کشمیر !یوں تو اور اٹھیں گے دیوانے

ahmad-shahzad-qasmiاحمد شہزاد قاسمی
ماضی قریب کے عظیم مفکر دا نشور ادیب شاعر صحافی خطیب تحریکِ آزادی کے جانباز سپاہی وتحریکِ ختمِ نبوت کے روح رواں جناب ’’شورش کاشمیری‘‘نے اپنی طویل قید وبند کی داستانِ حیات کو ’’پسِ دیوارِ زنداں‘‘کے نام سے مرتب فر ماکر اہلِ ذوق پر بڑا احسان کیا ہے ۔
“شورش” نے اپنی اس کتاب میں لکھا ہے کہ’’قید بظاہر سنگ وخشت میں مقید رہنے کا نام نہیں انسان اپنے دن ہر طرح کاٹ لیتا ہے قید نام ہے انسان کی اپنی مرضی کے ٹوٹنے اور پرائی مرضی کے چلنے کا انسان نہ اپنی مرضی سے مسکراےء نہ اپنی مرضی سے سوےء نہ جاگے نہ کھاےء نہ پےء نہ پھرے نہ اٹھے نہ بیٹھے نہ بولے یہ ہے قید اور اسی کا نام قید ہے‘‘شورش کے ذریعہ بیان کردہ “قید “کی اس تعریف کے لئے اگر کوئی مثال درکار ہو تو کشمیری عوام کی روز مرہ کی زندگی اسکی بہترین اور واضح مثال بن سکتی ہے
1947 میں جب ملک تقسیم ہوا تو ریاست ہند و پاک سے الگ ایک خود مختار ریاست تھی تاہم تقسیم کے کچھ دنوں بعد کشمیر کی مسلم اکثریت کے ہندو راجہ ہری سنگھ نے کچھ شرطوں کے ساتھ کشمیر کو وطنِ عزیز ہندوستان کے ساتھ لاحق کر دیا تھا اس الحاق کے بعد کشمیر ہندوستان کا ہی حصہ ہو گیا اور ہمیں کشمیر پہ اپنا دعوی کرنے کا اختیار مل گیا اور ہم بڑے فخر سے یہ کہتے بھی ہیں کہ کشمیر ہمارا (بھارت ) کا اٹوٹ انگ ہے اور ہم یہ کہنے حق بجانب بھی ہیں لیکن کشمیری عوام کے تعلق سے ہمارا رویہ غیر منصفانہ ہے کشمیری عوام کو ہم وہ محبت اور پیار نہیں دے پائے جس سے انہیں یہ احساس ہو کہ کشمیر کے ساتھ ساتھ وہاں کی عوام بھی بھارت کا ہی حصہ ہے ریلوے اسٹیشن بس اڈوں اور دیگر پبلک مقامات پر کشمیریوں کو دیکھ کر بے شمار ذہنوں میں سوالات اٹھنے لگتے ہیں سوالیہ نگاہوں سے کشمیریوں کوگھورنے اور تکنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے عام طور سے ملک کے اکثر وبیشتر مقامات پہ بے موقع ہی انکو پولیس تفتیش سے گزر نا پڑتا ہے ہندو تنظیموں اور لیڈروں کی جراحتِ لسانی سے احساسِ کمتری کا شکار ہو نا پڑتا ہے ایسا معلوم ہو تا ہے جیسے کشمیری ہو نا کوئی جرم ہے۔
ہما رے اسی رویہ کی وجہ سے کشمیریو ں میں احساسں علیحد گی بیدار ہو تاہے ہمارے اس غیر منصفانہ طرزِ عمل سے حریت قائدین فائدہ اٹھا کر عوام کو خود مختاری اور آزادی پر اکسا نے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔کشمیر میں سیکورٹی فورسز کا کردار بھی تعصب پر مبنی ہے ذرا ذرا بات میں پیلٹ گن اور گولیوں کی برسات ہو جاتی ہے حالانکہ کشمیر کے علاوہ ناگا لینڈ اور میزورم میں بھی علیحد گی پسندوں کے جلوس اور احتجاج ہو تے رہتے ہیں آزادی کی تحریکیں زور مارتی رہتی ہیں لیکن وہاں تشدد آگ زنی کرفیو اور ظلم وجبر کے واقعات رو نما نہیں ہوتے کیونکہ اہلِ سیاست عوام اور سیکورٹی فورسز کا رویہ انکے ساتھ تعصب اور ظلم پر مبنی نہیں ہے ۔جبکہ کشمیر میں صورتِ حال اسکے بر عکس ہے کشمیریو ں کے ساتھ اکثر وبیشتر ایسا ہو تا رہتا ہے کہ نہ وہ اپنی مرضی سے گھروں سے نکل سکتے ہیں نہ خرید وفروخت کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی ضروریاتِ زندگی کو آزادانہ طور پہ پورا کرسکتے ہیں سیکورٹی فورسز کے اہلکار جب چاہیں کسی کی جان لے سکتے ہیں پیلٹ گن کے ذریعہ سینکڑوں افراد کو بینائی سے محروم کر کے ناکارہ بنا سکتے ہیں تجارت وزراعت کو معطل کر سکتے ہیں ،جنت نماں کشمیر نے بار ہا جہنم کا نظارہ کیاہے ،کر فیو پابندیاں پولیس کی سختیاں گویا کشمیریوں کی زندگی کا جزءِ لا ینفک ہے، مسئلہ کشمیر ہر حکو مت کے لےء ایک چیلنج رہا ہے جو آج تک کوء بھی حکو مت حل نہیں کر پائی ،حقیقت یہ ہے آج تک کسی بھی حکو مت نے مسئلہ کشمیر کو حل کر نے کی مخلصانہ کو شش نہیں کی ۔
8 جو لائی کوحز ب المجاہدین کے کمانڈر “بر ہان وانی” کی سیکورٹی فورسز کیساتھ تصادم میں موت ہو گئی تھی جسکے بعد وادی سراپا احتجاج تشدد جھڑپ آگ اور دھویں کی تصویر بن گئی تھی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ،وادئی کشمیر نے بارہا اسکا نظارہ کیا ہے کہ سیکورٹی اہلکار بزعمِ خویش کسی دہشت گرد کو مار گراتے ہیں اسکے خلاف احتجاج کرتے ہوئے لوگ سنگ باری کرتے ہوےء سڑ کوں پہ اتر آتے ہیں جسکا جواب انہیں گولیوں پیلٹ گن آنسو گیس ڈنڈوں اورکرفیو سے ملتا ہے چند دنوں کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو جا تاہے ،لیکن تاریخ میں شاید یہ پہلی بار ہوا ہے کہ کسی ایک نو جوان کی ہلاکت کے بعد مسلسل دو مہینوں تک کر فیو سنگ باری احتجاج اور ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے اور اس پر قابو پانا مشکل ہو رہا ہے ،یہ بات بالکل بدیہی ہے کہ مسئلہ کشمیر کا حل مذاکرات پیار محبت اور عوام کے ساتھ اپنائیت کے اظہار میں ہی مضمر ہے۔
اب جبکہ کشمیر چھ عشروں سے تشدد کی آگ میں جھلس رہا ہے اپوزیشن سمیت متعدد سیاسی جماعتوں غیر سیاسی جماعتوں اور اداروں نے مرکزی حکو مت پہ دباؤ ڈالا تو مر کزی حکو مت نے مرکزی وزیر داخلہ “راجناتھ سنگھ” کی قیادت میں ایک کل جماعتی وفد اس ماہ کے اوائل میں علیحد گی پسندوں سے مذاکرات اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے روانہ کیا تھا لیکن علیحدگی پسند لیڈران نے اس پیشکش کو ٹھکرادیا حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے وفود محض خانہ پوری اور اپوزیشن کی زبان بندی کے لئے ہو تے ہیں ورنہ اگر مخلصانہ جذبہ سے قدم بڑھائے جائیں تو کوئی راستہ ضرور نکلے گا ،اس سے پہلے بھی 1990 میں وی پی سنگھ کی قیادت والی مر کزی نیشنل فرنٹ سرکارنے اس وقت کے نائب وزیر اعظم چودھری دیوی لال ،2008 میں ڈاکٹر منموہن سنگھ کی قیادت والی یوپی اے سرکار اور 2010 میں بھی منموہن سنگھ کی قیادت والی یو پی اے سرکار نے کشمیر میں پارلیمانی وفود بھیجیں لیکن ان وفود کی کو ششیں بھی رائیگاں گئیں اور حریت قیادت نے ہر بار پارلیمانی وفود سے ملاقات کر نے سے انکار کر دیا
ایسی صورت میں جبکہ علیحدگی پسند قیادت بات چیت کے لےء آمادہ نہیں ہے قیامِ امن مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں ہے، اب یا تو میر واعظ مولوی عمر فاروق سید علی گیلانی اور یاسین ملک سمیت متعدد علیحدگی پسند قائدین سے انکی شرطوں قبول کر کے بات چیت کی سبیل نکا لی جاےء یا پھر ایسے اقدامات کئے جائیں جس سے وہاں کی عوام حریت قیادت کو ٹھکرا دے ،اسکے لئے ہمیں عوامی اور سیاسی سطح پر غیر معمولی اخلاقی جرأت اور وسیع ظرفی کا مظاہرہ کرنا ہو گا ،اس کے لئے سب سے بہتر نسخہ وہ ہے جسے ایک فلم میں ایک ایکٹر نے جادو کی جھپی سے تعبیر کیا ہے یعنی کشمیری عوام سے ایسی محبت اور ایسا برتاؤ جس سے انہیں اپنائیت کا احساس ہو اور انہیں لگے کہ ہندوستانی سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ عوام بھی انہیں اپنا سمجھتے ہیں اس کے علاوہ پولیس اور فوج کے کردار کو بھی صحیح کرنا ہو گا ۔
اگر ہریانہ اور گجرات میں ہزارہا کروڑ کی سرکاری وغیر سرکاری جائیداد واملاک نذرِ آتش کر دی جائیں ریلوے ٹریک پر قبضہ کر کے پورے ملک کی آمد ورفت کو متاثر کر دی جائے سیکورٹی اہلکاروں پہ ڈنڈے بر سادےء جائیں پولیس اہلکاروں کو دوڑا دوڑا کر پیٹا جاےء لیکن احتجاجیوں اور جنونیوں کا بال بھی بیکا نہ ہو دوسری طرف کشمیر میں اگر بچے سنگ باری کریں مظاہرین شوروشغب کریں تو پولیس اور فوج کی ایسی فرض شناسی بیدار ہوتی ہے کہ سینکڑوں جاں بحق ہو جاتے ہیں ہزاروں بینائی سے محروم اور لاکھوں زخمی ہسپتالوں میں تڑپتے رہتے ہیں یہی وہ واضح فرق ہے جو کشمیریوں کے احساسِ علیحدگی میں اضا فہ کرتا ہے اور اس سے فائدہ اٹھا کر علیحد گی پسند قیادت اپنے حق میں راےء عامہ ہموار کر نے میں کا میاب ہو جا تی ہے دوسری چیز کو کشمیر میں قیامِ امن کے.لےء ضروری ہے وہ انکے خلاف بیان بازی اور زبان درازی پر لگام لگا نا ہے ۔ہر اس شخص پر تنبیہ کی جائے جو جو کشمیریوں کو ترش زبان سے مخاطب کرے ۔
ابھی حال ہی میں اردو کے ایک اخبار میں خبر شائع ہو ئی تھی کہ گورکھپور سے بی جے پی کے ممبر آف پارلیمنٹ “یوگی آدتیہ ناتھ” نے کشمیر کے تعلق سے زبان درازی کی کی ہے یوگی آدتیہ ناتھ اپنی مسلم دشمنی مسلم مخالف بیان بازی اور دشنا م طرازی کے لےء مشہور ہیں انہوں نے اخطار نویسوں سے بات کر تے ہوےء کہا کہ کشمیر کا راگ الاپنے والوں کو سبق سکھانے کا وقت آگیا ہے ساتھ انہوں نے اسرائیل کی مثال دیتے ہو ےء کہا کہ اسرائیل کا دشمن (فلسطین) ایک آدمی مارتا ہے تو اسرائیل اپنے دشمن کے سو آدمی مار کر چین سے بیٹھتا ہے،کشمیر کے تعلق سے یہ دشنام طتازی نء نہیں ہے بلکہ اسکی کڑیاں ماضی سے ملتی ہیں جس کا اظہار مختلف موقعوں پہ مختلف لیڈروں کی زبانی مختلف پیرایہء بیان میں ہو تا رہا ہے،ہمارے متعصبانہ رویہ اور نفرت آمیز طرزِ گفتگو کے سبب ہی برہان وانی جیسے دیوانے اٹھتے ہیں
اربابِ حکو مت اس طرح کی نفرت آمیز اور حقارت پر مبنی گفتگو کر نے والی زبانوں پر شکنجہ کسیں اور سیاسی وعوامی سطح پہ کشمیریوں کے ساتھ ہو نے والے تعصب پر قد غن لگاےء ورنہ دوسری صورت میں بر ہان وانی جیسے دیوانے اٹھتے رہیں گے اور کشمیر میں قیامِ امن کا خواب دیکھنے والوں کی آنکھیں تعبیر کے لئے ترستی رہیں گی۔(ملت ٹائمز)