نظریاتی اختلاف کے اظہار کا علمی طریقۂ کار

جمیل اختر شفیقؔ
آج کل علمی یا نظریاتی اختلاف کے اظہار کا لوگوں نے ایک نیا طریقہ ایجاد کر رکھا ہے،کسی بھی علمی شخصیت پر آسانی سے کیچڑ اُچھال دینا، اُنہیں بُرا بھلا کہنا، نازیبا الفاظ سے مخاطب کرنا، ناشائستہ جملوں کے تیر برساکر ان کے کلیجے کو زخمی کرنا،منظم سازش کے ساتھ ٹارگیٹ کرکے ذلیل کرنے کی وہ ساری سبیلیں ڈھونڈنا جن سے یہ بات صاف طور پر سمجھ میں آتی ہو کہ صاحبِ قلم اختلاف کا اظہار نہیں بلکہ ذاتی رنجش کا ڈھول پیٹ کر ناقص تربیت کی شہادت اور اپنے اندر کی بد خُلقی کا پرچار کرتا پھر رہا ہے ،اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو بنیادی طور پر یہ ساری علامتیں دنیا کی بدنامِ زمانہ برباد قوموں کی صفات کا اہم حصہ رہی ہیں، مہذب قومیں معیارِ حسنِ اخلاق سے کبھی نیچے نہیں گِرا کرتیں۔
دنیا کی کسی بھی مہذب قوم کے پڑھے لکھے طبقے میں علمی، فکری ونظریاتی اختلاف کا کہیں بھی یہ طریقہء کار نہیں رہا کہ کسی بھی صاحبِ فضل وکمال کے فن پہ گفتگو کے بجائے اس کی عزت وتوقیر کی دھجیاں اُڑائ جائیں،جبکہ اصولاً اگر نقد میں دلائل کی پختگی کے بجائے کسی انسان کی تحقیر کا عنصر غالب ہو تو اہلِ نظر کی نگاہوں میں ناقد کی شخصیت ہمیشہ کے لیے مشکوک ہوکر رہ جاتی ہے۔
شریعتِ اسلامیہ میں اس کی سخت وعیدیں آئی ہیں قرآن واحادیث کی تعلیمات سے پتہ چلتا ہے کہ :ہمیں زندگی کے نارک سے نازک ترین موقع پر بھی اخلاقیات کی دیوار کو کمزور نہیں ہونے دینا چاہیے ، دروغ گوئ، بدکلامی، عیب جوئی، بہتان تراشی اور غیبت جیسی بُری عادتوں کو اسلام نے کتنا گھٹیا اور خطرناک بتلایا ہے اس کی وضاحت کی قطعی ضرورت نہیں ،اسلام کا ادنیٰ سے ادنیٰ جانکار بھی ان حقائق سے اچھی طرح واقف ہے۔
خود فقہاء کی تاریخ پڑھ جائیں ہزاروں مسائل میں اُن کے مابین نظریاتی اختلاف تھا اور یہ اختلاف کتنا شدید تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان ہی اختلافات اور فقہی مباحث کے بھیڑ سے مختلف قسم کے فرقے تک وجود میں آگئے، لوگوں نے اپنی اپنی مسجدیں تک الگ کرلیں، برسوں مناظرے کی محفلیں آراستہ کی جاتی رہیں، اپنے اپنے افکار و نظریات کی تائید میں صفحہ در صفحہ سیاہ کیے گئے ،جِلد درجِلد کتابیں رقم کی گئیں لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ اُن مراحل میں بھی دور دور تک شاید کوئ ایسی مثال پیش نہیں کی جاسکتی کہ کسی نے کسی کے حق میں گِرے ہوئے ایسے عامیانہ الفاظ کہے ہوں جس کو پاکیزہ سماعتیں برداشت نہ کرسکیں،کیونکہ اُنہیں یہ پتہ تھا کہ علم کی زمین ہمیشہ پھول اُگاتی ہے اور جِہل کی زمین ببول۔
صحابہ کے مابین بھی زندگی کے بعض اہم موڑ پر اختلافات رونما ہوئے لیکن اس کے باوجود کیا مجال کہ ان کی اس کمزوری سے کوئ دشمن ناجائز فائدہ اُٹھالے یا ان کے ذاتی معاملات میں مداخلت کرکے مفاد کی روٹی سینک جائے اور وہ خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہیں ہرگز نہیں …!! بلکہ اگر کسی نے اس طرح کی ناپاک کوشش کرنے کی جراءت بھی کی تو صحابہ کی مقدس جماعت نے اسلام کے دشمنوں کو ایسا جوابی طمانچہ رسید کیا جسے پڑھ کر آج بھی طبیعت جذبہء ایمانی سے سرشار ہو اُٹھتی ہے، اُن کی مذہبی بصیرت کو سلام کرنے کو دل کرتا ہے اور آنکھیں شدتِ جذبات سے چھلک اُٹھتی ہیں اس ضمن میں خلیفتہ المسلمین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا نام خصوصیت کے ساتھ لیا جاسکتا ہے۔
قوم کے غیور اور متحس لوگو!
میں بہت درد کے ساتھ یہ بتلانا چاہتا ہوں کہ آپ کی بیچ موجود علمی شخصیات آپ کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں، اپنی صفوں میں اُن کی موجودگی کو غنیمت جان کر قدر کیجیے ،ان کے علم سے مستفید ہونے کی ہرممکن کوشش کیجیے،اُن کی جانب سازش کا بڑھنے والا ہر طوفان آپ سے قربانی کا مطالبہ کرتا ہے ،اپنے اندر اتنی ہمت پیدا کیجیے کہ اپنا ہو یا پرایا اُن کی جانب اگر کوئ حاسدانہ یا معاندانہ نظر ڈالے تو آپ ڈھال بن کر کھڑے ہوجائیں کیونکہ وہ آپ کی قوم کے عظیم سرمایے ہیں، آپ کے افتخار کی علامت ہیں، آپ کی آبرو کی نشانی ہیں۔
اس بات کو ہمیشہ کے لیے صفحہء دل پہ رقم کرلیجیے کہ اگر آپ ان کی اہمیت کو نہیں سمجھیں گے ،ضرورت پڑنے پر ان کے دفاع کے لیے اُٹھ کھڑے نہیں ہوں گے، دس طرح کی سازشوں کے شکار ہوکر یہ کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا کہ :اپنے گھر کے لوگوں کے خلاف ہی محاذ کھول دیں گے تو تاریخ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی کیونکہ جب کسی بھی قوم میں علم والے بےآبرو کیے جاتے ہیں، سماج اُنہیں ذلیل کرنے پہ آمادہ ہوتا ہے، لوگ طعنے کستے ہیں، ان کی کردار کشی کی گندی سازشیں کی جاتی ہے تو اللہ کی رحمتیں روٹھ جاتی ہیں-
یاد رکھیے ! آج اگر آپ غفلت میں رہے تو کل آپ کے دامن میں بےبسی اور لاچارگی کے آنسو کے سوا کچھ نہیں ہوگا –