عزیز برنی
مودی حکومت اپنے دوسرے دور کو اپنا آخری دور سمجھتے ہوئے بہت جلدبازی میں ایسے اقدام کر رہی ہے جیسے کوئی ضعیف بسترِ مرگ پر ہو اور اپنی تمام خواہشات مرنے سے پہلے پوری کر لینا چاہتا ہو وہ نہ وصیت کرنا چاہتا ہے نہ اپنے بعد کی نسلوں پر اس کا بھروسہ ہے کہ وہ اُس کے ادھورے خواب پورے کر سکتے ہیں شاید اُس کی یہ نہ امیدی ٹھیک بھی ہے کیونکہ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت وقت کی زندگی کتنی ہے اور آرزوئیں کتنی۔
370 اور CAA پر موقف سے نہیں ہٹیں گے لیکن شاہین باغ سے خبروں میں بات کریں گے حکومتِ ہند کی جانب سے میڈیا کے ذریعے ہواؤں میں خبریں گشت کرینگی اب کوئی شاہین پرواز کرے اور ہواؤں میں گفتگو کرے تو کرے زمین پر تو یہ ممکن نہیں حکومت پولیس کے پہرے میں ہے اور خوف زدہ سرکار بند کمرے میں بیان دینے سے زیادہ جرت دکھانے کو تیار نہیں۔
وزیرِ داخلہ کو اعتراف گولی مارو ۔۔۔ کا نقصان ہوا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ نہ ہندو مسلم کا شور کام آیا ہندوستان۔پ اکستان کا میڈیا راگ آخر کب تک ملک کا عوام اپنی زندگی کی قیمت پر اپنی نسلوں کے مستقبل کی قیمت پر ہندوستان کی تباہ ہوتی معاشیت کی قیمت پر مذہب کی افیم کے نشے میں چور رہے کبھی تو ہوش کی دوا لے گا اور یہی ہوا دلّی کے الیکشن میں وہ جاگ اٹھا مذہب کی افیم کا اثر بے اثر ہو گیا ہند پاک کا میڈیا راگ بے وقت کی راگنی ثابت ہوا۔
کیا CAA NPR NRC مذہب کی وہی افیم نہیں جس کو دلّی الیکشن میں ٹیسٹ کیلئے آزما کر دیکھ لیا گیا اور نتیجہ سامنے ہے کیا یہی نتیجہ ہر ریاست میں اور قومی انتخابات میں سامنے نہیں ہوگا۔
ضرور ہوگا جو تھوڑی بہت اُمید EVM سے ہے وہ بھی ٹوٹ جائے گی۔ لیکن حکومت کی مجبوری بھی ہمارے سامنے ہے وہ اپنے موقف سے یعنی مذہبی منافرت سے پیچھے نہیں ہٹ سکتی ہٹے تو کیا کرے۔ حکومت کے زیر سایہ ہزاروں کروڑ روپیہ لیکر بھاگنے والوں کو واپس لانا اُسکے بس کی بات نہیں دم توڑتے کسانوں کو زندگی کا حوصلا دینا اُس کے بس کی بات نہیں، نوجوانوں کو ملازمت دینا اُس کے بس کی بات نہیں، لہٰذا تعلیمی درسگاہوں پر حملہ ضروری، ملک کی گرتی معاشیات کو سنبھالنا سرکار کے بس کی بات نہیں ملک غربت کے مہا ساگر میں ڈوبتا جا رہا ہے اور حکومت غربت چھپانے کے لیے دیواریں بنانے میں مصروف ہے۔
مودی جی!
ایک دیوار ایک مہمان سے بھلے ہی کچھ وقت کیلئے حقیقت چھپا لے پر دیوار کے اس پار رہنے والے تو اس حقیقت کو جانتے ہیں اور یہ بھی کہ NRC ایک ایسی ہی دیوار ہے جو گجرات میں اصل ہندوستان کی پردہ پوشی کیلئے بنائی جا رہی ہے کاغذات کے بہانے آپ اسی ہندوستان کو دیوار کے اس پار بھیج دینا چاہتے ہو جن کا خون اس مٹّی میں شامل ہے یہ ملک مُٹھی بھر جاگیرداروں کی میراث نہیں اس ملک کی آزادی انگریزوں کی غلامی کے پروانوں پر دستخط کرنے والوں کی محتاج نہیں۔
شاہین باغ، جالیاں والا باغ صرف ہندوستان کی تاریخ کا ایک باب نہیں اس مٹّی کی وہ آواز ہے جس کی صدائے انقلاب سنکر انگریز جیسی طاقتور قوم اپنے تمام دعوے اپنے تمام خواب چھوڑ کر بھاگ کھڑی ہوئی تھی کیا لگتا ہے آپکو یہ ہندوستانی قوم اُن انگریزوں کے تلوے چاٹنے والوں کے سامنے سر نگوں ہو جائے گی ۔
نہیں جناب نہیں بہت بڑی غلط فہمی کا شکار ہیں آپ سچ سمجھنے کی صلاحیت نہیں آپ میں سچ کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں آپ میں، آپ کی تمام تر جد و جہد بس اتنی کے ہندوستان بھر کے تمام شاہین باغ آپ کی نظروں کے سامنے سے ہٹ جائیں۔ کتنے نادان ہیں آپ جو اتنا بھی نہیں جانتے کہ یہ تمام شاہین باغ انقلاب کا بگل بجا چکے ہیں، اب ہر وطن سے محبت کرنے والا سر پر کفن باندھ کر وطن کے تحفظ کا عہد لے چکا ہے۔ انوراگ کشیپ سورہ بھاسکر، پرکاش راج، یوگیندر یادو، چندر شیکھر روان، کنہیا کمار، جیسے تمام ہندوستانی آج مہاتما گاندھی چندرشیکھر آزاد، شہید بھگت سنگھ کی آواز ہیں اور ان کے ساتھ ہیں ہزاروں اشفاق اللہ خان اور لنگر چلانے والی وہ زندہ قوم جو اپنا گھر پُھوک کر انقلابیوں کے چولہے کی آگ بجھنے نہیں دینا چاہتی۔ یہ چولہے کی آگ اعلان ہے انقلاب کی چنگاری کی، اب وطن سے محبت کرنے والوں کا گھر رہے نہ رہے، یہ انقلاب اُن کے دلوں میں گھر کر گیا ہے۔ تخت تو خیر کسی کا بچا نہیں ، ذرا بہت وطن سے محبت کا بھرم ہی بچ گیا ہو تو ضد چھوڑ دیں اپنے خوابوں کی نہیں ملک کی فکر کریں۔ شکریہ






