محمدشعیب القاسمی
کسی بھی مقصد میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ قربان کرنا پڑتا ہے ایک تاجر ،ایک مزدور صبح سے شام تک کا وقت قربان کرتا ہے اپنی بیش قیمت محنت صرف کرتا ہے تب جاکر اسے کچھ نفع حاصل ہوپاتا ہے،غرض عقل وفطرت بھی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ کسی مقصد کے حصول کے لئے آپ کو قربانی دینی ہوگی پھر جس قدر وہ مقصد اعلیٰ ہے اس کو حاصل کرنے کے لئے اسی معیار کی قربانی پیش کرنی پڑے گی ، ایک مومن بندے کا سب سے اہم مقصد رضائے الہٰی ہے جس کے حصول کی خاطر اس کو ہر ممکن قربانی پیش کرنی چاہئے خواہ وہ خواہشات کی قربانی ہو، خواہ مال کی قربانی ہو ،خواہ جان کی قربانی ہو ،مومن بندے کے لئے حکم الہٰی کی تعمیل واجب اور ضروری ہے ،چنانچہ اللہ کے مخلص بندے ہر حکم الہٰی کو خوش دلی سے پو را کرتے ہیں اور جس طرح کی قربانی کا جس وقت بھی مطالبہ ہوتا ہے بارگاہِ رب العزت میں اس کو پیش کردیتے ہیں انہیں قربانیوں میں سے ایک وہ مخصوص قربانی کا عمل ہے جس کو ایام ذی الحجہ میں ادا کیا جاتا ہے ۔قربانی کا یہ عمل حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمان باری کی تعمیل میں اپنے اکلوتے لاڈلے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربانی کے لئے پیش کردیا ،لٹا کر ان کی گردن پر چھری چلادی ،چونکہ اللہ تعالیٰ کا مقصود حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ذبح کرانا نہیں تھا بلکہ اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جذبہ اطاعت کی آزمائش مقصود تھی جس میں وہ پورے اترے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کو ان حضرات کی ادا اس قدر پسند آئی کے آنے والی نسلوں میں بھی اس کو جاری وساری فرمایا ، چنانچہ ۲ھ میں امت محمدیہ علی صاحبہا الصلا ۃ والسلام کے لئے قربانی کا حکم جاری ہوا آپﷺ نے دس ذی الحجہ کو عید کی نماز ادا فرمائی اور دو مینڈھے قربانی کئے،مسلما نو کو بھی قربانی کا حکم دیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان اور اہتمام فرمانے کی وجہ سے ہر صاحب نصاب مومن پر قربانی کرنا واجب قرار پایا اور اسی پر بس نہیں بلکہ ایام قربانی میں یہ عمل ہی اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ پسندیدہ عمل بن جاتا ہے اور قربانی کرنے والا اللہ تعالیٰ کے یہاں ایک بڑی جزاکا مستحق بن جاتاہے بشر طیکہ قربانی کرنے والا اخلاص کے ساتھ قربانی کرے کیو نکہ اللہ تبا رک و تعا لیٰ نہ گوشت کے محتاج ہیں اور نہ خون کے بلکہ وہ صرف انسان کے خلوص و تقویٰ پر نظر رکھتے ہیں ،اسی طرح قرآن میں بھی بار بار تقویٰ کا ذکر آیا ہے
تقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہونے کے بعد دل کو گنا ہوں سے جھجھک معلوم ہونے لگتی ہے ،اوردل نیک کاموں کے کرنے کی طرف تڑپ اٹھتا ہے ،تقویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہمیشہ حاضر و نا ظر ہونے کا یقین دل میں پیدا ہو ،تقویٰ یہ ہے کہ دل میں خیر وشر کی تمیز کی خلش اور خیر کی طرف رغبت اور شر سے نفرت پیدا ہو ، تقویٰ ضمیر کے اس احساس کا نام ہے جس کی بناء پر ہر کام میں خدا کے حکم کے مطابق عمل کرنیکی شدید رغبت اور اسکی مخالفت سے شدید نفرت پیدا ہوتی ہے اگر ہم تمام اسلامی تعلیمات کا خلاصہ ایک لفظ میں کرنا چاہیں تو ہم اسکو تقویٰ سے ادا کرسکتے ہیں ،یہاں ہر عمل کا مقصد تقویٰ کی روح کو پیدا کرنا ہے ،قرآن پاک نے اپنی پہلی سطر میں اعلان کردیا ہے کہ اسکی تعلیم سے وہی فائدہ اٹھاسکتے ہیں جو تقویٰ والے ہیں ’’ھدیً للمتقین’’ اسلام کی ساری عبادتوں کا منشاتقویٰ کا حصول ہے ،بہر حال قربانی کیا ہے ؟ اس کا جواب حدیث شریف سے لیجئے ، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسولؐ !یہ قربانی کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت اور ان کی یا دگار ہے ،صحابہ نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول ؐ!اسمیں ہمارے لئے کیا ہے ؟ آپؐ نے فرمایاکہ جانور کے ہر بال کے عوض تمہیں ایک نیکی ملے گی پھر صحابہ نے عرض کیا اون کے بارے میں کیا حکم ہے،تو آپ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ اون کے ہرہر روئیں کے بدلہ بھی ایک ایک نیکی عطا کی جائے گی ۔اس سے بھی بڑھ کر قربانی کا سبب الاسباب ،اس کی اصل الاصول ،اسکا حقیقی راز ،اس کی اصل حکمت وہ ہے جو سورۂ حج میں بیان ہوئی ہے ،ارشاد ہے ’’اور ہر امت کے لئے ہم نے قربانی مقرر کی تاکہ وہ لوگ ان جانوروں پرجو اللہ نے ان کو دےئے ہیں ،اسکا نا م لیں ‘‘ معلوم ہواکہ اللہ کی نیاز کے طورپر جانور قربان کرنا ہر دین مساوی میں عبادت قرار دیا گیا ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ قربانی کی اصل حکمت ہے ،اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اظہار کے وہ اتنا عظیم ہے کہ اس پر جانیں قربان کی جا رہی ہے ،
آج ملت ابراہیمی کی عید ہے ۔جس میں اللہ کی محبت کی خاطر ہر چیز کے قربان کرنے کا عہد وپیمان ہوتا ہے اور بطور نمونہ سیّدنا ابراہیم کی یاد تازہ کرنے کا حکم دیا جاتا ہے ، قرآن کریم میں اللہ تعالی ارشاد فر ما تا ہے ’’تمہارے لئے حضرت ابراہیم اور ان کے ساتھیوں میں عمدہ نمونہ ہے جبکہ انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہم تم سے ان تمام چیزوں سے برأت ظاہرکرتے ہیں جن کی تم پرستش کرتے ہو‘‘غور سے دیکھا جائے تو اسلام کی حقیقت بس یہی دو چیزیں ہیں (۱)محبت اور(۲)قربانی۔ عارفین نے انسانی عظمت وبلندی کا راز صرف اللہ کی محبت میں دیکھا ہے ۔جس کے لئے ہر چیز کی قربانی لازمی ہے۔شیخ شرف الدین منیری ؒ فرماتے ہیں :موجودات و مصنوعات بے شمار تھے لیکن کسی مخلوق کے ساتھ وہ معاملہ نہ تھا جو اس مٹی پانی کے مجموعہ انسان کے ساتھ ہوا۔جب اللہ کو منظور ہواکہ اس خاکی پتلے کو وجود کا لباس پہنائے اور خلافت کے تخت پر بٹھائے تو ملائکہ نے عرض کیا ،آپ زمین میں ایک ایسی مخلوق کوخلیفہ بنانا چاہتے ہیں جو اس میں فساد برپا کرے گی۔لطفِ قدیم نے جواب دیا کہ’’ محبت میں مشورہ نہیں ہوتا اور عشق و تدبیر جمع نہیں ہو تے‘‘۔اگر ہمیں قبول نہ ہو تو تمہاری تہلیل و تسبیح کی کیا قیمت اور اگر ہما رے لطف و عنا یت کا ساقی عفو و معافی کا پیمانہ انسانوں کے ہاتھ پر رکھ دیگا تو ان کو گنا ہو ں سے کیا نقصان ہوگا ؟تم یہ تو دیکھتے ہو کہ معاملات میں وہ ہم سے تعلق رکھتے ہیں لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ محبت میں ہم ان سے تعلق رکھتے ہیں جیسا کے کسی شاعر نے کہا ،جب محبوب سے کوئی گناہ سر زد ہوتا ہے تو اس کے محا سن ہزار سفارشی کھڑے کر دیتے ہیں،محبت میں بڑے نشیب وفراز اُتار چڑھاؤاور لیل ونہار ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا ،کن لوگوں کو زیادہ آزمائش و مصیبت پیش آتی ہے؟آپﷺ نے فرمایا ’’اللہ کے نبیوں کو پھر ان کو جو فضیلت و بزرگی میں ان سے قریب ہوتے ہیں ۔پھر ان کو جو ان سے قریب ہو تے ہیں ۔
مکتب عشق کے قانون نرالے دیکھے ……….اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
یہ محبت ہی تھی جس نے ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ بیٹے کی گر دن پر چھری رکھ دو اور اسماعیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ اپنے باپ سے کہو ’’اے میرے والد جس بات کا حکم ہے اس کو کر گذرےئے ۔آپ مجھ کوانشاء اللہ صابرپائیں گے۔یہ محبت ہی تھی جس نے حضرت یوسف علیہ السلام کو حضرت یعقوب علیہ السلام سے جدا کیا اور چاہ کنعان میں جھانک کر دیکھنے کی توفیق نہ دی ۔لیکن پھر جب محبت کی بجلی کوندی تو مصر سے ان کے پیر ہن کی بو سونگھ لی۔قرآن کریم میں ہے اے پیغمبر آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ بیٹے ،بھائی ،بیویاں ،تمہاری برادری کنبہ وقبیلہ ،تمہا را مال جو تم نے جمع کیا تھا ،تمہاری تجارت جس کے ماندہ پڑنے سے ڈرتے ہو ،تمہارے رہنے کے پسندیدہ مکانات یہ ساری چیزیں تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ پسند ہیں تو تم انتظارکرو جو کچھ اللہ کو کرنا ہے وہ تمہارے سامنے آجائے گا۔غور سے دیکھئے گا زندگی میں اُلفت و محبت کے بڑے رشتے یہی ہیں اور اپنی جگہ سب مطلوب و ضروری ہیں۔لیکن اگر ایمان والی محبت اور ان میں مقابلہ ہو جائے تو پھر مومن وہ ہے جس پر ان میں سے کسی کا جادو نہ چل سکے گا اور کوئی محبت بھی اتباع وپیروی میں رکاوٹ نہ ڈال سکے گی۔محبت میں قربانی کاحال مدینہ کے انصاریوں سے پو چھئے ۔تاریخ اسلام میں جنگِ حنین پہلی جنگ ہے جس میں بکثرت مالِ غنیمت ہاتھ آیا اور انصاریوں کو اللہ کے رسول ﷺ نے کچھ نہ دیا ۔یہ حالت دیکھ کر بعض نو جوانوں کو کچھ خیال ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے انصاریوں کو جمع کرکے فرمایا۔ ’’کیا تمہاری خوشی کے لئے یہ بات کافی نہیں کے لوگ یہاں مالِ غنیمت کے حصے لے کر جائیں اور تم اللہ کے نبی کو اپنے ساتھ لے کر جاؤ‘‘یہ سن کر سب انصار بے اختیار پکاراُٹھے :رضینا یا رسو ل اللہ رضینا یا رسول اللہ: اے اللہ کے رسول ہم راضی ہیں اے اللہ کے رسو ل ہم راضی ہیں،قربانی کا حا ل بدر و احد کے شہداء سے پو چھئے جو اپنا سب کچھ قربان کردینے کے باوجود ’’فزت ورب الکعبہ‘‘(ربّ کعبہ کی قسم میں کا میاب ہوں)کہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہوئے۔الغرض قربانی کی روح یہ ہے کہ انسان اللہ سے اتنی محبت کرے کے اپنا سب کچھ اس کی راہ میں قربان کردے ،حتی کہ اگر ضرورت پڑے تو اپنی جان کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہ کرے اور اس کی محبت کے سامنے انسانوں کی محبت ،دولت کی محبت اور دوسری تمام محبتوں سے دستبردار ہوجائے یہ قربانی اور ایمان کی اصل روح ہے۔اورایمان والوں کو سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت ہوتی ہے۔آج ہماری عید بھی ہم سے محبت وقربانی کا مطالبہ کرتی ہے ،اور ہم عید کے مالک سے بصد آہ وزاری یہ التجا کرتے ہیں ۔