خورشید عالم داؤد قاسمی
حماس کے خلاف پروپیگنڈہ اور فلسطینیوں کی جبری منتقلی کی سازش:
کچھ مفاد پرست سیاسی رہنماؤں اور منافق قسم کے لوگوں کا خیال ہے کہ صہیونی قابض ریاست اسرائیل غزہ کی پٹی میں جو قتل عام اور نسل کشی کر رہی ہے، اس کی ذمے دار حماس ہے۔ یہ ایک پروپیگنڈہ ہے۔ ان مفاد پرست رہنماؤں کا مطالبہ ہے کہ حماس کی عسکری شاخ اور مسلح بازو: “کتائب القسام” ہتھیار ڈال دے، دفاع چھوڑ دے اور کسی طرح کی کوئی مزاحمت نہ کرے اور مزید یہ کہ اس کے اراکین فلسطین چھوڑ دیں۔ یہ مطالبہ یہیں پر نہیں رکتا ہے؛بلکہ فلسطین کے سارے شہریوں اور باشندے کی جبری منتقلی کی سازش کی جارہی ہےاور ان سے بار بار کہا جارہا ہے کہ وہ غزہ چھوڑ کر، دوسرے ممالک چلے جائیں اور پناہ گزیں بن کر، اپنی زندگی گذاریں۔ ان کا یہ خیال ہے کہ اگر یہ مطالبہ مان لیا جاتا ہے؛ تو غزہ میں امن ہوجائے۔
ابھی 7/ اپریل 2025 کو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو، امریکہ کے دورے پر تھے۔ امریکی صدر مسٹر ٹرمپ، نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد، ایک بار پھر غزہ پر قبضے کا منصوبہ پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ “غزہ کو پرامن کرنے کے لیے یہ بہتر ہوگا کہ اس پر امریکہ کا قبضہ رہے۔ اس کے علاوہ غزہ سے فلسطینیوں کو ہٹا دیا جائے اور الگ الگ ملکوں میں انھیں آباد کردیا جائے۔” مسٹر ٹرمپ نے مسلم ممالک سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ “اگر آپ لوگ ان فلسطینیوں کو اپنے یہاں آباد کرلیں؛ تو پھر غزہ مسئلے کا حل ہوسکتا ہے۔”انھوں نے کہا کہ “ہم غزہ کو ‘فریڈم زون’ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر فلسطینی الگ الگ ملکوں میں جاکر آباد ہوجائیں؛ تو پھر غزہ میں کام ہوسکتا ہے۔ اسے ایک پرامن علاقے کے طور پر فروغ دیا جاسکتا ہے۔”ٹرمپ کے اس منصوبے کی نیتن یاہو نے حمایت کی۔ سوال یہ ہے کہ جب غزہ کے باشندے ہی غزہ چھوڑ کرچلے جائیں؛ تو پھر غزہ پرامن کس کے لیے ہوگا؟ ایک گھر کے مالک سے کہا جائے کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر ، اپنے اہل وعیال کے ساتھ کہیں اور چلا جائے؛ تو اس کے گھر میں امن وسکون ہوجائے گا۔ تب تو یہ واجبی سوال بنتا ہے اور گھر کا مالک جاننا چاہے گا کہ اس گھر میں جب وہ اور اس کے اہل وعیال ہی نہیں رہیں گے؛ تو وہ امن وسکون کس کے لیے ہوگا؟ اس کو اور اس کے اہل خانہ کو اس امن وسکون کا کیا فائدہ ہوگا؟
متحدہ عرب امارات کے سفیر کا بیان:
خیر، بات حماس کے ہتھیار ڈالنے اور فلسطینیوں کا غزہ چھوڑ کر دوسرے ممالک میں پناہ گزیں بننے کی ہے۔ کچھ دوسروں کے ساتھ ساتھ کچھ اپنوں کی بھی یہی رائے ہے کہ حماس والے ہتھیار ڈال دیں اور فلسطین کے باشندے دوسرے ممالک منتقل ہوجائیں۔ یوسف العتیبہ متحدہ عرب امارات کے سفیر برائے امریکہ نے فروری 2025 ، مسٹر ٹرمپ کے غزہ پر قبضہ اور فلسطینیوں کی جبری منتقلی پر تبصرہ کرتے ہوئے واضح طور پرکہا تھا کہ وہ اسے “مشکل” سمجھتے ہیں؛ لیکن “اس وقت اس کے علاوہ کوئی متبادل نظر نہیں آتا۔”یہ بیان اماراتی سفیر العتیبہ نے ایسے موقع پر دیا تھا، جب کہ عالمی اور علاقائی سطح پرسارے انصاف پسند لوگ ٹرمپ کے اس منصوبے کی مخالفت کر رہے تھے۔
حماس کا قیام ایک ردّ عمل تھا:
حماس اگر ہتھیار ڈال بھی دے؛ تو اس کی کون ضمانت دے گا کہ فلسطین کے لوگ محفوظ رہیں گے اور صہیونی قابض ریاست اسرائیل فلسطینیوں پر حملہ کرکے ان کی نسل کشی نہیں کرے گی؟ کوئی بھی شخص، ملک اور تنظیم اس کی ضمانت نہیں دے سکتی ہے۔ ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حماس کی وجہہ سے فلسطینیوں کا قتل نہیں ہو رہا ہے؛ بلکہ صہیونی قابض ریاست نے جو متعدد مواقع سے فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے اور ان کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کیا ہے؛ ان کے نتیجے اور ردّ عمل میں حماس کا قیام عمل میں آیا ہے۔ حماس کا قیام سن 1987 ء میں ہوا اور صہیونی قابض ریاست کی طرف سے قتل عام، نسل کشی اور فلسطین کی اراضی پر قبضے کا واقعہ سن 1987 ء سے بہت پہلے سے چلا آرہا ہے۔ اسی قتل عام، نسل کشی اور فلسطینی اراضی پر قبضے کو روکنے کے لیے اور قابض حکومت سے مزاحمت کے لیے حماس کا قیام عمل میں آیا۔
فلسطینیوں کے قتل عام کی داستان:
اگر آپ کو یقین نہ آئے؛ تو فلسطین کی تاریخ اٹھائے اور اسے مطالعہ کیجیے اور فلسطینیوں کے قتل عام کی داستان پڑھئے۔ پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ صہیونی قابض ریاست نے کس طرح سے فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے۔ صہیونی قابض ریاست کے قیام سے قبل صہیونیوں کے ہاتھوں اور اس کے قیام کے بعد، اس کی صہیونی فوج کے ہاتھوں، فلسطینیوں کا سن 1937 میں،حیفا اور بیت المقدس میں قتلِ عام کیا گیا، سن 1938 میں پھر حیفامیں قتلِ عام کیا گیا، سن 1939 ء میں بلد الشیخ میں قتلِ عام کیا گیا، سن 1939 میں پھر ایک بار حیفا میں قتل عام کیا گیا، سن 1947ء میں العباسیہ، الخصاص، باب العمود، یروشلم اور الشیخ بریک میں قتلِ عام کیا گیا، سن 1948 میں یافااور دیر یاسین میں قتلِ عام کیا گیا، سن 1956 میں خان یونس میں قتلِ عام کیا گیا، سن 1967 میں یروشلم میں قتلِ عام کیا گیااور سن 1982 کے صبرا وشتیلا کے قتلِ عام کو کون بھول سکتا ہے۔ صہیونی قابض ریاست نے درجنوں بار نہتھے فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے۔
میری بات کا حاصل یہ ہے کہ صہیونی ریاست حماس کی وجہہ سے فلسطینیوں کی نسل کشی نہیں کر رہی ہے، ان جرائم کا ارتکاب تو صہیونی ریاست کئی عشرے سے کرتی آرہی ہے؛ بلکہ قابض ریاست نے جو فلسطینیوں کی نسل کشی کی اور ان کے اراضی کو قبضہ کیا، اس کے مقابلے اور مزاحمت کے لیے کچھ غیور فلسطینیوں نے حماس جیسی مزاحمتی تنظیم قائم کی اور پھر سن 1991 میں اس کی عسکری شاخ قائم کی گئی۔ اب آج حماس کو کہا جارہا ہے کہ وہ ہتھیار ڈال دے۔ یہ تو فطری بات ہے کہ جب ایک فریق (قابض دشمن) قتل عام کرے گا؛ تو مخالف فریق اس کے نتیجے میں، اپنی حفاظت کے لیے ہتھیار اٹھائے گا۔ جب کسی کو ذلیل کیا جائے گا؛ تو وہ اپنی ذلت کو دور کرنے کے لیے مزاحمت کی راہ اپنائے گا۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ حماس ہتھیار ڈال دے؛ تو فلسطینیوں کو قتل عام رک جائے گا، تو وہ حقیقت سے ناواقف ہے یا وہ حقیقت سے واقف ہوکر، فلسطینیوں کو دھوکہ دے رہا ہے، جیسا کہ ماضی میں بہت سے مواقع سے مختلف شکلوں میں فلسطینیوں کو دھوکہ دیا گیا۔
یوکرین کے ساتھ معاہدے کا واقعہ:
آپ کو ایک معاہدہ یاد دلاؤں جسے آج سمجھنا بہت ہی آسان ہے۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد، دنیا کا تیسرا سب سے بڑا جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ یوکرین کے پاس آگیا۔ ان ہتھیاروں میں بین البراعظمی میزائل اور نیوکلیئر وار ہیڈز شامل تھے۔ کچھ مغربی طاقتوں اور روس نے یوکرین پر دباؤ ڈالا کہ وہ یہ جوہری ہتھیار رضاکارانہ طور پر چھوڑ دے اور جوہری عدم پھیلاؤ (این پی ٹی) کے عالمی معاہدے شامل ہوجائے۔ اس معاہدے کے لیے جو ممالک پیش پیش تھے، ان میں امریکہ، روس، برطانیہ تھے۔ یوکرین معاہدہ کے لیے راضی ہوگیا اور معاہدے کے تحت اپنے تمام جوہری ہتھیار سے دست بردار ہوگیا۔ پانچ دسمبر 1994 کو “بوداپیسٹ میمورنڈم” کے تحت معاہدہ پر دستخط کرکے، یوکرین “جوہری عدم پھیلاؤ” کے معاہدے میں شامل ہوگیا۔ مذکورہ بالا ممالک نے یوکرین کو اس کے بدلے میں سیکیورٹی گارنٹی دی۔ اس معاہدے کے تحت ان ممالک نے یہ بھی عہد کیا کہ وہ یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کریں گے،اس کے خلاف کبھی طاقت کا استعمال نہیں کریں گے، یوکرین پر کوئی معاشی دباؤ یا دھمکی نہیں ڈالیں گے اور اگر کوئی ملک یوکرین پر جارحیت کرتا ہے؛ تو وہ ممالک اقوام متحدہ کے ذریعے اس کی حفاظت کے لیے کام کریں گے۔
اس معاہدے کے بیس سال بعد، روس نے سن 2014 میں یوکرین کے “کریمیا” پر قبضہ کرلیا۔ یہ قبضہ “بوداپیسٹ میمورنڈم” کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ بات یہیں نہیں رکی؛ بلکہ سن 2022 میں روس نے یوکرین پر حملہ کردیا۔ اب یوکرین کو کوئی بچانے کے لیے آگے نہیں آیا۔ انگریزی، روسی اور یوکرینی زبانوں میں تیار”بوداپیسٹ میمورنڈم” کاغذ پر دستخط شدہ کسی فائل میں رہ گیا اور یوکرین کے لیے ایک تلخ سبق بن گیا۔
امریکہ کی یوکرین کے معدنیات تک رسائی کی کوشش:
امریکہ اور برطانیہ نے یوکرین کی کچھ ہتھیار کے ذریعے مدد کی؛ بلکہ کچھ مالی امداد بھی کی؛ مگر روس کے خلاف فوجی مداخلت سے گریز کیا۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے یوکرین کی جو مددکی، وہ اپنے مفاد کی خاطر کی۔اب اس کے بدلے میں ٹرمپ انتظامیہ یوکرین کے ساتھ ایک معاہدہ کرنا چاہتی ہے۔ اس معاہدے کے تحت، امریکہ کو یوکرین کی نایاب معدنیات تک رسائی حاصل ہوگی۔مگر یوکرین کی جو خواہش ہے کہ اس معاہدہ کے تحت، یوکرین کو سیکیورٹی ضمانت حاصل ہو، یوکرین اب بھی اسے حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ آج بھی روس اور یوکرین کے درمیان جنگ جاری ہے۔
کوئی دوسرا آپ کی حفاظت نہیں کرسکتا:
آج اپنے اور پرائے سب حماس کو ہتھیار سے دست بردار ہونے کا مشورہ دے رہے ہیں؛ مگر خود مختار اور آزادفلسطین اور فلسطینیوں کی حفاظت کی ضمانت کوئی نہیں لے رہا ہے۔ انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ آج کی کرپٹ دنیا میں کوئی کسی کی حفاظت کی گارنٹی نہیں لے سکتا اور اگر کوئی گارنٹی دے بھی؛ تو ضرورت کے وقت وہ مکر جائے گا۔ اگر حماس ہتھیار ڈال دے اور اس کے بعد بھی فلسطینیوں کا قتل عام ہوتا رہے، جیسا کہ ماضی میں ہوا؛ تو اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ یوکرین کا جو واقعہ ہم نے پیش کیا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ آج کے دور میں کوئی گارنٹی حقیقت میں تحفظ نہیں دیتی۔
بے معنی اور بے سودامن:
قطر، مصر اور امریکہ کی ثالثی میں امن معاہدہ ہوا۔ اس کے پہلے مرحلے کے بعد صہیونی ریاست یکطرفہ طور پر معاہدے سے مکر گئی۔ اس نے دوسرے اور تیسرے مرحلے کے معاہدے کی جو بات تھی، اس کی پاسداری نہیں کی۔ اس نے 18/ مارچ کو عین سحری کے وقت غزہ پر بمباری شروع کردی۔ اس وقت سےاب تک فلسطینیوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ کوئی ملک یا تنظیم صہیونی قابض ریاست کو روک نہیں رہی ہے۔اب تک قابض افواج کے حملےمیں ہزاروں لوگوں کی جانیں جاچکی ہیں۔ ان تلخ تجربات کے باوجود، آج حماس سے مطالبہ کیا جارہا ہے وہ ہتھیار ڈال دے۔ فلسطینیوں کی جبری منتقلی کی بات کی جارہی ہے۔ فلسطینیوں کی جبری منتقلی کے بعد، اگر غزہ میں امن ہوتا ہے؛ تو اس سے فلسطینیوں کو کیا ملے گا؟ فلسطینی فلسطین سے منتقل ہوجائیں، پھر دنیا کے کچھ طاقتور ممالک فلسطین میں امن کا نعرہ لگائیں گے؛ تو وہ امن بے معنی اور بے سود ہوگا۔
خاتمہ:
میری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ حماس کا قیام کسی جارحانہ جذبے یا طاقت کی ہوس کا نتیجہ نہیں؛ بلکہ صہیونی مظالم، قتل عام، زمینوں پر قبضے اور قضیۂ فلسطین کے حوالے سے عالمی برادری کی بے حسی کے ردّ عمل میں ہوا۔ جب ایک قوم کو بار بار کچلا جائے، اس کی نسل کشی کی جائے اور اس کے جائز حقوق کو طاقت کے زور پر چھینا جائے؛ تو فطری بات ہے کہ وہ اپنے وجود اور وقار کے دفاع میں، مزاحمت کا راستہ اختیار کرے گی۔ حماس اسی جدوجہد کا نام ہے۔ حماس کو ہتھیار ڈالنے کا مشورہ دینا، اس سچائی سے آنکھیں چرانا ہے؛ کیوں کہ مسئلہ کی جڑ صہیونی ریاست کا ظلم اور غاصبانہ قبضہ ہے، نہ کہ حماس کی مزاحمت۔ جب تک فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں ملے گا، ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا، تب تک نہ حقیقی امن ممکن ہے اور نہ پائیدار حل۔ فلسطین کا مسئلہ ایک انسانی المیہ ہے، جس کا حل صرف مزاحمت کو ختم کرنے میں نہیں؛ بلکہ ظلم کے خاتمے اور انصاف کے قیام میں ہے۔ ••••