ذاکر حسین
علیحدگی پسند لیڈر اور حریت کانفرنس (گ )کے سربراہ سید علی گیلانی نے گزشتہ روز الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 27برس کے عرصہ میں کشمیر میں تقریباًایک لاکھ سے زائد انسانوں کو موت کی وادیوں میں پہنچایا جا چکاہے اور لگ بھگ اتنی ہی تعداد میں فرضی گرفتاریوں کے ذریعے محروسین کو جسمانی اور ذہنی تکلیف دی گئی ہے ۔علیحدگی پسندلیڈرمسٹر گیلانی کی مانیں تو خطے میں اب تک 10 ہزار افراد حراست کے بعدلاپتہ کر دئے گئے ہیں۔اس کے علاوہ سید علی گیلانی نے کشمیر میں خواتین کی عصمت دری اور دست درازی کا بھی الزام عائد کیا ہے ۔اگر مسٹر گیلانی کی بات پر اعتبار کیا جائے تو وادی میں اب تک ساڑھے سات ہزار خواتین کو اجتماعی عصمت دری اور دست درازی کا نشانہ بنایا گیا ہے ۔لیکن سید علی گیلانی کے برعکس میڈیا میں کچھ اورہی باتیں گردش کرتی ہیں ۔اب اگر میڈیااور علیحدگی پسند لیڈران کے بیانات پر ٖغور کیا جائے تودونوں کے بیانوں میں تفریق یہ ظاہر کرتی ہیکہ دونوں میں کسی ایک کا بیان غلط بیانی پر مبنی ہے ۔ بہرحال وادی کشمیر میں سیکورٹی فورسیز اور کشمیری عوام کے درمیان جاری مذاحمت ملک کے سیکورٹی نظام کیلئے باعث تشویش ہے ۔کیونکہ کشمیر میں جاری پُرتشدد مذاحمت کا جہاں پڑوسی ملک فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا تو وہیں دوسری جانب ملک میں موجو دتخریب پسند عناصر کشمیری نوجوانوں کو ملک کے خلاف بھڑ کاکر خانہ جنگی جیسی صورتحال پیدا کر سکتے ہیں۔اس لئے اربابِ اقتدار کو کشمیر ی عوام کو اعتماد میں لیتے ہوئے کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے مناسب اور مثبت پیشِ رفت کرنے کی سخت ضرورت ہے ۔موجودہ مرکزی اور ریاستی دونوں حکومتوں کیلئے یہ تشویش کا مقام ہیکہ تقریباًدہ ماہ سے وادی میں جاری تشدد پر دونوں حکومتیں قابو نہیں پاسکی ہیں۔مرکزی حکومت کو اس پر غور و فکر کرنا چاہئے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی زیرِقیادت والی این ڈی اے کے دور میں کشمیر کی صورتحال مزید ابتر ہو گئی ہے اوریہ بھی فکر مندی کا پہلو ہیکہ کشمیر کے مسئلے کو جس طرح حل کرنے کی کوشش موجودہ مرکزی حکومت کی جانب سے جاری ہے اس کا کوئی بھی ثبت حل نکلنا صرف مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔اربابِ اقتدار کو اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہیکہ ایک دو نہیں بلکہ لگ بھگ ۹۰ فیصد کشمیری عوام مرکزی حکومت سے نالاں ہے۔کشمیر میں جگہ جگہ ہندوستان مخالف نعرے بلند ہوتے ہیں ۔کشمیر میں پاکستان کی حمایت میں نعرے بلند ہو نا ملک کے حفاظتی نظام کیلئے بہت فکرمند کر دینے والاہے ۔میڈیا کا منفی رول بھی کشمیر میں جلتی آگ میں گھی کا کام کر رہا ہے ۔نیوز چینلوں کے ناظم حضرات چیخ چٰخ کر کہتے سنے جا سکتے ہیں کہ آخر کشمیر کے لوگ کیا چاہتے ہیں ۔میرے خیال سے میڈیا اینکرز کو ایک بار کشمیر ی علیحدگی پسند لیڈر اور کشمیری عوام کو میڈیا کے سامنے لاکر ان سے پوچھ لینا چاہئے کہ آپ لوگ اور کشمیر کی عوام کیا چاہتی ہے ۔اگر مرکزی حکومت میں خطے میں امن کے قیام کو لیکر سنجیدہ ہے تو اسے چاہئے کہ سب سے پہلے سیکورٹی فورسیز کے ذریعے کشمیر میں پیلٹ گن کے استعما ل پر پوری طرح پابندی عائد کرے ۔کیونکہ کشمیر ی عوام پر پیلٹ گن کا استعمال کشمیر میں جاری تشدد کو مزید ہوا دینا ہے ۔معروف صحافی اور کالم نگار افتخار گیلانی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں۔’’تل ابیب میں اسرائیلی وزیر اعظم کے مشیر ڈیوڈ رائزنر بریفنگ دے رہے تھے چونکہ رائزنر اسرائیلی فوج میں ایک اہم عہدے پر فائز رہ چکے تھے اور لبنان جنگ کے موقع پر انہوں نے ایک بریگیڈ کی بھی کمان سنبھالی تھی ۔اس کے علاوہ انتفاضہ کے دوران بھی فوج اور پولس میں اہم عہدوں پر براجمان تھے ،صحافی رائزنر سے یہ جاننے کیلئے بیتاب تھے کہ آخر وہ غیر مسلح فلسطینی مظاہرین سے کیسے نپٹتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ 1987 کے انتفاضہ کے دوران ان کی آرمی اور پولس نے پوائنٹ 4 کے پیلٹ گن استعمال کئے تھے ۔مگر اس کے نتائج کا تجربہ کرنے کے بعد ان پیلٹس گن پر پابندی عائد کی گئی ۔ان ہتھیاروں کی کھیپ اب اسلحہ خانوں میں زنگ کھا رہی ہے ۔جس کمپنی نے یہ ہتھیار بنائے اس نے اسرائیلی حکومت کو یہ آفر دیاتھا کہ وہ پوائنٹ 9 کے پیلٹ بنائے گی،جو نسبتاً کم خطرناک ہونگے ۔مگر اس وقت تک اسرائیلی حکومت نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا ‘‘ اب اسی پیلٹ گن کو کشمیر ی عوام پر استعمال کرنے کیلئے وزیر داخلہ نے درآمد کئے ۔کشمیر کی ایک حیرت انگیز بات یہ بھی عرض کرتا چلوں جو خاکسار کو معروف کالم نویس افتخار گیلانی کی مرہونِ منت ہے ۔جنوبی کشمیر کے تحصیل لنگیٹ کا ایک سر سبز اور حد درجہ خوبصورت مقام ریشی واری ہے ۔پورا علاقہ قدرتی خوبصورتی سے لبریز ہے جگہ جگہ خوشبودار پھولوں سے اس علاقے میں جانے والوں پر ایک سحر سا طاری ہو جاتا ہے ۔پہاڑی نالوں اور جنگلوں کی وجہ سے پورا علاقہ ایک ایسا نقشہ پیش کرتا ہے جو اب صرف کہانیوں ،افسانوں اور فلموں مٰیں پڑھنے اور دیکھنے کو ملتا ہے ۔جنوبی کشمیر کا ریشی واری میں جس حیرت انگیز چیز کی بات ہو رہی تھی وہ یہ کہ ریشی واری کے سبھی گھروں کی دوسری منزل پر فوجی اہلکار وں کا سخت پہرہ رہتا ہے اور گھروں کی پہلی منزل پر گھر کے افراد خوف و ہراس میں زندگی کے دن گذار رہے ہیں۔اتنی سخت سیکورٹی شاید دنیا کے کسی خطے میں شاز ونادر نظر آئے ۔لیکن میڈیا کی تنگ نظری کہئے یا پھر کشمیر کے تئیں میڈیا کا سوتیلا رویہ کہ ابھی تک کشمیر کے مسائل کو منظرِعام پر نہیں آسکے ہیں۔
الفلاح فرنٹ ،سیدھا سلطان پور،اعظم گڑھ
hussainzakir650@gmail.com