور ادب و انشا کی حلاوت بھی “ (حوالہ سابق 370 )
مشہور مجاہد آزادی اردو زبان کے مشہور شہسوار مفتی دارالعلوم دیوبند مولانا ظفیر الدین مفتاحیؒ نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کیا ہی خوبصورت لکھا ہے :
” آپ کی کتاب کا لب و لہجہ اور بے ساختگی دیکھ کر جی چاہتا ہے کہ میرا کوئی ایسا شاگرد ہوتا تو مرجانے میں فائدہ تھا …… اللہ آپ کی خدمت کو قبول فرمائے اور اس کے ثمرے میں کوئی ایسا ہی شاگرد آپ کو بھی عطا فرمائے “ (حوالہ سابق 363 )
دارالعلوم ندہ العلماء لکھنو کے استاد اور اردو زبان کے درجنوں کتاب کے مؤلف و مصنف مولانا برہان الدین سنبھلی اپنے تاثراتی مضمون میں الفاظ کے حسنِ انتخاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” بیان مطلب کے لیے آپ کے سامنے الفاظ کے ذخیرے اور تمثیلات و کنایات کے دفاتر لگتا ہے کہ ہاتھ باندھے کھڑے تھے … جب تک اس کنارے سے دوسرے کنارے تک سیر نہ کرلی، بے تابی ختم نہیں ہوئی …. اس سے دیوبندیوں کی پاکیزگیِ ذوق کا بھی ثبوت ملتا ہے (جنہیں بہت سے لوگ اس کوچہ سے نا آشنا سمجھتے ہیں ) آپ کے قلمی شاہکار کو دیکھنے والے کے لیے یہ فیصلہ کرنا یقیناً مشکل ہوگا کہ آپ عربی زیادہ اچھی لکھتے ہیں یا اردو “ (حوالہ سابق 364 )
معروف صحافی ایم ودود ساجد نے لکھا کہ :
” یہ تالیف جتنی خوبصورت و دیدۂ زیب باہر سے ہے، اس سے کہیں زیادہ خوب صورت اندر سے ہے۔ “ (نئی دنیا دہلی 26 ستمبر تا 2 اکتوبر 19 95ء)
مجلہ الحق اکوڑہ خٹک پاکستان نے اپنے تبصراتی صفحہ پر لکھا ہے :
” کتاب کے نام سے کتاب کی اہمیت اور اچھوتے پن کا پتہ چلتا ہے …… آپ کا طرز نگارش انتہائی خوبصورت ہے، اشعار کا برمحل و برموقع استعمال، نکتہ آفرینی و ادبی نکات کی چاشنی نے کتاب کی ثقاہت میں چار چاند لگادیا ہے “ (شمارہ 4-5 جلد ۲۳ شوال ۱۴۱۳ ہجری)
معروف کالم نگار شمیم طارق نے لکھا کہ:
” اس کو پڑھنے سے ایک اور خوبی کا اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت مولانا نے مولانا نور عالم خلیل امینی جیسے شاگرد بھی چھوڑے ہیں “ (ہفت روزہ بلیٹنز 30 ستمبر 19 95ء)
اخبار مشرق کلکتہ کا یہ تبصرہ بھی ملاحظہ ہو :
ُ” وہ کوہ کن کی بات “ لکھ کر اردو زبان و ادب کے بھی چھپے رستم ثابت ہوئے ، کتاب اتنی شگفتہ اور پیاری اردو میں ہے جسے بار بار پڑھنے کا جی چاہتا ہے ……. مولانا امینی نے ’ وہ کوہ کن کی بات ‘ میں ایسا دل چسپ شگفتہ اور پیارا انداز بیان اختیار کیا کہ قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور کتاب کے مطالعے کے درمیان وہ دنیا و ما فيها سے بے خبر ہوجاتا ہے “ (اخبار مشرق ۱۶ ستمبر ۱۹۹۴ احسن مفتاحی)
ماہنامہ طلسماتی دنیا نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ : ” زبان میں حالی کی سادگی، نذیر کی برجستگی، اور علامہ شبلی کی ایجاز بیانی کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں، جو ان کے اعلی درجے کے ادبی شعور اور مختصر انداز میں بات کہنے کی ہنر کی غماز ہے “ (ماہنامہ طلسماتی دنیا نومبر، دسمبر 1995ء)
ہفت روزہ نقیب نے تحریر کیا ہے :
” یہ اشک ہائے غم ہیں جو ان کی آنکھوں سے ٹپکے ہیں اور آنسوؤں کے وہ قطرے ہیں جن کو انہوں نے اپنے دامن میں سمیٹنے کی بجائے صفحۂ قرطاس پر بکھیر دیا ہے “ (نقیب شمارہ 31 جلد 9)
ہفت روزہ راشٹریہ سہارا نے اپنے تبصراتی مضمون میں اس خیال کا اظہار کیا ہے :
” کتاب کی زبان و بیان میں ادب کی چاشنی اور فکر و احساس کی روشنی جا بجا بکھری ہوئی ہے “
(ہفت روزہ راشٹریہ سہارا نئ دہلی 11 تا 17 ستمبر 1995 ء)
یہ اخبارات کے تبصرے اور اہل قلم کے تاثرات اور تجزیے کے منتخب چند جملے ہیں ان کے پورے تبصرے، تجزیے اور تاثرات کے پیش کرنے کا یہ مقام نہیں، البتہ ان چند جملوں سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مولانا امینی کی اس کتاب کے اسلوب نے اربابِ تصنیف و تالیف، اخبارات کے صحافیوں اور اہالیان ادب کو کتنا متاثر کیا ہے، اگر براہ راست اس کتاب کی تاثیر کو محسوس کرنا چاہتے ہیں تو اس کتاب کا مطالعہ کیجئے، یہ تمام تبصرے واقعہ کے مطابق نظر آئیں گے۔
⭐ ریسرچ اسکالر (یو جی سی نیٹ) شعبہ اردو للت نارائن متھلا یونیورسٹی دربھنگہ، 9525755126