جے این یو میں فساد جیسے حالات کے لیے کون ذمہ دار ہے؟

ابھے کمار

جس طرح ملک کے اقلیتوں کے رہائشی علاقے فسادات کی زد میں رہے ہیں، ویسے ہی اتوار کی شام جے این یو بھی تھا۔ جس طرح ملک کے اقلیتوں کو “سبق” سیکھنے کے لیے انتظامیہ، پولیس اور بلوائی ایک ساتھ مل کر حملے کرتے رہے ہیں، ویسے ہی جے این یو انتظامیہ، پولیس اور بھگوا شدّت پسند پر مشتمل ٹیم ایسا ہی کچھ کرتی نظر آئی۔

سورج ڈھلنے کے آس پاس تشدد کا یہ رقص شروع ہوا۔ شر پسندوں نے کئی گھنٹوں تک طلبہ اور بعض پروفیسروں کو بڑی بے رحمی سے مارا پیٹا۔ حالات اس قدر دل کو دہلا دینے والے تھے کہ خود جے این یو طلبہ یونین کی صدر آئشی گھوش بری طرح زخمی ہو گئی۔ اُن کے سر اور ہاتھ پر شدید چوٹیں لگی ہیں اور کافی خون بھی بہا ہے۔ اُن کو سابرمتی ڈھابے کے پاس لوہے کے راڑ سے مارا گیا۔ بعد میں اُنہوں نے خود ہسپتال سے پریس کو بتایا کہ اُن کے سر پر 15 – 16 اسٹیج لگے ہیں۔

کیمپس میں موجود طلبہ کو اس وقت سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنی جان کیسے بچائیں۔ موصول ہوئی اطلاع کے مطابق، پہلے اسٹریٹ لائیٹ بجھا دی گئی۔ پھر مین گیٹ بند کر دیا گیا جہاں پولیس بڑی تعداد میں تعینات تھی۔ پولیس کسی کو اندر نہیں جانے دے رہی تھی، وہیں اندر ٹیکس پیئر کے پیسے سے کروڑوں روپے تنخواہ پانے والی جے این یو کی خود کی سیکیورٹی تماشائی بنی ہوئی تھی۔

جہاں عام لوگوں کے لیے کیمپس کے دروازے بند کر دیے گئے تھے، بھگوا شر پسندوں کے لیے ایسی کوئی پابندی نہیں تھی۔ ان میں سے بہت ساروں کا تعلق بی جے پی کی طلبہ تنظیم اے وی بی پی سے بتایا جا رہا ہے، جو جے این یو انتظامیہ کی مدد سے اندر داخل ہو گئے۔ نقاب پوش شر پسند ہاسٹلوں میں گھس کر طلبہ کو راڈ اور ڈنڈے سے مار رہے تھے۔ اُنہوں نے پتھر بازی بھی کی اور ہاسٹل کو بری طرح سے نقصان پہنچایا۔

 

دہشت کا ایسا ماحول تھا کہ کچھ طلبہ اور طالبات نے تو اپنے کمروں کو اندر سے بند کر لیا تھا، تو کچھ افرا تفری کے عالم میں اپنی بالکونی سے باہر کود گئے۔ کچھ تو اپنی جان بچانے کے لیے جھاڑیوں میں چھپے رہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شر پسند طلبہ کو پیٹ پیٹ کر “بھارت ماتا کی جے” کا نعرہ زبردستی لگوا رہے تھے۔

جس حالات میں جے این یو آج پہنچ گیا ہے ویسا پہلے کبھی نہیں تھا۔ اپنے نو سال کے قیام کے دوران میں نے کبھی ایسی حالات نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی سینئر نے کبھی اس طرح کے ماحول پیدا ہونے کی بات کی تھی۔ آج جو کچھ ہوا ہے وہ جے این کی روایت کے بلکل اُلٹا ہے۔

جے این یو مکالمہ، بحث اور تکرار کے لیے جانا جاتا ہے۔ سیاسی باتیں تو یہاں کبھی ختم ہی نہیں ہوتی۔ “یار اب تو پولیٹکس چھوڑ دو “۔ حال میں ہی یہ نصیحت میرے ایک دوست نے پھر مجھے دی۔ اُن کی نصیحت بیجا نہیں تھی۔ جب وہ سابرمتی ڈھابے کے قریب الاؤ کے پاس بیٹھ کر نئے سال کی پارٹی منائے کے بارے میں منصوبہ بنا رہے تھے ، تب بھی میں وہاں این آر سی پر تقریر کر رہا تھا۔

یہ بھی صحیح ہے کہ یہاں کی پر امن ڈیبیٹ اور ڈسکشن کبھی کبھی تنازعے کی بھی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ مگر کبھی کیمپس کسی کے لیے غیر محفوظ نہیں بنا تھا۔ آدھی رات کو بھی طالبات لائبریری سے بڑے اطمینان سے لوٹتی تھی اور پھر گنگا ڈھابا چائے پینے جاتی تھی۔ مجموعی طور پر، لیفٹ اور رائٹ کے جہد کاروں کے آپسی نظریاتی اختلاف کے بعد بھی جے این یو سب کے لیے محٖفوظ رہا ہے۔ مگر اتوار کی شام سے صورتِ حال بدل چکی ہے اور یہاں طلبہ کو دنگا، لا قانونیت اور تشدد کا خوفناک چہرہ دیکھنے کو ملا۔

مگر سوال اٹھتا ہے کہ ان سب کے لیے کون ذمہ دار ہے؟ ابھی بھی یہ پورے یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اس حملے کو کس نے انجام دیا۔ مگر اس میں بھگوا شر پسند، جے این یو انتظامیہ اور پولیس کی ملی بھگت معلوم پڑتی ہے۔

پولیس کی ناکامی کو دیکھ کر اس بات کا خدشہ ہے کہ کیا وہ پورے معاملے کی جانچ جانبدارانہ طریقے سے کر پائے گی؟ لہٰذا اس کی ایک جوڈیشل جانچ ہونی چاہیے، تاکہ حقیقت سامنے آ پائے۔

مگر بہت سارے ایسے ثبوت، جن میں حملہ آوروں کی تصویر اور اُن کے میسج شامل ہیں، اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان سب کے پیچھے اے وی بی پی کا ہاتھ ہے اور اس پلان میں جے این یو انتظامیہ اور پولیس بھی شامل ہے۔

ایسا اس لیے معلوم پڑتا ہے کہ اتوار کی شام جو ہوا اس کا ٹریلر جے این یو کے طلبہ گزشتہ تین چار دنوں سے دیکھ رہے تھے۔ ہاتھ میں ڈنڈے لیے اے وی بی پی کے ممبروں نے مظاہرین کو کئی بار مارا تھا۔ ان سب کے بیچ یونیورسٹی کی سیکیورٹی تماشائی بنی ہوئی تھی۔

یونیورسٹی میں فیس میں بے تحاشا اضافے کے خلاف گزشتہ دو مہینوں سے چل رہی تالا بندی کو اے وی بی پی کے ممبران انتظامیہ کے اشارے پر ختم کروانا چاہتے تھے۔ جب طلبہ نے اُن کی بات نہ مانی تو اے وی بی پی نے مظاہرین کو مارنا شروع کیا۔ بے حد افسوسناک بات یہ ہے کہ ایک سیکیورٹی گارڈ نے جے این یو طلبہ یونین کے صدر گھوش کے ساتھ بدسلوکی بھی کی ۔ مگر اس سب سے زیادہ افسوناک بات یہ ہے کہ جے این یو کے بعض آر ایس ایس کے حامی پروفیسروں نے اے وی بی پی کے ساتھ مل کر مظاہرین کو مارا پیٹا۔

آج جو بھی صورت حال بنی ہے اس کے لیے اگر سب سے بڑا ذمہ دار کوئی ہو سکتا ہے تو وہ یقیناً وائس چانسلر جگدیش کنار ہیں۔ اُن کے آنے کے بعد جے این یو میں صرف اور صرف طلبہ کے لیے مشکلیں ہی کھڑی کی گئی ہیں۔ پہلے ” دیش دروہی ” کا پروپگنڈہ پھیلا کر اُنہوں نے اپنے ہی طلبہ اور تعلیمی ادارے کو بدنام کروایا۔ پھر سیٹ کٹ کر کے ہزاروں طلبہ کو پڑھنے سے روکا. نجیب کے معاملوں میں بھی اُنہوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی جس سے حملہ آوروں کے حوصلے بڑھے، وہیں اقلیتوں کے دلوں میں مایوسی اور بے چینی گھرکرگئی۔ اور اب فیس میں بے تحاشہ اضافہ کا منصوبہ لا کر وہ غریب اور محکوم بچوں کو یونیورسٹی سے باہر کرنا چاہتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ طلبہ فیس کے خلاف سب کچھ قربان کر کے لمبی ہڑتال لڑ رہے ہیں۔ اُنہوں نے نہ صرف پچھلے سیمسٹر کے امتحان کا بائکاٹ کیا بلکہ وہ نئے سیشن میں رجسٹریشن بھی نہیں کرا رہے ہیں۔ یہ سب وائس چانسلر کی کرسی کے لیے خطرہ بن رہا تھا۔

یہی وجہ تھی کہ وہ احتجاج کو کسی طرح ختم کروانا چاہتے تھے۔ اسے ڈائلاگ سے بھی ختم کیا جا سکتا تھا، جس کے لیے طلباء یونین ان سے روز اپیل کر رہی تھی۔ مگر طلبہ سے ڈائلاگ کر نا اُنہوں نے شاید اپنے وقار سے نیچا سمجھا اور ایک ایسا راستہ اختیار کیا جس کا خوفناک منظر ہر طرف رونما ہے۔

(مضمون نگار جے این یو کے ریسرچ اسکالر ہیں۔)