چلیے، جیت گئے

محمد شارب ضیاء رحمانی
دہلی الیکشن کا ہنگامہ ختم ہوگیا، نفرت اور اشتعال انگیزی کی شکست ہوئی،عوام نے یک طرفہ بی جے پی کے خلاف ووٹنگ کی،ماحول بھی ایسا بنادیاگیاتھاکہ عام آدمی پارٹی کے علاوہ کانگریس یا کسی متبادل کی طرف دیکھنا بھی بی جے پی کو فائدہ پہونچاسکتا تھا، بی جے پی کے خلاف مسلمانوں نے جم کر پوری طرح متحد ہوکر ووٹنگ کی،اور ایسا کرنا بھی چاہیے تھا۔
سچ ہے کہ اگر بی جے پی نے نفرت کا ماحول نہ بنایا ہوتا، شاہین باغ پر حملے نہ ہوتے تو مسلم ووٹوں کی تقسیم سے کجریوال کو سیٹیں ضرور کم ہوتیں،گرچہ وہ سرکار بنالیتے، خود اوکھلا کے ایم ایل اے امانت اللہ خان سے ناراضگی کے باوجود مجبوری میں انھیں ہی ووٹ دینا پڑا کیوں کہ کانگریس نے بھی مضبوط مقابل یہاں نہیں دیا تھا ، اسی کا فائدہ عام آدمی پارٹی اور امانت اللہ کو ہوا، اس وقت عام آدمی پارٹی کی مخالفت کی فضا نھیں تھی۔
نتائج پر فطری طور پر مسلم کمیونیٹی کو خوشی ملنی تھی، ملی، رک کر سوچیے، عام آدمی پارٹی کو بھی احساس ہوگا کہ کام کی بنیاد پر ووٹ تو ملتے ہی لیکن یکمشت مسلم ووٹ نے ہی اتنی زبردست جیت دلائی ہے،اسے کیوں نہ احساس دلایا جائے کہ پچھلے سیشن میں جس طرح مسلم کاز کو نظر اندازکیا گیا، اب کجریوال سرکار ان پر توجہ دے لیکن چلی ہےیہ رسم کہ گرم ہندوتوا کا مقابلہ نرم ہندوتوا سے کیا جانے لگاہے، چاہے کانگریس ہو، عام آدمی پارٹی ہویا بی ایس پی،ایس پی ہوں،فرقہ پرستی کو فرقہ پرستی سے کاٹنے کی بجائے سیکولرزم کے حقیقی اصولوں سے شکست کیوں نھیں دی جاسکتی، اچھا تو تھا کہ ان سب سے قطع نظر صرف وکاس کے مدعے رکھے جاتے، جس طرح عام آدمی پارٹی نے انتخابی مہم شروع کی تھی، بعد میں ہنومان چالیسا، ہنومان بھکتی، مندر پر آگئی، حکومت سازی کے بعد بھی اطمینان ہوجانا چاہیے تھا لیکن ہر منگل کو چالیسا پاٹھ کا شوشہ چھوڑا گیا۔
الیکشن کے دوران سی اے اے اور شاہین باغ پر کجریوال کی خاموشی کو مجبوری سمجھ کر معاف کیا جاتا رہا، لیکن اب کون سی مجبوری ہے کہ یہ وکاس پُرش ان متنازعہ امور پر ایک لفظ بولنے کو تیار نہیں ،سکھ واقعے میں دوڑ کر ملاقات کرنے والے وزیراعلی کو جامعہ آنے کی ہمت نہیں ہوسکی، دہلی کے وزیر اعلی کو دہلی میں درجن بھر مقامات پر بیٹھیں خواتین کے درد کی فکر نھیں؟ سسودیا بس یہ کہہ کررہ گئے کہ ہم شاہین باغ کے ساتھ ہیں لیکن ان کا کوئی ٹاپ لیڈر جھانکنے تک آیا؟ احتجاج اور دھرنوں کی مولود اور عادی پارٹی اب تک ان قوانین کے خلاف سڑک سے کیوں بھاگی ہوئی ہے؟
سیدھا سیدھا کجریوال جواب دیں کہ سی اے اے، این آرسی اور این پی آر کومسترد کرتے ہیں یا نہیں ؟ مسلم ممبران اسمبلی، اسمبلی سےسی اے اے کے خلاف تجویز منظور کرائیں اور فوری طور پر این پی آر لاگو نہ کرنے کا اعلان کرائیں کیوں کہ یکم اپریل سے این پی آر کا کام شروع ہونا ہے ، چار ریاستوں مدھیہ پردیش، کیرل، مغربی بنگال اور چھتیس گڑھ نے این پی آر سے بھی منع کیا ہے، امید ہے کہ پنجاب، جھارکھنڈ، راجستھان، تلنگانہ حکومتیں بھی این پی آر روکیں گی، بہار، دہلی، مہاراشٹر، آندھراپردیش کی سرکاریں بھی روک دیں تو بہت حد تک سنگھی عزائم پر روک لگے گی، اس لیے ان ریاستوں پر پورا زور دینا چاہیے جو سیکولرزم کا ڈھونگ رچتی ہیں۔
کجریوال سرکار بتائے کہ اردو اکیڈمی کی نشستوں پر بحالی کیوں نہیں ہورہی ہے؟ پچھلے سیشن میں اردو ٹیچروں پر دھوکہ دیتے رہے، یہ جھانسہ کب تک دیں گے؟ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کی جانچ کے لیے آپ سے کہا بھی نہیں جائے گا کیوں کہ یہ ہمت آپ میں نہیں ہے، اور نہ آپ کے لوکل بہادر ایم ایل اے میں ہے، جو اپنے علاقے کا بجلی بحران دور نہیں کرسکے، جنھوں نے سڑکیں اور گلیاں کھود کر مہینوں سے چھوڑ رکھی ہیں، بنیادی مسائل حل نہیں کرپارہے ہیں، بڑی بات تو رہنے دیجیے، ہم امت شاہ سے ملاقات پر سوال نہیں اٹھارہے ہیں ہوسکتا ہے کہ ترقیاتی امور پر گفتگو ہوئی ہو، ذاتی اور نفرت آمیز حملے کے باوجود ریاست کی فلاح کے لیے ملنا اچھی بات ہے۔
کسے یاد نہیں ہے کہ کجریوال کی پارٹی نے 370 پر ایوان میں بی جے پی کو ووٹ دیا تھا، آخر اس کے سیکولر لیڈران کیوں کنارے ہوگئے، یوگیندر یادو، آشوتوش اور پرشانت بھوشن سے پٹری نہیں جمی اور جو خالص سنگھی تھے، اپنی اصل کی طرف چلے گئے، وی کے سنگھ اور کرن بیدی کی مثال موجود ہے نزدیک سے نظر رکھنی ہوگی کہ انا آندولن کے باقی لوگ وکاس کا مکھوٹا لگاکر کہیں سنگھی ایجنڈے کو پورا تو نہیں کر رہے ہیں۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں