بی جے پی کی ہار نہیں چلا نفرت کا وار 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی 
یہ صحیح ہے کہ سیاسی جماعت کا مستقبل ہار جیت سے طے ہوتا ہے ۔ اس لئے تمام پارٹیاں الیکشن جیتنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہیں ۔ جیت سے پارٹی کو زندگی ضرور ملتی ہے لیکن ہار سے اس کا مستقبل ختم نہیں ہوتا ۔ بلکہ پارٹی کو موقع ملتا ہے اپنا محاسبہ کرکے آگے بڑھنے کا ۔ اس تناظر ميں دہلی الیکشن کو دیکھیں تو بی جے پی کو نفرت کی بنیاد پر پولرائزیشن کا ایجنڈہ بھاری پڑا ہے ۔ دہلی کے عوام نے نفرت اور ڈیولپمنٹ میں کام کو چنا ۔ جبکہ بی جے پی نے مرکزی وزراء، ممبران پارلیمنٹ کے علاوہ آٹھ وزیر اعلیٰ اور سابق وزیر اعلیٰ کو انتخابی تشہیر میں اتارا تھا ۔ اتنا ہی نہیں نتیش کمار، رام ولاس پاسوان اور شرومنی اکالی دل کے لیڈران نے بھی بی جے پی کے لئے ووٹ مانگے تھے ۔ خود وزیر داخلہ امت شاہ نے گھر گھر جا کر پرچے بانٹے اور وزیراعظم نریندر مودی نے ریلیاں کر بی جے پی کو جتانے کی کوشش کی ۔ کچی کالونیوں اور جگی بستیوں میں بی جے پی کے لیڈران کے ذریعہ پیسے بانٹنے کی خبر آئی ۔ کئی مقامات پر ای وی ایم مشینوں سے چھیڑ چھاڑ کی کوشش بھی ہوئی ۔ انتخابی کمیشن نے ووٹنگ کے اعداد جاری کرنے میں 16 گھنٹہ کا وقت لیا ۔ اس کے باوجود کیجریوال کے “کام بولتا ہے” کے مقابلہ مودی شاہ کی شگوفے ۔ جملے بازی نہیں ٹک سکی ۔
بی جے پی تینوں نگر نگموں، نئی دہلی نگر پالیکا، ڈی ڈی اے، دہلی پولس اور سات ممبران پارلیمنٹ کے کاموں اور کارناموں کو تقابلی انداز میں عوام کے سامنے رکھ کر کجریوال کو گھیر سکتی تھی ۔ بی جے پی نے دہلی کو مثالی شہر بنانے کا وژن سامنے رکھنے کے بجائے بریانی، کرنٹ اور رام مندر کے بہانے ہندو مسلم کے بیچ نفرت کی کھائی کو چوڑا کر ووٹ پولرائز کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ اس کے لئے شاہین باغ جہاں سی اے اے، این آر سی کے خلاف احتجاج چل رہا ہے کو نشانہ بنایا گیا ۔ پرامن، اہنسک مظاہرہ کر رہے لوگوں کی بات سننے، ان کے شک و شبہات کو دور کرنے، ان کے مسائل کو حل کرنے اور یقین دلانے کے بجائے بی جے پی نے طاقت کے دم پر دبانے “ملک مخالف” غدار ثابت کر ان کے خلاف چناؤ لڑنے کی حکمت عملی اپنائی ۔ چھوٹ پھیلایا گیا کہ وہاں پاکستان کے نعرے لگ رہے ہیں، ملک کو توڑنے کی سازش ہورہی ہے، وہاں مانو بم تیار ہو رہے ہیں، شاہین باغ سے دہلی والوں کو ڈرانے اور مغل راج آنے کی بات کی گئی ۔ جبکہ شاہین باغ میں مظاہرین بھارت کا آئین، گاندھی، امبیڈکر، بھگت سنگھ کی تصویریں ہاتھ میں لے کر احتجاج کر رہے تھے اور ہیں ۔ مظاہرین قومی ترانہ، وندے ماترم گا رہے ہیں ۔ بائبل، گروگرنتھ صاحب، قرآن کا پاٹھ اور ہون کر شاہین باغ نے ملک کے اتحاد اور سالمیت کی مثال پیش کی ۔
اس کے برعکس بی جے پی نے چناوی سبھا میں اختلاف کرنے والے غیر متفق لوگوں کو گولی مارنے تک کے نعرے لگوائے گئے ۔ اس کے نتیجہ میں ایک لڑکا جامعہ ملیہ اور دوسرا شاہین گولی مارنے پہنچ گیا ۔ایک نے اپنے کو وی ایچ پی سے منسلک بتایا تو دوسرے کو بی جے پی نے عام آدمی پارٹی سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ۔ بھاجپا لیڈران نے لوگوں کو اکٹھا کرکے شاہین باغ اور جامعہ میں ہندو مسلمانوں میں ٹکراؤ کی صورت بھی پیدا کرنے کی ۔ حد اس وقت ہو گئی جب دہلی کے چنے ہوئے وزیر اعلیٰ کو دہشت گرد اور دہلی کے عوام سے الیکشن میں بھارت یا پاکستان کو چننے کے لئے کہا گیا ۔ یہ کوشش پولنگ کے دن تک جاری رہی ۔ ووٹنگ سے ٹھیک پہلے حکومت نے رام مندر ٹرسٹ بنانے کا اعلان کر دیا اور انتخاب کے دن منیش سشودیا کے اسٹاف کو دو لاکھ روپے کی رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ۔ اس کو منیش سشودیا سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ۔ دہلی کے عوام نے صرف بی جے پی کے ان تمام اقدامات کو مسترد کردیا بلکہ ان کا بھاجپا پر سے بھروسہ اٹھ گیا ۔ عوام نے بی جے پی کے مقابلہ عام آدمی پارٹی میں زیادہ یقین ظاہر کیا ۔ موجودہ انتخابی نتائج اسی کی عکاسی کرتے ہیں ۔

انتخابی نتائج یہ بھی بتا رہے ہیں کہ بی جے پی حکومت کا عوام کے سروکار مہنگائی، بےروزگاری، عورتوں کی بے عزتی، ظلم و زیادتی، بدعنوانی، لڑکھڑاتی معیشت پر دھیان دینے کے بجائے ہندوتوا، ہندو مسلمان، بھارت پاکستان کے جذباتی مدوں کو اچھالنا، فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی سیاست اور جملے بازی لوگوں کو پسند نہیں آئی ۔ دہلی میں بڑی آبادی یوپی، بہار، بنگال، ہریانہ اور راجستھان کی ہے ۔ جو روزی روٹی کی تلاش میں یا کاروباری ضروریات سے یہاں آکر آباد ہوئی ہے ۔ کچھ نوکری کی وجہ سے یہاں آباد ہوئے ہیں ۔ سب کو بچوں کے لئے تعلیم، صحت اور بہتر زندگی درکار ہے ۔

 بی جے پی یہ یقین نہیں دلا پائی کہ وہ دہلی والوں کو عام آدمی پارٹی سے بہتر سہولیات فراہم کر سکتی ہے ۔ اس کے پاس بجٹ پیش کرتے وقت دہلی والوں کے لئے کچھ کرنے کا موقع تھا جسے اس نے گنوا دیا ۔ الٹے تعلیم میں ایف ڈی آئی اور سرکاری اسپتالوں میں پرائیویٹ سیکٹر کے اسپتال کھولنے اور پرائیویٹ ریل گاڑیوں میں اضافہ کے منصوبہ نے عام آدمی کو بتا دیا کہ اگر اس نے بی جے پی کو کامیاب کیا تو رسوئی کے ساتھ تعلیم اور صحت کا بھار اس کی جیب پر پڑے گا ۔ پھر دہلی کے لئے بجٹ میں بھی کچھ خاص نہیں کیا گیا ۔ انکم ٹیکس میں نئی شرح متعارف کرائیں لیکن موجود سہولیات کو ختم کر دیا گیا ۔ دہلی کے عوام پڑھے لکھے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ان کی بھلائی کس میں ہے ۔ 70 میں سے 62 سیٹیں عآپ کو دے کر ایک بار پھر انہوں نے سمجھداری کا ثبوت دیا ہے ۔

اس چناؤ ميں یہ بات بھی ابھر کر سامنے آئی ہے کہ بی جے پی کے ایجنڈے کو دیہی، نیم شہری علاقوں نے پوری طرح خارج کیا ہے ۔ اسے جو آٹھ سیٹیں ملی ہیں ان میں زیادہ تر شہری علاقے کی ہیں ۔ زہر اگلنے والے پریش ورما اپنے حلقہ سے ایک بھی سیٹ بی جے پی کو نہیں دلا سکے ۔ کانگریس کا اس بار بھی کھاتہ نہیں کھلا ۔ اس نے اپنی انتخابی مہم دیر سے شروع کی شاید کانگریس نے بھانپ لیا تھا کہ ابھی اس کا وقت نہیں ہے اور وہ جتنی مضبوطی سے لڑے گی اتنا بی جے پی کو فائدہ ہوگا ۔ بی جے پی بھلے ہی آٹھ سیٹوں پر سمٹ گئی ہے لیکن اس کے ووٹ فیصد میں اضافہ ہوا ہے ۔ 2015 میں اسے 33 فیصد ووٹ ملے تھے لیکن اس بار اسے 39 فیصد ووٹ ملے ہیں ۔ وہیں کانگریس اپنے 9.65 فیصد ووٹ بھی محفوظ نہیں رکھ سکی ۔ موجودہ الیکشن میں کانگریس کو صرف 4 فیصد ووٹ مل سکے ہیں ۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ کانگریس کا روائتی ووٹ بی جے پی کے شاہین باغ کو انتخاب کے مرکز میں رکھنے سے عام آدمی پارٹی کے کھاتے میں چلا گیا ۔

بہر کیف دہلی کی کرسی تک پہنچنے کے لئے بی جے پی کو پانچ سال انتظار کرنا پڑے گا ۔ بھلے ہی بھاجپا کا نفرت کا وار دہلی میں ناکام ہوگیا ۔ لیکن وہ بہار و بنگال میں اسے آزما سکتی ہے ۔ مودی جی نے دہلی کی اپنی انتخابی ریلی میں شاہین باغ کو اتفاق نہیں تجربہ بتایا تھا ۔ خیر آنے والے انتخابات میں اس کی کیا حکمت عملی ہوگی یہ آنے والا وقت بتائے گا ۔ مگر بی جے پی کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ اسے وکاس کے نام پر ملک کا اقتدار ملا تھا ۔ اسے سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے ۔ قدرت اسی کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا موقع دیتی ہے جو سب کی بھلائی، فروغ اور ترقی کی کوشش کرتا ہے ۔ بھارت کو بانٹو راج کرو کی نیتی قبول نہیں کیوں کہ یہ ایک تکثیری ملک ہے ۔ سب کو اپنی تہذیب اور سب کا ساتھ و ترقی پسند ہے ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں