احمد شہزاد قاسمی
ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات یا تو خالص سیاسی مقاصد کے لےء بعض پارٹیوں کی طرف سے بہانے پیدا کر کے کراےء جاتے ہیں یا پھر ان فسادات کے پیچھے وہ ذہنیت ہو تی ہے جو ایک خاص تہذیب کو پورے ملک پر مسلط کر نے کے عشق میں ازخود رفتہ ہو چکے ہے ۔مذکورہ ذہنیت کے حامل افراد کا مقصد چونکہ محض یہی ہو تا ہے کہ مسلمان اس ملک میں احساسِ بیچارگی و بے بسی کے ساتھ اور دوسروں کی چشم وابرو کے اشاروں پر زندگی گزارنے پر آمادہ ہو جائے اس لئے انکی خواہ مخواہ کی فتنہ جو طبیعت بے بات کے بتنگڑ بناکر امن سوز حالات پیدا کر دیتی ہے ۔ملک میں بیس سے زیادہ ایسی سیاسی پارٹیاں ہیں جو اپنے اپنے علاقوں میں مقبول ومعتبر ہیں اور وقفہ وقفہ سے اپنی اپنی ریاستوں میں حزبِ اقتدار کا کردار ادا کرتی رہتی ہیں مزے کی بات یہ ہیکہ کانگریس سمیت یہ سبھی علاقاء پارٹیاں خود کو سیکولرازم اور قومی یکجہتی کا علمبر دار سمجھتی ہیں جبکہ فرقہ پرستی تفریق منافرت اور ہندو احیا پرستی کا لزام صرف بی جے پی اور اسکی ہم نوا ہندو تنظیموں پر ہی عائد کرتی ہیں حالانکہ ان سیکولر پارٹیوں کی کارکردگی اوراقلیتوں سے بے اعتناء اس بات کی دلیل ہے کہ صرف قول کی حد تک ہی یہ سیاسی جماعتیں اپنے سیکولرازم کے دعوی میں برحق ہیں ورنہ جہاں تک عمل کی بات ہے تو سبھی سیاسی پارٹیاں بی جے پی کا ہی چربہ ہیں
بابری مسجد کی شہادت علی گڑھ بنارس میرٹھ مرادآباد بجنور مظفرنگر جمشید پور بھاگل پور مبارک پور اور ممبئی وغیرہ کے مسلم کش فسادات غیر بی جے پی حکومت میں ہی رونما ہوےء لیکن آج تک کسی بھی سیکولر پارٹی نے فسادیوں کو انکے کئے کی قرار واقعی سزا دینے کی ہمت نہیں دکھاء اور نہ ہی فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کی سرکاری سطح پر قابلِ اطمینان کوشش کی ۔2014 کے عام انتخابات سے قبل یوپی کے مظفر نگر میں جو کچھ ہوا اس کو گجرات کا تکرار ہی کہا جا سکتاہے مو جودہ اکھلیش حکو مت میں 600 سو سے زیادہ فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں جنمیں سینکڑوں مسلمانوں کی قیمتی جانوں کا اتلاف اور کروڑوں کا مالی نقصان ہوا۔
مایا حکومت میں بھی فسادات ہوتے ہیں تاہم صورتِ حال اس سے مختلف ہو تی ہے نقصانات کے اعداد وشمار سماجوادی دورِ اقتدار میں زیادہ اور مایا وتی دورِ اقتدار میں کم ہو تے ہیں سچی بات یہ ہیکہ حکو مت کسی کی بھی ہو نقصان مسلمان کا ہی ہوتا ہے مسلمانوں کے عظیم نقصانات اور اور انکے ساتھ کئے گئے بہیمانہ ظلم وتشدد پر حکمراں پارٹی کی سرد مہری سے فرقہ پرستی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور فرقہ پرستی کا بھوت روز نت نء شکل میں بھیانک سے بھیانک تر ہو تا جارہا ہے ہریانہ میں گؤ رکشک کے نام پر ایک مسلم گھرانہ کی دو بچیوں کی آبرو ریزی اور دو لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا فرقہ پرستی کی بڑھتی ہوء شکل ہے ہم نے شروع میں لکھا تھا کہ فرقہ وارانہ فسادات سیاسی مقاصد کے لئے بعض پارٹیوں کی طرف سے کرائے جاتے ہیں اب چونکہ یوپی اسمبلی کے انتخابات بالکل قریب ہیں اس لئے یوپی میں ایسے واقعات ہو رہے ہیں جو کسی وقت بھی بڑے فساد کی شکل اختیار کر سکتے ہیں
گزشتہ 16 ستمبر کو “بجنور” سے متصل گاؤں “پیدہ” کی مسلم لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کے معاملہ نے اتنا طول پکڑا کہ ایک ہی خاندان کے تین لوگوں کی جان چلی گء اور ایک درجن سے زائد شدید زخمی ہوگئے ہر بڑے فساد کی ابتدا عموما اس قسم.کی چھیڑ چھاڑ شرارت ہا دھاند لی سے ہی ہوتی ہے ستمبر 2013 میں مظفر نگر کے گاؤں “کوال “میں اسی قسم کی چھیڑ چھاڑ سینکڑوں جانوں کے اتلاف پر منتج ہوئے ،لیکن بجنور کے مسلمانوں کی دور اندیشی ضبط تحمل اور بھاری پن نے مظفر نگر کے منظر کا اعادہ نہیں ہونے دیا ایک بات جو فرقہ وارانہ فسادات میں سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے وہ یہ ہیکہ پولیس بھی اگر فرقہ پرستی کے اس کھیل میں شریک ہو نا چاہے تو وہ بھی کچھ بہانے تراش لیتی ہے اور حکو مت کو بھی انصاف سے کترانے کے لئے کسی نہ کسی چیز کا سہارا مل ہی جاتا ہے
بجنور کے حالیہ واقعہ میں پولیس اہلکاروں پر فسادیوں کی پشت پناہی اور شریکِ جرم ہو نے کا الزام ہے حکومت کی طرف سے کاررواء کے نام ایک داروغہ اور دو سپاہیوں کو معطل کردیا گیا(جو جلد ہی بحال ہو جائینگے اسکے علاوہ جاٹ حملہ آوروں کے چند افراد گرفتار کر کے حکومتی ذمہ داری پوری کر دی گئی۔
مسلم قیادت کے لئے یہ لمحہء فکریہ ہے کہ یہ سیکولر پارٹیاں جو بی جے پر فرقہ پرستی کا الزام لگاتی ہیں اور بی جے پی کا خوف دکھاکر مسلم ووٹوں کے ذریعہ اقتدار میں آجاتی ہیں لیکن باوجود اقتدار میں ہو نے کے اپنی اپنی ریاستوں میں فرقہ پرستی پر لگام نہیں لگا پارہیں فساد متاثرین کے ساتھ انصاف نہیں کر پارہیں مسلمانوں کے تحفظ کو یقینی نہیں بنا پارہیں
مسلمان انصاف کی تلاش میں کبھی بہوجن سماج پارٹی کی طرف دوڑتے ہیں کبھی ملائم سنگھ کو گلے لگاتے ہیں کبھ لالو اور نتیش سے ہاتھ ملاتے ہیں لیکن انصاف کی حسرت میں تلملا کے رہ جاتے ہیں ایسی صورت میں نہ تو ان پارٹیوں کے پاس یہ جواز رہ گیا ہے کہ وہ خود کو غیر فرقہ پرست اور بی جے پی کو فرقہ پرست گردانیں اور نہ ہی مسلم لیڈر شپ کو انصاف اور حقوق کی بازیابی کے لئے بسپا اور سپاپر مکمل اعتماد کر کے مسلم ووٹروں کو انکی طرف گھسیٹنا چاہئے
ہندوستانی مسلمان نہ تو جاٹوں کی طرح واویلا مچا سکتے ہیں اور نہ ہی پٹیلوں کی طرح تحریک چلاسکتے ہیں البتہ اپنے حقوق کی بازیابی اور اپنے جان مال کے تحفظ کو یقینی بنا نے کے لئے جمہوری طریقہ اپنا سکتے ہیں اسکے لئے مسلمانوں کو اپنی سیاسی طاقت بنانی ہو گی اپنے ووٹوں سے بسپا سپا جدیو آر جے ڈی وغیرہ کی جھولی بھرنے کی بجائے ان پارٹیوں سے اتحاد کر نا ہو گا ملی ومذہبی تنظیموں کے سر براہوں کو ایک وفاق بناکر مذکورہ پارٹیوں کے صدور سے یہ معاہدہ کر نا ہوگا کہ آپ اپنی پارٹی سے اتنے امیدوار ہماری پسند کے میدان میں اتارینگے مذکورہ امیدواروں کے حق میں مسلم ووٹوں کی ذمہ داری ہماری اور ہندو ووٹوں کی ذمہ داری تمہاری ہوگی
اس طرح سے جب ایک معتد بہ مقدار اسمبلی میں ان ممبروں کی ہوگی جنکی پشت پر مسلم تنظیموں کا متحدہ پلیٹ فارم ہو گا اور یہ ممبران کسی بھی حکومت کو بنانے اور بگاڑنے کی طاقت رکھتے ہونگے تو کسی بھی حکمراں پارٹی کو مسلم مسائل سے چشم پوشی کرنا ممکن نہیں ہوگا
ملی رہنما جب یہ آواز لگا سکتے ہیں کہ جو امیدوار بی جے پی کو ہرائے اسے ووٹ دو تو کیا اپنی سیاسی طاقت بنانے کے لئے آگے نہیں آسکتے اتر پریش کے آئندہ انتخابات میں اسکا تجربہ کیا جا سکتا ہے یہ غافل بیٹھے رہنے کا وقت نہیں اگر اپنی سیاسی طاقت نہیں بناء گء تو بھیانک سے بھیانک نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہنا چاہئے
سیکولر پارٹیاں قول کے لحاظ سے نرم اور عمل کے لحاظ سے ایک ظالم انسان کا کردار نبھا رہی ہیں لوجہاد بیف گھر واپسی بھارت ماتا کی جے اور گؤ رکشک کے نام پر قتل وعصمت دری یہ سب پیش خیمہ ہے آنے والی اس مصیبت کا جس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا فرقہ پرستوں نے کیسے کیسے داؤ پیچ بچاکے رکھیں ہیں اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔
چھپاکر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردوں نے
عنادِل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں
(ملت ٹائمز)