ڈرامہ ارطغرل پرفتوی اور ڈیجیٹل تصویر کے جواز و عدم جواز کی بحث

  وارث مظہری 

مشہورترکی ڈرامے”ارطغرل“ سے متعلق ملک کے ایک نہایت موقر ادارے کی طرف سے عدم جواز کے فتوے پر علمی حلقوں میں بحث وگفتگو جاری ہے۔ متعلقہ ادارے کے ایک جید اور نامور فاضل مولانا برہان الدین قاسمی (ڈائرکٹر مرکزالمعارف،ممبئی و مدیر انگریزی ماہنامہ ”ایسٹرن کریسنٹ“) نے اس فتوی کی شدیدمخالفت کرتے ہوئے انگریزی اور اردو میں ایک تفصیلی مضمون شائع کیا ہے جس کی ابتدائی سطور میں انہوں نے اس پہلو پر اظہار خیال کیا ہے کہ کسی ایک ادارے یا علما کی جماعت کے فہم دین کو معیاری اور مستند تصور کرکے ان کے سامنے سرتسلیم خم کردینا ہماری دینی دانش مندی کا تقاضا نہیں ہے۔ علماء کی طرف سے پریس اور اس جیسی ایجادات کی مخالفت کا جو ناقابل تلافی نقصان ہوا، اس تاریخ کو دہرانے کی کوشش نہیں کی جانی چاہیے۔ یہ مقالہ مذکورہ میگزین کی سائٹ پرموجودہے)

دور جدید میں علما کا طبقہ اور اسلامی ادارے جن چند حوالوں سے میڈیا کی توجہ اور لوگو ں کی تنقید و مذمت کا نشانہ بنتے رہے ہیں، ان میں ایک افتا کا ادارہ بھی شامل ہے۔ افتا اور اجتہاد کا شعبۂ دین کا نہایت حساس شعبہ ہے۔ فتوی دینے کا عمل براہ راست منصب رسول سے تعلق رکھتا ہے۔ ایک مفتی یا عالم رسول اللہ کی نیابت میں اس کی ذمہ داری انجام دیتا ہے۔ اس میں کی گئی کوتاہی یا لا پروائی دین اور سماج کے پورے ڈھانچے کو متاثر کرتی ہے۔ تاہم یہ ادارہ جس قدر حساس و نازک ہے،اسی قدر اس تعلق سے بے احتیاطی اور کمزوری پائی جاتی ہے۔ سب سے بڑی کمزوری موجودہ دور کے مزاج اور اس کے سماجی و تہذیبی تقاضوں سے عدم واقفیت اور چشم پوشی ہے جن کو بظاہر دینی علمی شعور و شخصیت کا لازمہ تصور کرلیا گیا ہے۔

 افتا کے لیے امام احمد نے پانچ شرطوں میں سے ایک شرط یہ قرار دی ہے کہ مفتی لوگوں کے احوال کی واقفیت رکھنے والا ہو۔ لوگوں کے احوال کی واقفیت کا مطلب ہے: عصری اور سماجی شعورسے بہرہ ور ہونا، زمانی و مکانی احوال کی تبدیلیوں سے انسان کی سماجی زندگی پر پڑنے والے اثرات سے آگاہ ہونا،تمدنی ارتقا کے جلو میں پیدا ہونے والے نئے مسائل کو سمجھناوغیرہ۔ہمارے مفتیان کرام کی اکثریت سماج سے کٹی ہوئی ہے۔وہ سماج کے عام دھارے میں شامل نہیں ہے۔اس لیے درحقیقت وہ دور جدید کے مسائل کی بنیاد اور ان کی اصل حقیقت اور پس منظر سے ہی واقف نہیں ہوپاتی۔اما م محمد ؒبازارکی حقیقت جاننے کے لیے اس کا گشت کیا کرتے تھے۔تاکہ وہ اس تعلق سے صحیح دینی رہنمائی لوگو ں کو فراہم کرسکیں۔ایسا نہیں تھا کہ وہ مسئلے کوسمجھنے کے لیے صر ف ”صورت مسؤلہ“ پر بھروسہ کریں۔ایک بڑے دینی ادارے سے ”روبوٹ“ کے تعلق سے ایک مسئلہ پوچھا گیا تو اس کا جواب مفتیان کرام کے پورے پینل نے یہ دیا کہ ہم نہیں جانتے کہ روبوٹ کیا ہوتا ہے؟ناواقفیت کی یہی وہ صورت حال ہے جو دور جدید میں پرنٹنگ مشین،ٹیلی فون،لاؤڈ اسپیکر اورپیپر کرنسی، جیسی مفید ترین ایجادات کی بھی مخالفت کی صورت میں سامنے آئی اور اب بھی ٹیلی ویژن، ڈیجیٹل کیمرے اور ان جیسی چیزوں سے تعلق رکھنے والے پیشے اور کام علما کے حلقوں میں نظریاتی سطح پر حرام و ممنوع کے دائرے میں آتے ہیں۔ (یہ الگ بات ہے کہ تصویر کشی سمیت ایسی بہت سی چیزیں عملی سطح پر ان کے نزدیک مستحب کا درجہ رکھتی ہیں)ملک کے ایک قدیم اور نہایت باوقار دینی ادارے کا فتوی یہ ہے کہ ایسا ٹیلی ویژن چینل قائم ہونا چاہیے جس پرتصویر نہ آتی ہو۔اس قسم کی سادہ لوحی اسلامک اکٹوزم کے لیے کس قدر نقصان دہ ہے بتانے کی ضرورت نہیں۔ ایک طرف یہ جمود ہے اوردوسری طرف یہ شکوہ کہ مسلم مخالف میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ کو خراب کرنے کے لیے عالمی مہم چھیڑ رکھی ہے۔سوال یہ ہے کہ صرف دعا عمل کا بدل کیوں کر ہوسکتی ہے یا توپ کا مقابلہ غلیل سے کیسے کیا جاسکتا ہے؟الیکٹرانک میڈیا توا س تصور کے مطابق حرام ٹھہرا۔سوال یہ کہ پرنٹ میڈیا کا تصوربھی بغیر تصویر کے کیوں کر ممکن ہے؟ کون سا اسلامی معاشرہ ایسا ممکن ہے جسے ٹیلی ویژن کی لعنت سے پاک رکھا جاسکے؟دور جدید میں قرون وسطی کا پیوند کیوں کر لگایا جاسکتا ہے؟ اور صرف تقاریر اور فتاوی ان آلات کی کارکردگی کا بدل کیوں کر ہوسکتے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ آج اسلام اور اہل اسلام سے متعلق ذہنوں کی صحیح تشکیل،ان سے متعلق چلائ جانے والی نفرت کی مہم اور غلط فہمیوں کے ازالے میں ،مثال کے طور پر، ایک ڈاکومینٹری،غیر تفریحی سماجی فلم یا ڈرامہ ،جو بے حیائ اور لغویت سے پاک ہوں، عوامی سطح پر جو رول ادا کرسکتے ہیں، درجنوں کتابیں اس کا بدل نہیں ہوسکتیں۔ آرٹسٹ کے نوک قلم سے نکلے ہوئے کارٹون بسا اوقات درجنوں مقالوں کے مقابلے میں زیادہ موثر ہوتے ہیں، ان سب کو حرام و ممنوع کے خانے میں ڈال دینا دینی سادہ لوحی کی انتہا نہیں ہے تو اور کیا ہے؟ در حقیقت ہماری حالیہ ملی تاریخ میں بالعموم یہ ہوتا رہا ہے کہ اس طرح کے مسائل میں یا تو حکم رانوں کے ایما پر سر تسلیم خم کردیا گیا ورنہ دوسری صورت میں عوام نے بالکلیہ فتوے کی پروا کرنی چھوڑ دی تو “ابتلایے عام” کے جزئیے سے انہیں حلال سمجھا جانے لگا۔ یہ طے شدہ ہے،جس کی مثالیں لاتعداد ہیں،کہ فوٹو گرافی سمیت اس نوع کی دیگر چیزیں آنے والے وقتوں میں “بالکلیہ” حلال قرار پائیں گی۔جی ہاں لیکن تب تک پانی بہت بہہ چکا ہوگا اور اور ملت کا تہذیبی کارواں اپنی منزل سے ہزاروں کوس اور پیچھے ہوچکا ہوگا۔

ڈیجیٹل فوٹو گرافی سمیت اکثر ان مسائل میں جن پر تمدنی زندگی کا انحصار ہے،علمائے عرب نے مثبت موقف اختیار کیا ہے لیکن ہند وپاک کے علما کی اکثریت اب بھی ان مسائل میں تذبذب اور شدت پسندی کا شکار ہے۔ اشیا میں اصل چیز اباحت ہونے کے مسلمہ اصول کے باوجود محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے مفتیان کرام کے مزاج کی تشکیل تحریم و ممانعت کے اصول پر پر ہوئی ہے۔حالاں کہ رسول اللہ کا عمل ابن قیم نے ؒ یہ بتایا ہے کہ آپ اگر ازروے شریعت ایک دروازے کے بند ہونے کی وضاحت کرتے تھے تو عین اسی وقت دوسرے کھلے دروازے کی بھی نشان دہی فرماتے تھے۔(ابن قیم: اعلام الموقعین:4/122)۔مولانا اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں کہ:”یہ وقت ہے کہ مشتبہ کو بھی حلال کہا جاتا ہے نہ کہ حلال کو بھی اس میں شبہات نکال کر حرام کردیا جائے۔اس واسطے میں کہتا ہوں کہ فتوی میں تنگی نہ ہونا چاہیے….اختلافی مسائل اگر عام ہوں تو ان کو بھی جائز بتلائیے۔وجہ اس کی یہ ہے کہ شریعت میں وسعت ہے….اگر مختلف فیہ امور کو حرام بتلایا جائے گا تو اگر اس پر کوئی عمل کریگا تو اس کو تنگی ہوگی،جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ شریعت کو تنگ سمجھنے لگے گا۔اس کا (یعنی احکام میں آسانی فراہم کرنے کا)فائدہ یہ ہوگا کہ وسعت ہونے سے اعتقاد درست ہوگا کہ شریعت کیسی اچھی چیز ہے اور کیسی رحمت ہے۔وسعت دینے میں شریعت سے محبت ہوگی۔اس سے حق تعالی کی محبت غالب ہوگی(ورنہ) لوگوں کا تویہ گمان ہوگیا ہے کہ شریعت میں سواے ”لایجو ز“(ناجائز)کے کچھ ہے ہی نہیں۔“(التبلیغ15/67-69)

 ایسے امور میں جن کا تعلق جدید سماجی وتہذیبی تقاضوں سے ہے، ہمارے گوشہ نشیں مفتیان کرام کے لیے زیادہ مناسب ہے کہ وہ خاموشی کو اپنا شعار بنائیں۔ انہیں کسی نے اس بات کا مکلف نہیں کیا کہ وہ لامحالہ ہر سوال کا جواب دیں۔ کم ازکم اس سے اس ادارے کی بے وقاری تو نہ ہوگی۔حضرت عبداللہ ابن مسعود اور عبداللہ ابن عباس سے مروی ہے کہ جو شخص ہرسوال کا جواب (فتوی)دیتا ہے وہ پاگل(مجنون) ہے(اعلام الموقعین2/127)۔ اصحاب رسول میں فتوی دینے والے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی۔صحابہ کا مزاج کیا تھا؟ ابن ابی لیلی فرماتے ہیں کہ:میں ایک سو بیس صحابہ سے ملا ان میں سے ہرکسی کی خواہش یہ ہوتی تھی کہ ان کی جگہ کوئی اور صحابی حدیث بیان کردے یا فتوی دے دے۔(ایضا1/27)

حقیقت یہ ہے کہ ملک میں فتوی کے ادارے کی باضابطہ تنظیم وترتیب نو کی ضرورت ہے۔

سب سے پہلی اور اہم بات یہ ہے کہ ہمارے دینی مدارس کاموجودہ نصاب اپنے ناقص اسلوب تدریس کے ساتھ زمانی و مکانی حالات اور تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔اس کی سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ سماجی علوم کے اس میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے یہ نصاب مدارس کے فضلا کے اندر سماجی شعور،عصری مسائل اور تمدنی تقاضوں اور چیلنجوں کا فہم پیدا کرنے سے قاصر ہے۔ مولانا سعید احمد اکبر آبادی لکھتے ہیں:

”ایک خاص قسم کے نصاب اور ایک خاص ماحول وفضا اور طرز رہائش کے باعث یہ مدارس عمومی طور پر ایسے افراد کو پیدا کرنے سے قاصر رہے ہیں جو عہد حاضر کے علمی، سماجی اور تہذیبی مسائل ومعاملات میں اپنی شان کے مطابق مسلمانوں کی مثبت قیادت کا فرض ادا کرنے کے قابل ہوں“(عربی اسلامی مدارس کا نصاب و نظام تعلیم: ج:1، ص: 88)

دوسری اہم بات یہ ہے کہ افتا کی ذمہ داری کی ادائگی کے لیے صرف ایک سال کی تربیت بالکل ناکافی ہے۔اس کے لیے سالوں کی مدت درکار ہے۔پھراس کا نظام جیسا کچھ بڑے مدارس میں پایا جاتا ہے(چھوٹے کا تو پوچھنا ہی کیا؟) وہ حد درجہ ناقابل اطمینان ہے۔تربیت کے نام پرزیادہ تر بس فتاوی کی مختلف کتابوں سے نقل فتاوی کی مشق کرائی جاتی ہے۔ حالاں کہ اصول فقہ واجتہاد کی روشنی میں خود طلبہ کے اندر اجتہاداوراستنباط مسائل کی قابلیت پیدا کرنے کی ضرورت تھی۔پہلے تو یہ رونا تھا کہ صرف ”شامی“،”تاتارخانیہ“ اور”عالم گیری“ کو ہی سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے،اب تو یہ رونا ہے کہ فضلاے مدارس کی اکثریت ان کتابوں کو بھی پڑھنے سمجھنے کی اہل نہیں رہی۔اب انحصار صرف دور حاضر کے مفتیان ہند و پاک کے اردو فتاوی پر ہے اور اس نے ایک مستقل کاروبار کی شکل اختیار کرلی ہے۔ حقیقت یہ کہ 99% فیصد ضرورت انھی کتابوں سے پوری ہوجاتی ہے۔ اس لیے ان سے اوپر جانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر محمود احمدغازی کی نظر میں آج کی گلوبلائزڈ دنیا کے لیے”گلوبل فقہ“ ( ان کی اصطلاح میں الفقہ العولمی) کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹرصاحب اپنے علم وفضل کے اعتبار سے اگرچہ ہمارے مدارس کے ہزاروں علما وفاضلین پر بھاری ہوں، لیکن چوں کہ ایک روایتی عالم کی شناخت نہیں رکھتے تھے۔اس لیے ان کو بھلا کون اہمیت دے گا؟

 حالیہ عرصے میں فتوی کے تعلق سے افراط و تفریط کے پیش نظرمصر،سعودی عرب،مراکش اور دوسرے مسلم ممالک نے باضابطہ اس پر احتساب(accountability) قائم کیا ہے۔اگر ایسا پہلے کیا جاسکتا تو ان ممالک سے حالیہ ایام میں جو مضحکہ خیز فتاوی اسلام اور مسلمانوں کی جگ ہنسائی کا باعث ہوئے ہیں،ان کی جواب دہی ان مفتیان کرام سے کی جاسکتی تھی۔علامہ ابن تیمیہ سے کسی نے فتوی کے ادارے پر احتساب کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ جب روٹی بنانے والوں اور باورچیوں پر احتساب ہوتا ہے تو ان پرکیوں نہیں؟(اعلام الموقعین:4/167)ہندوستان جمہوی ملک ہے۔یہاں کوئی اتھارٹی کسی کو اس سے روک نہیں سکتی۔یہ مسلمانوں کے ارباب حل عقد،دینی اداروں کے ذمہ داران کے باہمی تبادلہ افکار سے آپس میں طے کرنے کی بات ہے کہ کن شرائط کے ساتھ، کس طرح کے مسائل میں کن اداروں اور افراد کو اس کا مجاز گردانا جائے؟تاکہ”ان وانٹیڈ“(unwanted) مدارس کی طرح ان وانٹیڈ دارالافتاؤں کی بہتات کو روکا جاسکے۔ اس کے لیے میرے خیال میں خود مدارس کے علماکے اتفاق راے سے ایک ملک گیر فتوی بورڈ کی تشکیل کی ضرورت ہے،جوجدید سیاسی وسماجی مسائل میں غور خوض اور تحقیق کے ساتھ اپنی رائے دے اور اسی رائے کے مطابق ملک کے دار الافتا ؤں سے فتوے صادر کیے جائیں۔اس میں تمام مسالک، بشمول اہل تشیع، کے اہم مدارس اور ان کے نمائندہ علما کی نمائندگی ہو۔ اس بورڈ میں اہمیت کے ساتھ سماجی علوم کے ماہرین کی ایک کمیٹی شامل ہو جس سے ایسے مسائل میں مشورہ اورتعاون لیا جاسکے۔ میرے خیال میں جب تک ایسا نہ ہو،طب، معاشیات،سیاست، تعلیم اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے انتہائی اہم مسائل کے حوالے سے صحیح شرعی موقف اختیار کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ نیز فتوی کے حوالے سے انتشار اوراس انتشار سے علما اور دینی اداروں کے تعلق سے پیدا ہونے والی بے اعتمادی اور بے وقاری کے سلسلے کو ختم نہیں کیا جاسکے گا۔