مدرسوں نے لاک ڈاؤں کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی، بلکہ ایک نیوز چینل نے تو الٹے ان میں سے ایک مدرسہ کی سوشل ڈسٹنسنگ پر عمل کرنے کے حوالہ سے تعریف بھی کی تھی
نئی دہلی: ’انڈیا ٹوڈے‘ نے اپنے ’پرائم ٹائم شو‘ میں، جسے راہل کنول پیش کرتے ہیں، ایک اسپیشل ’انویسٹی گیشن رپورٹ‘ پیش کی۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ قومی راجدھانی خطہ کے تین مدرسے (دار العلوم عثمانیہ، مدن پور کھادر، مدرسہ اصلاح المومنین مدن پور کھادر اور جامعہ محمدیہ گریٹر نوئیڈا) لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ مین اسٹرین کے مشہور میڈیا ادارے نے ہر ایک مدرسہ کے مہتمم کا ’اسٹنگ آپریشن‘ کرنے کا دعوی کیا اور متعصبانہ طور پر اپنی رپورٹ میں ’مدرسہ ہاٹ اسپاٹ‘ لفظ کا استعمال کر کے سماج میں نفرت پھیلائی۔
An @IndiaToday reality check finds Madrasas in the capital violating national lockdown rules. Kids crammed into small rooms. No social distancing norms followed. Teacher boasts he’s hiding kids from the police. Another claims he’s paid off local police. Watch 8 pm @IndiaToday pic.twitter.com/MUHiOBv4Rn
— Rahul Kanwal (@rahulkanwal) April 10, 2020
انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا کہ لاک ڈاؤن کے باوجود تمام طلبا مدرسوں میں قیام پزیر ہیں۔ شو میں ایک ویڈٖیو کلپ بھی دکھائی گئی جس میں مبینہ طور طور پر مدرسہ مہتمم اعتراف کرتے نظر آ رہے ہیں کہ انہوں نے پولیس کو اس طرف توجہ نہ دینے کے لئے رشوت دی ہے! چینل نے یہ بھی دعوی کیا کہ ان مدرسوں کے منتظمین کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے۔ کہا گیا کہ مرکز نظام الدین کی وجہ سے ملک میں کورونا وائرس پھیل گیا ہے لہذا ان مدرسوں میں بند بچوں کی جان پر بن آئی ہے!
’نیوز لانڈری‘ نے ’انڈیا ٹوڈے‘ کی اس رپورٹ کا پردہ فاش کرتے ہوئے اپنی ویب سائٹ پر رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ میں ’مدرسہ اصلاح المومنین‘ کے مہتمم محمد جابر قاسمی اور ’جامعہ محمدیہ ہلدونی‘ کے مہتمم محمد شیخ کا بیان بھی شامل کیا گیا ہے۔ حالانکہ دارالعلوم عثمانیہ کے مہتمم عبدالحفیظ نے میڈیا سے دوری اختیار کرنے کی بات کہہ کر بات کرنے سے انکار کر دیا۔
جابر اور شیخ دونوں نے نیوزلینڈری کو بتایا کہ یہاں پڑھنے والے تمام بچے بہار کے رہائشی ہیں۔ معاملے سے متعلق ایک اہم پہلو یہ کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے یہ بچے اپنے گھر واپس نہیں جا سکتے، جسے ’انڈیا ٹوڈے‘ نے نظرانداز کر دیا۔ جابر قاسمی نے کہا ’’بچے 11 اپریل کو گھر جانے والے تھے اور ان کے ٹکٹ بھی بک تھے لیکن لاک ڈاؤن کی وجہ سے نہیں جا سکے۔‘‘
بہار سے ہی تعلق رکھنے والے محمد شیخ نے بھی کم و بیش یہی بات کہہ کر سوال کیا کہ ’’اگر مدرسہ یکم اپریل سے بند ہونا ہو اور اچانک لاک ڈاؤن نافذ ہو جائے تو یہ بچے کہاں جائیں گے؟‘‘
واضح رہے کہ 21 اپریل کو وزارت برائے فروغ انسانی وسائل نے تمام تعلیمی اداروں کے لئے ہدایات جاری کی تھیں کہ جو بچے ہاسٹلوں میں پھنسے ہیں وہ کورونا کا اثر کم ہونے تک کیمپس میں ہی رہیں۔ چونکہ مدرسہ بھی ایک تعلیمی ادارہ ہے لہذا یہ ہدایات ان تینوں مدرسوں پر بھی لاگو ہوتی ہیں۔ اس طرح دیکھیں تو جابر قاسمی اور محمد شیخ لاک ڈاؤں کی رہنما ہدایات پر پوری طرح عمل پیرا تھے۔
’نیوز لانڈری‘ نے جب اس معاملہ پر دہلی پولیس سے بات کی تو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک عہدیدار نے کہا کہ مدن پور کھادر میں واقع دونوں مدرسوں میں بچوں کو ’چھپائے‘ جانے کی خبر سیدھے طور پر ’فرضی‘ ہے۔
ادھر، گریٹر نوئیڈا میں واقع ’جامعہ محمدیہ‘ کی بات کریں تو ’انڈیا ٹی وی‘ نے 10 اپریل کو ایک رپورٹ نشر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ یہاں بہار کے 24 بچے موجود ہیں اور وہ ’سوشل ڈسٹنسنگ‘ کی مثال پیش کر رہے ہیں۔ مدرسہ کا معائنہ کرنے گئے ڈاکٹر نے انڈیا ٹی وی کو بتایا تھا کہ یہاں کسی بچے میں کووڈ-19 کی علامات ظاہر نہیں ہو رہی ہیں۔
یعنی ’انڈیا ٹوڈے‘ جس مدرسہ پر اپنے ’اسٹنگ آپریشن‘ میں لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتا ہے، ’انڈیا ٹی وی‘ اسی کے حوالہ سے کہتا ہے کہ یہاں کے بچے سوشل ڈسٹنسنگ کی مثال پیش کر رہے ہیں۔
’اسٹنگ ویڈیو‘ کو نشر کرنے سے قبل راہل کنول نے دعویٰ کیا ’’یہ میڈیا کے تمام فارمیٹس میں اکلوتی تحقیقاتی ٹیم ہے جو آپ کے لئے میدان میں ہے اور یہ دکھاتی ہے کہ دراصل وہاں کیا ہو رہا ہے۔‘‘ کاش راہل کنول کی ٹیم نے یہی جوش و خروش اس رپورٹ سے پیدا ہونے والے بنیادی سوالات کے جواب دینے میں بھی دکھایا ہوتا۔
(بشکریہ نیوز لانڈری)






