وبائی صورت حال میں پیش آنے والے چند اہم مسائل (۱) 

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

شریعت میں حلال وحرام، فرائض وواجبات اور ممنوعات ومکروہات کے احکام کا مقصد انسان کی تربیت، اہم تر مقصد کے لئے مشقت برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا اور خواہشات کی غلامی سے نکال کر اپنے مالکِ حقیقی کی بندگی میں داخل کرنا ہے؛ اس لئے بہت سی ایسی باتوں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، جن کو انجام دینا نفس پر شاق گزرتا ہے، جیسے: نیند کے غلبہ کے وقت فجر کی نماز ، دھوپ کی شدت کے وقت نماز ظہر ، روزہ رکھنے اور اس میں کھانے پینے سے رُکا رہنا، اپنی گاڑھی کمائی کا کچھ حصہ زکوٰة کے نام پر غریبوں کو دینا، غرض کہ شریعت میں جن کاموں کو انسان پر واجب قرار دیا گیا ہے، اس میں کچھ نہ کچھ مشقت موجود ہے، اسی طرح جو شخص شراب کا عادی ہو، اس کو شراب سے روک دینا اور بغیر کسی محنت کے سود کے ذریعہ پیسہ حاصل کرنے والے کو سود سے منع کر دینا بھی یقیناََ ان پر گراں گزرتا ہوگا، یہی حال ان دوسری چیزوں کا بھی ہے، جن سے انسان کو منع کیا گیا ہے۔

لیکن اس میں بھی اس بات کا لحاظ رکھا گیا ہے کہ انسان کو ایسا حکم نہ دیا جائے، جو اس کی صلاحیت سے بڑھ کر ہو، نماز کلمۂ شہادت کے بعد اسلام کا اہم ترین رکن ہے ؛ لیکن اس میں بھی اس کی پوری رعایت ہے، وضوءکرنا چاہئے؛ لیکن پانی کا استعمال مضر ہو تو تیمم کر لے، قیام ہونا چاہئے؛ لیکن کھڑے ہونے میں تکلیف ہو تو بیٹھ کر نماز ادا کرلے، رمضان المبارک کے روزے فرض ہیں؛ لیکن اگر بیمار ہو تو ابھی روزہ چھوڑ دے ، بعد میں قضاء کر لے، اور اگر دائم المریض ہو تو فدیہ ادا کر دے، وغیرہ ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ہم انسان کو اسی بات کا حکم دیتے ہیں، جس کو انجام دینے کی اس کے اندر طاقت ہو: لا یکلف اللہ نفسا ألا وسعھا (بقرہ:۶۸۲) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں جب تم کو کسی بات کا حکم دوں تو جہاں تک پورا کر سکو ،اسے پورا کرو: إذا أمرتکم بأمر فأتو منہ ما استطعتم (بخاری، حدیث نمبر: ۸۸)

اسی لئے صحت مند اور مریض، مال دار اور غریب، بینا اور نابینا، چلنے پر قادر اور چلنے سے عاجز اور مقیم اور مسافر کے درمیان بہت سے احکام میں فرق کیا گیا ہے، بحیثیت مجموعی اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حالت اختیار اور حالت مجبوری کے احکام میں فرق ہو سکتا ہے، مجبوری خواہ جسمانی ہو، جیسے: بیمار ہو یا بیمار پڑنے کا خطرہ ہو،یا مجبوری باہر سے پیش آنے والی ہو ، جیسے: موسم کی ناہمواری، دشمن یا درندہ کا خوف وغیرہ، اسی طرح ایک مجبوری قانونی جہت سے بھی ہوتی ہے؛ کیوں کہ جب حکومت کسی چیز سے منع کر دیتی ہے، تو انسان اس سے رکنے پر مجبور ہو جاتا ہے، اور چوں کہ ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے ہم نے قانون پر عمل کرنے کا عہد کیا ہے تو اگر اس پر عمل کرنا شرعاً واجب نہیں ہو اور اسے چھوڑا جا سکتا ہو، یا اس کی متبادل صورت اختیار کی جا سکتی ہو تو ایسی صورت میں شرعاََ بھی قانون کے تقاضوں پر عمل کرنا ضروری ہوگا؛ کیوں کہ یہ ایفاءِ عہد میں شامل ہے۔

اس وقت کورونا کی شکل میں جو وبائی مرض پھوٹ پڑا ہے، اس میں ایک تو حفظان صحت کے پہلو سے بعض امور کی رعایت ضروری ہے، اس پس منظر میں بعض دشواریاں پیدا ہوگئی ہیں، دوسرے: حکومت نے بھی کچھ احکام دئیے ہیں، قانونی نقطۂ نظر سے ان کی رعایت بھی ضروری ہے تو ان دشواریوں کا حل کیا ہے؟ ہمیں کس طرح شریعت کے حکم پر قائم رہتے ہوئے قانون اور حفظان صحت کے اصولوں کی رعایت کرنی چاہئے؟ اس سلسلہ میں چند ضروری مسائل کا ذکر کیا جاتا ہے:

پنج وقتہ نماز کی جماعت:

عاقل و بالغ اور صحت مند مردوں کو مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے دل میں آتا ہے کہ میں آگ جلواؤں، پھر اذان دی جائے، ایک شخص سے کہوں کہ وہ ان کی امامت کرے اور میں ان لوگوں کے یہاں جاؤں جو مسجد نہیں آئے اور ان کے گھروں کو آگ لگا دوں (صحیح بخاری، حدیث نمبر ۴۴۶) نیز حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے کہ تنہا نماز کے مقابلہ جماعت کی نماز کا ثواب ستائیس گنا زیاہ ہے (صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۵۴۶) ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے فقہاءکے درمیان اختلاف ہے کہ نماز میں جماعت کا کیا حکم ہے؟ اور ترجیح اس بات کو دی گئی ہے کہ جماعت سنت مؤکدہ ہے؛ لیکن اتنی اہم سنت ہے کہ اس کو بلا عذر چھوڑ ناجائز نہیں: الجماعة سنة مؤکدة …… فلا یسع ترکھا إلا لعذر (بدائع الصنائع: ۱۵۵۱) اور بلا عذر جماعت چھوڑنا باعث گناہ ہے، علماءعراق کے نزدیک تو ایک بار جماعت کا چھوڑ دینا بھی گناہ کا باعث ہے، اور فقہاءخراسان کے نزدیک اگر عادتاً ایسا کرے تب گناہ گار ہوگا: ……. الخراسانیون علیٰ أنہ یأثم إذا اعتاد الترک (رد المحتار: ۱ ۲۵۵)

عام نمازوں کے لئے جماعت کی شرط یہ ہے کہ کم سے کم دو نمازی ہوں؛ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إثنان فما فوقھما جماعة (بخاری، حدیث نمبر: ۲۷۹) اس لئے فقہاءنے لکھا ہے کہ اگر امام کے علاوہ ایک مقتدی بھی ہو تو جماعت قائم ہو جائے گی: وأقل من تنعقد بھم الجماعة إثنان، وھو أن یکون مع الإمام واحد (حاشیہ شلبی مع تبیین الحقائق:۱۲۳۱) معلوم ہوا کہ اگر مسجد میں امام کے علاوہ کم سے کم ایک مقتدی بھی ہو تو جماعت ہو سکتی ہے، اسی پس منظر میں بھارت کے ارباب افتاء نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں مسجد میں چار پانچ افراد سے جماعت کر لی جائے، یہ چوں کہ عذر کی وجہ سے جماعت سے غیر حاضر رہنا ہے؛ اس لئے اس میں ترک سنت کا گناہ نہیں ہوگا؛ بلکہ اگر وہ مسجد جانا چاہتا تھا اور عذر کی وجہ سے نہیں جاپایا تو علامہ شامیؒ کے بقول اس کو جماعت میں شرکت کا ثواب بھی ملے گا: إذا انقطع عن الجماعة لعذر من أعذارھا وکانت نیتہ حضورھا لولا العذر یحصل لہ ثوابھا (ردالمحتار: ۱۴۵۵)

جو لوگ عذر کی وجہ سے مسجد نہیں جا سکے، ان کے لئے گھر میں نماز ادا کرنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں: ایک یہ کہ تنہا نماز ادا کر لی جائے، دوسری: یہ کہ گھر ہی پر گھر میں موجود لوگوں کے ساتھ جماعت کر لی جائے؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر گھر میں گھر والوں کے ساتھ جماعت فرمائی ہے: جمع بأھلہ فی منزلہ حین انصرف من صلح (محیط برہانی: ۱۹۲۴) لہٰذا تنہا ادا کرنا جائز ہے اور جماعت کے ساتھ ادا کرنا بہتر ہے: لو فاتتہ الجماعة جمع بأھلہ فی منزلہ …… و ان صلیٰ وحدہ جاز (محیط برہانی: ۱۹۲۴)

صفوں کے درمیان فاصلے:

کورونا وائرس سے حفاظت کے لئے اس بات کی رعایت ضروری ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے قریب ہو کر رہنے سے بچیں اور فاصلہ قائم رکھیں، فاصلہ قائم رکھنے کا تعلق دو باتوں سے ہے: ایک یہ کہ اگلی صف اور پچھلی صف کے درمیان کتنا فاصلہ رہے دوسرے: ایک ہی صف میں کھڑے ہوئے نمازیوں کے درمیان کس حد تک فاصلہ رکھنے کی گنجائش ہے؟ تو اصل مطلوب طریقہ تو یہ ہے کہ دو صفوں کے درمیان دو ہاتھ کا فاصلہ ہونا چاہئے : الفرجة بین الصفین مقدار زراع ا ¿و زراعین (طحطاوی: ۳۹۳)؛ تاہم اگر کسی وجہ سے یہ فاصلہ بڑھ جائے ؛ لیکن امام کی نقل وحرکت سے مقتدی واقف ہو سکتے ہوں، تب بھی اقتداءدرست ہے، یہاں تک کہ علامہ کاسانیؒ لکھتے ہیں کہ اگر امام محراب میں ہو اور مقتدی مسجد کے آخری حصہ میں تب بھی نماز درست ہو جائے گی؛ اس لئے کہ مسجد کے اندر نماز پڑھتے ہوئے چاہے نمازیوں کے درمیان یا امام اور مقتدی کے درمیان فاصلہ بڑھ جائے؛ لیکن پوری مسجد ایک ہی جگہ کے حکم میں ہے: ولو اقتدیٰ بال امام فی أقصی المسجد وال إمام فی المحراب جاز ؛ لِأن المسجد علی تباعد أطرافہ جعل فی الحکم کمکان واحد (بدائع الصنائع: ۱۵۴۱) —– اس سے معلوم ہو اکہ اگر حفظان صحت کے لئے صفوں کے درمیان فاصلہ بڑھا دیا جائے جیسے عام طور پر جتنا فاصلہ رکھا جاتا ہے، اس سے دوہرا فاصلہ رکھا جائے تو اس کی گنجائش ہے اور جب یہ عذر کی بناءپر ہو تو اس میں کراہت بھی نہیں ہوگی۔

فاصلہ پیدا کرنے کی دوسری صورت یہ ہے کہ ایک ہی صف میں جو لوگ کھڑے ہوئے ہیں، وہ ایک دوسرے سے مل کر کھڑے ہونے کے بجائے کچھ فاصلہ رکھ کر کھڑے ہوں، اس مین کوئی شبہ نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں مِل مِل کر کھڑے ہونے کا حکم دیا ہے اور دو نمازیوں کے درمیان بلا ضرورت فاصلہ رکھنے کو منع فرمایا ہے؛ لیکن موجودہ حالات میں صحت وزندگی کے تحفظ کے نقطۂ نظر سے اگر جماعت میں شریک حضرات ایک ہی صف میں تھوڑے تھوڑے فاصلہ سے کھڑے ہوں؛ جیسا کہ طبی ماہرین کا مشورہ ہے تو اس کی بھی گنجائش نکلتی ہے؛ کیوں کہ جب پوری مسجد کو ایک جگہ مان لیا گیا تو جیسے دو صفوں کے درمیان فاصلہ گوارہ کیا جا سکتا ہے، اسی طرح ایک صف میں کھڑے ہونے والوں کے درمیان بھی فاصلہ رکھنے کی گنجائش ہوگی، ویسے بھی صف میں اتصال کا حکم وجوب کے درجہ کا نہیں ہے، (البنایہ: ۲۴۵۳) اس پر بعض فقہاءکے اجتہادات سے بھی روشنی پڑتی ہے، مشہور فقیہ قاضی خانؒ فرماتے ہیں کہ اگر کچھ لوگ صحراءمیں نماز پڑھیں، صف کے بیچ میں حوض یا اس طرح کی کوئی اور چیز ہو، صف کا ایک حصہ حوض کے ایک طرف ہو اور دوسرا حصہ دوسری طرف، اور درمیانی حصہ میں کوئی نمازی نہیں ہو تو نماز درست ہو جائے گی؛ کیوں کہ یہ سب ایک ہی جگہ کے حکم میں ہے: قوم صلوا فی الصحراءبجماعة ووسط الصفوف موضع مقدار حوض او فارقین لم یقم فیہ أحد جازت صلاتھم (فتاویٰ قاضی خان: ۱۲۳)

غرض کہ افضل طریقہ تو یہی ہے کہ صفوں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ ہو اورکاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے ہوں؛ لیکن اگر طبی ماہرین اس کو مضر قرار دیتے ہوں، یا کسی جگہ حکومت کی طرف سے فاصلہ رکھتے ہوئے نماز ادا کرنے کی تاکید کی گئی ہو تو وہاں ان گنجائشوں پر عمل کیا جا سکتا ہے، خواہ جماعت مسجدمیں ہو یا کسی اور جگہ، اور خواہ پنچ وقتہ نمازوں کی جماعت ہو یا جمعہ کی۔

جمعہ کی نماز:

جمعہ کی نماز کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے؛ اسی لئے عام طور پر جمعہ کی جماعت بڑی ہوتی ہے، موجودہ حالات میں طبی نقطۂ نظر سے تعداد کو محدود کرنا ضروری ہے، تو اس سلسلہ میں یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ امام ابو حنیفہؒ اور امام محمدؒ کے نزدیک جمعہ کی جماعت کے لئے امام کے علاوہ تین آدمی یعنی مجموعی اعتبار سے چار افراد اور امام ابو یوسفؒ کے نزدیک امام کے سواءدو افراد کا ہونا ضروری ہے: أقل الجماعة ثلاثہ سوی الإمام وھذا عند أبی حنیفة ومحمد، وقال أبو یوسف: Êثنان سوی الإمام(تبیین الحقائق: ۱۰۲۲، نیز دیکھئے: البحرالرائق: ۲۱۴۱) اس پس منظر میں موجودہ حالات کی رعایت کرتے ہوئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ مسجد میں جمعہ تو قائم کیا جائے؛ لیکن صرف پانچ سات نمازیوں کے ذریعہ۔

اب سوال یہ ہے کہ جو لوگ مسجد میں جمعہ نہیں پڑھ سکے تو کیا وہ گناہ گار ہوں گے؟ پھر وہ اپنے گھر میں جمعہ پڑھیں گے یا ظہر؟ اور ظہر پڑھیں گے تو جماعت کے ساتھ یا انفرادی طور پر؟ تو پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ عذر کی وجہ سے جمعہ کو ترک کرنا باعث گناہ نہیں ہے: وتسقط بالعذر حتیٰ لا تجب علی المریض ……. (بنایہ شرح ہدایہ: ۲۴۲۳) اور اس وقت وبائی مرض کا پھیلاؤ اور اس کی وجہ سے بڑی تعداد میں جمع ہونے کی قانونی ممانعت یقیناً ایک معقول اور معتبر عذر ہے۔

جمعہ کے درست ہونے کے لئے مسجد ضروری نہیں ہے؛ بلکہ شہر میں کسی بھی جگہ جمعہ کی نماز ہو سکتی ہے، گھر میں بھی اگر لوگوں کو آنے کی اجازت ہو تو جمعہ درست ہو جائے گا: جواز قامة الجمعة لیس بمحضور فی المصلیٰ؛ بل تجوز فی جمیع أفنیة مصر (عنایہ شرح ہدایہ: ۲۲۵) لیکن سوال یہ ہے کہ جب مسجد کی جماعت کو بیماری کے پھیلاو ¿ کو روکنے کے لئے محدود کیا گیااور چند افراد کے ساتھ جمعہ قائم کرنے کی تلقین کی جا رہی ہے؛ تاکہ اسلام کا ایک شعار پورا ہو جائے اور انسانی زندگی کی مصلحت بھی برقرار رہے، تو اگر گھروں میں بھی جمعہ قائم کیا جائے تو یہ مصلحت تو پھر بھی فوت ہو جائے گی، اور قانون کی بھی خلاف ورزی ہوگی؛ اس لئے موجودہ حالات میں گھروں پر جمعہ کی نماز نہیں رکھنی چاہئے؛ بلکہ جمعہ کے بجائے گھروں پر ظہر کی نماز ادا کرنی چاہئے۔

اب نماز ظہر کے سلسلہ میں دو باتیں قابل توجہ ہیں: پہلی بات یہ کہ جب مسجد میں جمعہ کی نماز ہو جائے، تب گھروں میں ظہر کی نماز ادا کی جائے، اگر اس سے پہلے ظہر کی نماز ادا کر لی تو یہ مکروہ ہے؛ بلکہ بعض فقہاءکے نزدیک تو اس کی نماز ہی نہیں ہوتی: ومن لا عذر لہ لوصلیٰ الظہر قبلھا کرہ وقال زفر: لا یصح ظھرہ (تبیین الحقائق:۱۲۲۲) دوسرے: جو لوگ گھروں پر ظہر کی نماز ادا کریں ، ان کو انفرادی طور پر ظہر ادا کرنی چاہئے، نہ کہ جماعت سے؛ اس لئے کہ جمعہ کے احترام کا تقاضہ ہے کہ اس کے مقابلہ میں کوئی اور جماعت نہ ہو، ایک تو ظہر کی جماعت سے شرکاء جمعہ کی تعداد کم ہوتی ہے ، دوسرے: معارضہ یعنی ایک دینی شعار کے مقابلہ میں دوسرا عمل انجام دینے کی صورت بنتی ہے؛ اس لئے بعض مشائخ نے جمعہ کے دن ظہر کے ساتھ جماعت کو مکروہ تحریمی اور بعض نے مکروہ تنزیہی قرار دیا ہے، علامہ شامیؒ نے تفصیل سے اس کا ذکر فرمایا ہے (دیکھئے: ردالمحتار: ۲۷۵۱) نیز اس وقت لاک ڈاؤن یا کرفیو کی وجہ سے لوگوں کے گھروں کی حیثیت ان کے لئے قید خانہ کی سی ہو گئی ہے، اور امام محمدؒ سے منقول ہے کہ انسان قید میں ہو یا قید سے باہر، جمعہ کے دن جماعت کے ساتھ ظہر کی نماز ادا کرنا مکروہ ہے: ویکرہ أن یصلی الظھر یوم الجمعة فی المصر بجماعة فی سجن وغیر سجن (محیط برہانی: ۲۲۹) ؛ اس لئے جمعہ کے دن گھروں میں ظہر پڑھی جائے۔

نماز تراویح:

رمضان المبارک کا ایک اہم اور خصوصی عمل نماز تراویح ہے، جو جماعت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے، جیسے عام نمازوں کی جماعت دو افراد کے ذریعہ بن سکتی ہے، اسی طرح تراویح کی جماعت بھی موجودہ حالات میں چار پانچ افراد کے ذریعہ کر لی جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، بقیہ حضرات اپنے گھروں میں تراویح کی نماز ادا کر لیں، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ہی دنوں لوگوں کے ساتھ نماز ادا فرمائی، بقیہ دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر میں نماز پڑھی، اور ویسے بھی فرائض کے علاوہ دوسری نمازوں کو گھر میں ادا کرنے کی گنجائش ہے؛ اسی لئے فقہاءنے تراویح میں جماعت کو” سنت علی الکفایہ“ قرار دیا ہے، یعنی اگر محلہ میں کہیں تراویح نہ ہو، یا مسجد میں تراویح کا اہتمام ہی نہ ہو تو سب لوگ سنت کے تارک شمار کئے جائیں گے، اور اگر محلہ میں ایک جگہ تراویح کی جماعت ہو جائے تو شریک ہونے والوں کو تو ثواب ہوگا ہی؛ لیکن جو لوگ شریک نہیں ہوئے، ان کو بھی ترک سنت کا گناہ نہیں ہوگا: والجماعة فیھا سنة علی الکفایة فی الأصح؛ فلو ترکھا أھل مسجد اثموا لا لو ترک بعضھم ( در مختار: ۲۴۹) اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر تراویح گھر میں پڑھی جائے تب بھی کوئی گناہ نہیں، حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور بعض سلف صالحین کا اسی پر عمل رہا ہے: ولو صلیٰ انسان فی بیتہ لا یأثم ھکذا کان یفعلہ ابن عمر (المبسوط للسرخسی: ۲۵۴۱) موجودہ حالات میں چوں کہ عذر کی وجہ سے ترک جماعت کی نوبت آرہی ہے؛ ورنہ نیت اور خواہش تو تھی کہ جماعت کے ساتھ پڑھیں؛ اس لئے شریعت کے عام اصول کے تحت نیت کی بنیاد پر ان شاء اللہ اسے بھی باجماعت نماز ادا کرنے کا اجر حاصل ہوگا؛ البتہ عذر کی وجہ سے تراویح کی بڑی جماعت سے بچنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تراویح ہی چھوڑ دی جائے کہ تراویح اصل ہے، اور اس کو مسجد میں ادا کرنا ضمنی عمل ہے؛ اس لئے موجودہ حالات میں تو اس کا زیادہ اہتمام ہونا چاہئے۔

تراویح میں قرآن مجید کا ایک ختم مسنون ہے: السنة فی التراویح الختم مرة (المبسوط للسرخسی: ۲۶۴۱) چوں کہ ہندوستان مین اکثر مساجد میں امام حافظ بھی ہوتے ہیں؛ اس لئے مسجدوں میں ختم قرآن کی کوشش کرنی چاہئے اور چوں کہ ختم قرآن کا تعلق تراویح سے ہے نہ کہ مسجد سے؛ اس لئے اگر گھروں میں کوئی حافظ میسر ہو اور وہ بالغ ہو تو اس کے ذریعہ قرآن مکمل کرانا بہتر ہے، اگر کوئی حافظ میسر نہ ہو تو گھر میں جس آدمی کے اندر نماز پڑھانے کی صلاحیت ہو اور اسے نسبتاََ زیادہ قرآن یاد ہو، وہ تراویح کی امامت کرے، یہاں تو ایک بڑی مجبوری ہے؛ لیکن فقہاءنے نمازیوں کی کسل مندی کو دیکھتے ہوئے بھی تراویح میں مختصر قرأت کی اجازت دی ہے: فالا ¿فضل ا ¿ن یقرا  امام علی حسب حال القوم من الرغبة والکسل فیقرا قدر مالا یوجب تنفیر القوم عن الجماعة ( بدائع الصنائع: ۱۹۸۲) بلکہ بعض فقہاء نے تو کہا ہے کہ اگر مغرب کی قرأت کے بقدر پڑھ لے تو اس کی بھی گنجائش ہے: والمتأخرون فی زماننا یفتون بثلاث آیات قصار وآیة طویلة حتیٰ لا یمل القوم ولا یلزم تعطیھا وھذا أحسن (بنایہ شرح ہدایہ: ۲ ۶۵۵) ؛ لہٰذا حالات کے لحاظ سے عمل کرنا چاہئے۔ (جاری)

٭ ٭ ٭