امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے پہلے ہندوستان دورہ کے دوران ملک کی راجدھانی میں ہوئے خونی فرقہ وارانہ تشدد کو لے کر کچھ اہم سابق پولس افسران نے دہلی پولس کی سستی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ہندوستان کے کچھ اہم سابق پولس افسران نے شمال مشرقی دہلی میں ہوئے تشدد کے تعلق سے اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے پہلے آفیشیل ہندوستان دورہ کے دوران قومی راجدھانی دہلی میں ہوئے خونی فرقہ وارانہ تشدد کے دوران دہلی پولس خاموش تماشائی بنی رہے۔ دہلی پولس کے سابق پولس کمشنر اجے راج شرما نے اس سلسلے میں کہا کہ ’’میں اگر پولس کمشنر ہوتا تو کسی بھی قیمت پر فسادیوں کو قانو ن ہاتھ میں نہیں لینے دیتا، چاہے حکومت میرا ٹرانسفر کر دیتی یا برخواست کر دیتی۔‘‘
فساد روکنے میں دہلی پولس کی ناکامی پر بی ایس ایف (سرحدی سیکورٹی فورس) کے سابق پولس ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی پی) پرکاش سنگھ نے بھی اپنا رد عمل دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’دہلی پولس کمشنر امولیہ پٹنایک کے ذریعہ وردی پر لگایا گیا داغ قابل معافی نہیں ہے۔ مجھے واقعی میں ان پر ترس آتا ہے۔‘‘ اتر پردیش کے سابق ڈی جی پی وکرم سنگھ نے فسادات کے مقامات پر پولس کے مبینہ طور پر جلد نہ پہنچنے کو لے کر تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے کہا کہ ’’دہلی پولس نے اندر دھنش کی طرح کام کیا اور بارش (فساد) تھمنے کے بعد نظر آئی۔‘‘ زبردست تنقید کا سامنا کر رہے پٹنایک کی قیادت پر وکرم سنگھ نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’’نپولین جب اپنی فوج کے ساتھ چلتا تھا تو وہ سب سے آگے چلتا تھا۔ یہاں پٹنایک اور ان کے اہم افسران (جائے وقوع سے) غائب تھے۔‘‘
شمال مشرقی دہلی میں 24 فروری کو فساد بھڑکنے کے 48 گھنٹوں کے اندر فسادیوں پر سخت کارروائی نہیں کر پانے کے ایشو پر دہلی کے سابق پولس کمشنر نیرج کمار نے بھی اپنا رد عمل میڈیا کے سامنے ظاہر کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’تشدد میں استعمال کیے گئے ہر طرح کے اسلحوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ فسادات پہلے سے منصوبہ بند تھے۔ مضبوط حفاظتی اشیاء دستیاب ہونے کے باوجود پولس فسادیوں کو روکنے کے لیے نہیں آئی۔ یہ پولس کی نالائقی ہے۔‘‘
جب سینئر آئی پی ایس افسر اور جموں و کشمیر کے سابق پولس چیف بی ایس بیدی سے دہلی تشدد کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’’پولس اگر جعفر آباد تنازعہ (احتجاجی مظاہرہ کے دوران) کو وقت رہتے حل کر لیا ہوتا تو حالات پٹنایک کے کنٹرول سے باہر نہیں ہوتے۔ لگتا ہے کہ پولس شاید تشدد کی سطح کا اندازہ نہیں کر سکی اور اس کا خفیہ محکمہ ناکام معلوم پڑتا ہے۔‘‘ سیاسی دباؤ اور پولس طریقہ کار میں مداخلت پر بیدی نے کہا کہ یہ صرف ایک غلط فہمی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’نظامِ قانون کی کیسی بھی حالت میں کمشنر ہی سب سے بڑا ہوتا ہے نہ کہ وزیر۔ سیاسی لیڈر کبھی ایسے مشکل حالات میں مداخلت نہیں کرتے۔‘‘
دہلی کے سابق پولس کمشنر ٹی آر ککڑ سے جب یہ سوال کیا گیا کہ اگر آپ کمشنر ہوتے تو ایسی حالت میں آپ کیا کارروائی کرتے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ’’میں تشدد بھڑکنے کے شروعاتی گھنٹوں میں سخت قدم اٹھاتا۔ کم از کم طاقت کے استعمال اور جوانوں کی کم تعداد میں تعیناتی کے سبب تشدد بڑھ گیا۔ پولس کی شبیہ دنیا کی نظروں میں آ گئی ہے، کیونکہ قومی راجدھانی میں سبھی برے کام تبھی ہوئے جب امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ آفیشیل ہندوستان دورہ پر آئے تھے۔ کچھ مقامات پر برآمد ہتھیار اور پٹرول بموں سے پتہ چلتا ہے کہ تشدد پہلے سے منصوبہ بند تھا۔ کمشنر اور لیفٹیننٹ گورنر نے اپنا رد عمل دیر سے ظاہر کیا۔‘‘
یہ پوچھنے پر کہ کیا قومی راجدھانی میں تشدد پھیلنے کے لیے شاہین باغ میں کئی ہفتوں سے چل رہے احتجاجی مظاہرہ کا اہم کردار ہے؟ اجے راج شرما نے کہا کہ ’’اگر میں امولیہ پٹنایک کی جگہ ہوتا تو میں مظاہرین کو نزدیکی پارک میں بٹھا دیتا۔ پولس کے ذریعہ مظاہرین کو اتنے طویل مدت تک ایک مصروف سڑک کو بند کرنے کی چھوٹ دینا ہی غلط فیصلہ تھا۔‘‘ پرکاش سنگھ اور وکرم سنگھ بھی اس بات پر متفق نظر آئے کہ پولس نے شاہین باغ میں سڑک بند ہونے کو سنجیدگی سے نہیں لیا، جو بعد میں انتظامیہ کے لیے ناسور بن گیا۔