حضرت مفتی سعید احمد پالنپوریؒ ایک جہان ِعلم ، نابغۂ روزگار اور شہ دیں کے ترجمان
مولانا کبیرالدین فاران مظاہری
دنیائے رنگ وبو اور چمنستان گل و لالہ میں نہ جانے کتنی کلیاں کھلیں اور مر جھا گئیں، کتنے آئے اور چلے گئے ایک دن وہ بھی آئے گا کہ ہم اورآپ بھی عشرت کدَہ عالم کو چھوڑ چلیں گے اسی طرح یہ رہتی دنیا تک سلسلہ جاری رہے گا ۔
یہ ایک قابلِ تسلیم حقیقت ہے کہ اس چہار دانگ عالم میں ایسے لوگ بھی آئے جن کے چلے جانے کا نہ صرف یہ کہ انکا کنبہ سوگوار ہوا بلکہ بستیوں،محلوں ،شہرو ں اور دیاروں میں صفِ ماتم بچھ گئی ،مے کدہ¿ علم و تحقیق میں ویرانی چھا گئی ،علمی دنیا میں سناٹا برپا ہوگیا اور جام و ساقی کی محفلیں سونی پڑ گئیں۔
انہیں نابغۂ روز گار ہستیوں میں عزم وعمل کے کوہ گراں جرأت و عظیمت کے پہاڑ ، عالم جلیل محقق دوراں ، فکر نانوتویؒ کے امین، رموز ولی اللٰہی کے شارح ، اسلاف کے علمی و روحانی کارناموں کے رمز شناس ، فقیہ النفس، جامع علوم وفنون ، سادگی و متانت کے عکس جمیل، شفقت و محبت کی تصویر دار العلوم دیوبند کے انمول ہیرا اور در نایاب حضرت علامہ مفتی سعید احمد پالنپور ؒکی ذات ستودہ صد صفات تھی جو گنجینۂ علم و عرفاں ، احقاق حق دین کے ترجمان، دین حق کے علمبردار، دار العلوم دیوبند کے مسند حدیث کی زینت اور متعدد علمی و تحقیقی شعبوں کے روح رواں تھے وہ مختصر علالت کے بعد بمبئی عظمی کے ہاسپٹل سنجیونی ملاڈ میں ۱۹مئی ۲۰۲۰ مطابق ۲۵ رمضان المبارک۱۴۴۱ھ روز منگل بوقت چاشت داغ فراق دے گئے اور ممبئی کے علاقے جوگیشوری میں اوشیورہ مسلم قبرستان نے اس مہ پارہ کو اپنے سےنے میں سمو لیا۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
تیرے جانے سے اس طرح چھائی ہے خزاں
ہر کلی ہے نوحہ گر ، ہر پھول کے آنسوں رواں
حضرت مفتی صاحب ؒ بچپن سے ہی ذہین و فطین ، کتب بینی اورمحنت کے شیدائی، مختلف علوم و فنون بطور خاص فقہ اور حدیث میں امتیازی مقام کے حامل تھے ۔ اللہ رب العزت نے آپ کوصغر سنی میں ہی تمام جلوہ سامانیوں سے مزین فرمایا تھا جس والدہ کی گود نے انہیں پالا پوسا وہ ایک صالحہ خاتون خانہ اور دینی وضع کی ایک پارسا عورت تھیں، اسی علمی و تربیتی گود میں آپ نے آنکھیں کھولی تھیں اسی کا اثر تھا کہ بچپن سے ہی حضرت مفتی صاحب کو دینی ذوق، علمی شغف اور اخلاق حمیدہ کا تحفہ اسی آغوش کی تربیت کا نتیجہ تھا ۔
آپ ؒ نے ایک جواب میں ارشاد فرمایا تھا کہ” میری ذہنی تربیت اور نشو نماں میں گھریلو ماحول کے علاوہ حجۃ الاسلام حضرت اقدس مولانا محمد قاسم نانوتویؒ قدس سرہ کی ذات ستودہ صفات کو خاص دخل ہے ، جس شخصیت کی چھاپ میرے ذہن و دماغ پر ہے وہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ہیں، جن کی فہم و فراست سے میں بیحد متأثر ہوں وہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ ؒہیں، حضرت عمرؓ کی ہمہ گیر شخصیت کو اپنے لئے بہترین اسوہ پاتا ہوں اور نبی آخرالزماں حضرت محمد ﷺ کے تو ہم امتی ہی ہیں۔
اسی طرح رسل و رسائل پڑھنا میرے نظام الاوقات میں اس کے لئے کوئی گنجائش نہیں ، شعر و شاعری کا ذوق نہیں البتہ یہ اشعار میرے لئے پڑھنا اور گنگنانا نیک بختی کی علامت رہی ہے۔
یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من و جہک المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثناءکما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ تو ئی قصہ مختصر
انہیں برگ و بارگی کی خوشہ چینیوں نے حضرت مفتی صاحب کی شخصیت کو کندن اور قابلِ تقلید ذات بنا دیا تھا
کہنے کو تو گل ہوا ہے فقط ایک ہی چراغ
سچ پوچھئے تو بزم کی رونق چلی گئی
آپ کی تعلیم کی شروعات اپنے گھر ،گجرات کے مدارس اور اعلیٰ تعلیم کےلئے جامعہ مظاہر علوم سہارنپوربعدہ ازہر ہند دار العلوم دیوبند کا انتخاب علمی تعمق کےلئے کیا۔
طالب علمی کے آخری پڑاؤ کو پہلے کی طرح نہایت محنت و لگن اور جانفشانی سے پار کر ہم اثروں میں تفوق اور امتیا زنے آپ کو دا ر العلوم دیوبند جےسے وقیع اور نامور د رسگاہ کے فائق استاذ کی مسند پر متمکن فرمایا، اپنے مادر علمی کے صف اول کے استاذ اور مسند شیخ الحدیث اور نظام تدریس کے صدر باوقار اور علمی شعبوں کے ناظم اور فقہی مجالس کے نگران اعلی بنائے گئے۔
آپ کی در سگاہ کی قبولیت ومحبوبیت اور افہام وتفہیم کی جلوہ افشانیوں سے مشرق و مغرب کے تشنگان علوم سیرابی حاصل کرنے کےلئے کھیپ در کھیپ استفادہ کےلئے امنڈتے، آپ نہ سر سری مطالعہ اور بکھری غیر مستند روایتوں کو ڈھوتے بلکہ کتابوں کے مواد کو تحقیق کی چھلنی میں چھان پھٹک کر سہل اور شیریں گھونٹ تشنگان علم و فن کو پلاتے ، مضامین کو سلیقہ مندی اور سلجھی ہوئی زبان میں اس طرح بیان فرماتے کہ طالب علم سبق آسانی سے سمجھ لیتا ، اچھوتے طرز تکلم اور علمی جواہر پاروں کے موتی بکھیرتے اسی میں ان کی درسگاہ کی مقبولیت کا راز پیوست تھا جسے طالبان علوم نبوت نے ہمیشہ قدر کی نگاہوں سے دیکھا اور استفادہ کیا۔
اللہ نے انہیں تحقیق و جستجو، تعلیمی ذوق و مزاج اور دینی فکرو آگہی کی دولت سے بھی مالامال فرمایا تھا ۔ انگلینڈ کی ایک مجلس میں فرمایا کہ ” دینی تعلیم کو عام کرنے کےلئے بچوں کو ٹوپی اور کرتہ پہناؤ کہ اس سے دینی تعلیم کا شوق پیدا ہوگا بچوں میں بھی اور ماں باپ میں بھی اوراگر دینی تعلیم عام کرنا ہو تو اسلامی لباس بھی عام کرو “
حضرت مفتی صاحب ؒ کا اظہار حق کا اپنا انداز تھا ، مرعوبیت ان سے کوسو دور تھی وہ غلط اور باطل نظریات کو دیکھ کر خاموش رہنا جرم عظیم سمجھتے تھے۔ کیونکہ بزدلی کی کوکھ سے جنم لینے والی مصلحت کی چادر دنیا کے سامنے تو تن ڈھانپ دیتی ہے لیکن ضمیر کی عدالت میں وہ بندہ برہنہ ہی رہتا ہے اور جب روح کو چپ اور سکوت ڈس جائے تو اندر سے بیشمار قبریں وجود میں آجاتی ہیں۔
حضرت مفتی صاحبؒ کو اللہ نے جہاں دیگر بیشمار صلاحیتوں سے نوازا تھا وہیں انہیں، تاریخی مقامات کی سیر اورمسلم حکومت اور مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستانوں سے عبرت و موعظت حاصل کرنے اور دنیا کو اس سے عبرت دلانے کا وافر جذبہ عطا فرمایا تھا۔ اس لئے بھی انہوں نے ایک بڑی دنیا کی سیاحت فرمائی تھی۔ انہوں نے ترکی ، استنبول ، قسطنطنیہ کا بھی سفر کیا وہاں کی سب سے قیمتی اور عبرتناک چیز وہ ایک محل ہے جس کا نام ” ڈولما باقی پیلیس “ ہے جس کی تعمیر میں سات حکومتیں پوری ہوئیں جس پر بے پناہ دولت کو خرچ کیا گیا۔ اس محل میں ۵۳ مطبخ ، ۵۶غسل خانے اور اس کی چھتوں کے اندر ۳۰۰ ٹن سونا لگایا گیا اور اس کے رنگ و روغن میں بھی تین سو ٹن سونے کا استعمال ہوا ۔ کمروں اور برآمدہ پر جو جھالر لگے ہوئے ہیں وہ بیش قیمت اور اربوں کھربوں کی دولت سے تیار ہوئے ہیں یہ اس قدر وسیع و عریض رقبے میں پھیلا ہوا ہے کہ ئے گائڈ نے بتایا کہ پورا محل دیکھنے میں تین ماہ کا وقت در کار ہے۔
حضرت مفتی صاحب ؒ نے فرمایا کہ ہم اس کمرہ میں گئے جہاں ان کا آخری تاجدار اور فرماروا جس نے ترکی گورنمینٹ کو تباہ کیا اور اسلامی حکومت اس پر ختم ہوئی ان کی والدہ کے کمرہ میں بھی گیا جس میں قد آدم ایک ننگی تصویر لٹکی تھی اور وہ بادشاہ جن کی چار بیویاں تھیں ان کے کمروں میں جو تصاویر تھیں اس کا تو پوچھنا ہی کیا۔ اخیر میں مجھ سے ساتھیوں نے پوچھا آپ کو کیسا لگا ؟ میں نے کہا بتاؤں ! جس مقصد کےلئے ترکی آیا تھا وہ اس محل کو دیکھ کر حاصل ہوگیا ۔ انہوں نے کہا وہ کیا ہے ؟ میں نے کہا یہ دیکھنے آیا تھا کہ اسلامی خلافت بنو عباسیہ کے ختم ہونے کے بعد ترکی خلافت آئی تھی وہ خلافت عثمانیہ پانچ سو سالوں تک رہی یہ پانچ سو سال خلافت عثمانیہ ہمارے پاس تھی اللہ نے ہم سے کیوں چھین لیا اس کے اسباب دیکھنے آیا تھا ۔ یہ محل دیکھ کر مجھے اطمینان ہوگیا کہ ہمارا استحقاق خلافت کا رہا ہی نہیں تو اللہ نے ہم سے لے لیا۔
اسی طرح ہندوستان کا آخری تاجداراور بادشاہ بہادر شاہ ظفر جس کی حکومت صرف لال قلعہ کے اندر محصور ہوکر رہ گئی تھی باہر کچھ نہیں بھی نہیں تھا جب اس نے ” زینت محل “ سے نکا ح کیا تو اپنی بیوی کا مہر پانچ لاکھ مقرر کیا وہ نکاح نامہ تانبے کی پلیٹ پر کندہ کیا گیا جو فارسی زبان میں تھا جس کی ادائیگی نصف نقد اور نصف ادھار کی شکل میں تھی۔ میں نے اس کو لندن کے برٹیش میوزیم میں دیکھا ۔
یہ وہ دور تھا جب ایک گائے صرف چھ روپئے میں مل جاتی تھی اس وقت اس نے ایک عورت کو پانچ لاکھ روپئے مہر دیا تو ملک برباد نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگا ۔ اللہ نے ہندوستان کی حکومت نو سو سال مسلمانوں کے پاس رکھی پھر اللہ نے ہم سے لے لی تو اللہ نے ہم پر کوئی ظلم نہیں کیا ہے۔ بلکہ خود ہم نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔
اللہ پاک کا ارشاد ہے ان اللہ لایغیر ما بقوم حتی یغیر ما بانفسہم یعنی اللہ پاک جب کسی قوم کو نعمتیں دےتے ہیں اور وہ قوم اس کی قدر نہیں کرتی تو اللہ اس صورت میں اس امت کا فیصلہ کر دیتا ہے۔ یعنی اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی روش کو نہیں بدلتی۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
مغل سمراٹ کے آخری فرما روا ابو ظفر سراج الدین محمد عرف بہادر شاہ ظفر ۲۴ اکتوبر ۱۷۷۵ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کے والد اکبر شاہ اور والدہ لال بائی تھیں ۱۸۵۷ء میں بھارتی فوجوں کیساتھ سامراجی فوجوں کو ہندوستان سے کھدیڑ نے اور اس سے لوہا لینے کےلئے یہ ایک مرد مجاہد تھے ، انہیں سامراجی حکومت نے گرفتار کر رنگون کی جیل میں بے یارو مددگار مقید کر دیا تھا جہاں وہ تمام تر اذیتوں کو صبر و استقلال سے برداشت کرتے رہے جب بھوک نے انہیں تڑپایا تو بطور استہزا ایک تھال میں ان کے لڑکے کو شہید کر کے سر کو تھال میں سجا کر سامنے رکھ دیا، بہادر شاہ ظفر نے تھال پوش کو اٹھا کر دیکھا کہ شہید بیٹے کا سر خون لت پت سامنے ہے تو آپ نے فوجیوں کو مخاطب ہوکر کہا ! خدا کا شکر ہے بیٹے کا چہرہ سرخ ہے سیاہ نہیں ۔ رنگون (برما) کی جیل میں ہی ۷ نومبر ۱۸۶۲ء کو جان جان آفریں کے حوالہ کر دیا ۔ ان کا مشہور شعر ان پر ہی صادق آگیا ۔
بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں
کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کےلئے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
آج بھی ہندو پاک بنگلہ دیش میں ان کے نام پر کئی سڑکوں کے نام ہیں جو اعتراف خدمات کا ایک عمدہ نمونہ ہے۔
حضرت مفتی صاحبؒ جہاں کہیں تشریف لے جاتے مدارس کے قیام، مضبوط تعلیم و تربیت اور ان کی خدمت و نصرت کی طرف لوگوں کو متوجہ فرماتے ، دیکھا گیا ہے کہ مدارس کی کوکھ سے جنم لےنے والے کو جب عروج ملتا ہے۔ تو اکثر مدارس والوں سے منھ پھیرتے نظر آتے ہیں ۔
افریقہ کے ایک سفر میں تبلیغی احباب سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تبلیغ کی محنت سے جو اصلاح ہوگی وہ عارضی ہوگی ۔ آج مروجہ دعوت کے طریقوں سے کئی قسم کی گمراہیاں وجود میں آرہی ہیں اور قرآن و حدیث کی غلط تشریحات ہورہی ہیں ۔ دراصل پائیدار ہدایت کا ذریعہ مدارس کی تعلیم ہے مدرسوں کے ذریعہ ہدایت کی بنیاد زبانی نہیں قرآن و حدیث کا مستحکم اور مضبوط حوالہ ہے ۔
حضرت العلام ؒ سنتِ رسالت مآب ﷺ اور طریقۂ صحابہ کرام ؓکے بڑے گرویدہ تھے اور خلاف سنت پر آپ سخت گیر ہوتے مثلاً نماز میں صفوں کی درستگی کا مسئلہ جس سے مدارس اور عوام کی مسجدیں بھی بے توجہی کا شکار ہیں۔
آپ نے فرمایاکہ ” ہم حنفیوں میں بلکہ دیوبند یوں میں یہ مسئلہ عام ہے کہ لوگ پہلے مسجد آجاتے ہیں پہلی صف میں کھڑے ہوتے ہیں اور امام بھی مصلیٰ پر کھڑے ہوجائے تو اقامت یعنی تکبیر شروع ہوتی ہے اور بریلی بھائیوں کے یہاں سب سے پہلے اقامت کہی جاتی ہے جب حی علی الصلوٰة کہاجا تاہے جو مؤذن ہوتا ہے وہ پہلے کھڑا ہوتا ہے پھر مصلی حضرات اور امام صاحب کھڑے ہوتے ہیں ، اس سے پہلے کوئی کھڑا نہیں ہوتا سب بیٹھے رہتے ہیں تو ان کا یہ بھی طریقہ غلط ہے اور ہمارا طریقہ بھی غلط ہے ،کیونکہ لفظ کے بدلنے سے معنیٰ بدل جاتے ہیں تکبیر اردو میں کہتے ہیں اورعربی میں اس کو اقامت کہتے ہیں ، کیونکہ اقامت کے معنیٰ کھڑا کرنا تو جب تک اقامت نہیں کیا تو کھڑا کرنا صحیح نہیں ہوا تو لوگ کیوں کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ دیوبندیوں کا طریقہ غلط ہے ، جب اقامت کہی جائے تو کھڑا ہونا درست ہے اقامت کے بعد صف بندی کی جائے ، اور صفیں درست کی جائے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور چاروں خلفاء راشدین جب اقامت پوری ہوجائے اس کے بعد نماز شروع کرتے اور حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں تو انہوں نے صفوں کی درستگی کے لئے چند آدمیوں کو مقرر کر دیا تھا۔ حضرت عثمان ؓ اور حضرت علی ؓ بھی اسی طرح اقامت کے بعد صفیں درست کرتے تھے، دار العلوم کے صدر مفتی حضرت سید مہدی حسن صاحب ؒ چھتہ مسجد میں معذوروں کو جمعہ کی نماز پڑھاتے تھے خود ممبر پر کھڑے ہوکر صفیں درست کرواتے تھے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشاد ہے صفیں درست کر و ورنہ اللہ تمہارے دل کو ٹیڑھا کر دےگا ۔
حضرت مفتی صاحب نور اللہ مرقدہ پر اس کا بھی غلبہ رہتا تھا کہ مدارس و جامعات کے اندرونی حالات اور اس کا تعلیمی و تربیتی نظام کیسے درست ہوں جو اس وقت کا عام المیہ ہے اس کےلئے وہ مسلسل متفکر اور اس کے گرتے معیار پر خون کے آنسوں بہاتے درد سے فرماتے کہ ” تعلیم کی پختگی نہ رہی کام انتہائی بگڑ گیا ہے، سات آٹھ سال پڑھنے کے بعد بھی کوئی مولوی نہیں بنتا اگر کسی مدرسے کا شیخ الحدیث انتقال ہو جا ئے تو کوئی شیخ الحدیث نہیں ملتا مدرسے چل رہے ہیں ان میں اتنی کمزوری آگئی ہے پہلے کا جو نہج تھا وہ نہ رہا ۔ مدرسوں کا نظام چوپٹ ہو گیا ہے انڈیا میں مدارس بھرے پڑے ہیں اور کئی مقامات پر شیخ الحدیث انگلینڈ سے پڑھانے آرہے ہیں“
یہ واقعہ حد درجہ افسوس ناک ہے کہ آج عصری درسگاہوں اور زندگی کے تمام تر شعبوں میں لوگوں کا معیار بلند سے بلند تر ہوتا جا رہا ہے اور زندگی کے ہر پہلوکو لوگ اعلیٰ و ارفع کرنے کی تگ و دو میں لگے ہیں اگر لوگوں کی پسند ہے تو وہ بہت معیاری لیکن وہیں مدارس دینیہ اور اس سے متعلقات صرف چل چلاؤ کو ہی کافی سمجھتے ہیں یعنی ہر غیر معیاری کو قبول کرنا ان کا مزاج بنتا جا رہا ہے۔ نہ انہیں نصاب پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، نہ نظام تعلیم کی اصلاح کی، نہ ہی اوقات کی قدر و قیمت اور نہ ہی ایام رخصت کے صحیح استعمال کا لائحہ عمل طے کرنے کی حد تو یہ ہے کہ اکثر مدارس کا نہ تو کوئی ابنائے قدیم سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی کسی فیض یافتہ سے رشتہ جسے وہ امروز و فردا کا سبق پڑھا سکے۔
وائے افسوس ! کہ کرونا وائرس Covid-19 کے دور ابتلا کو اہل مدارس ایام رخصت کے طور پر منا رہے ہیں ،ہر طرف انتقال مکانی کا کہرا م ہے اس دوران نہ کتابوں سے ربط نہ ہی فرصت کے لمحات سے وصولیابی کا جذبہ، نہ کوئی رہبر رہا نہ کوئی راہ رو اور نہ ہی کسی مصلح فیض یاب سے تعلق کہ ایسے نازک حالات میں رہنمائی حاصل کی جا سکے دوسری طرف عصری اداروں کے طالب علم اپنے اساتذہ سے آن لائن اور نیٹ ، وہاٹس ایپ یعنی جدید ذرائع کو انعامات خدا وندی سمجھ کر استفادہ کی نت نئی شکل اپنائی جارہی ہے ۔
دل دوز کہانی ہے کہ آج تعمیرات کی کثرت اور مغل آرٹ اپنانے کی ہوڑ لگی ہے ۔ لیکن تعمیری ذہنیت اور افراد سازی ناپید ہے ، مکان کی تعمیر کی تو دوڑ ہے لیکن مکین کی صلاح و فلاح کی کوئی فکر نہیں اس لئے مدارس کو آبادی کا دو فیصدحصہ بھی بمشکل دستیاب ہے۔ اس کا بھی کوئی اوسط نہیں ۔
ہمیں یادرکھنا ہوگا! کہ علم بیش قیمت ہے اس کی قیمت چکاکر ہی اسے حاصل کرنا ہوگا ۔
تم جسم کے خوش رنگ لباسوں پے ہو نازاں
میں روح کو بے گور وکفن دیکھ رہا ہوں
اسی طرح مدارس کی زکوٰة کی وصول یابی کے غلط روش پر ان کا فتوی تھا ” جس مدرسے میں زکوٰة کا مصرف نہیں وہاں زکوٰة کا لگانا درست نہیں ایک مدرسہ ہے جس میں غریب طلبہ ہیں خواہ وہ بالغ ہیں یا نابالغ یہاں زکوٰة دینا جائز ہے لیکن جس مدرسہ میں نابالغ طلبہ ہیں اور ان کے والد مالدار ہیں تو وہ نابالغ طلبہ بھی مالدار ہیں ایسے مدرسے والے اگر حیلہ اور تملیک کر لیں تب بھی ایسے مدرسوں کو زکوٰة دینا جائز نہیں “
حضرت مفتی صاحب ؒ نہ صرف یہ کہ ایک کامیاب استاذ تھے بلکہ حق و باطل کا فرق ، صواب و خطا کا امتیاز، اور اظہار واقعہ پر ملمع سازی پسند نہ فرماتے اور اپنی استدلالی رائے پر جماؤ ان کا مزاج تھا وہ ایسا بھی ہوسکتا ہے ویسا بھی کے بالکل قائل نہ تھے۔
ان کا مزاج اگرچہ مناظرانہ اور مجادلانہ نہ تھا لیکن مجلس مشاورت میں دلائل کی بوچھار سے اپنا لوہا منوالیتے ۔ اس لئے بہتوں کو ان سے پر خاش رہتی تھی عام طور پر دنیا ایسے لوگوں کو علمی شہسوارتسلیم تو کر لیتی ہے لیکن تسبیح و مصلیٰ کا آدمی نہیں گردانتی۔ لیکن حضرت مفتی صاحب ؒ جوہر روح و تصوف سے بھی خالی نہ تھے اسی روحانی جوہر کو بھانپتے ہوئے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ؒ کے میکدے کے ساقی ( حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب رامپوری ناظم جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور خلیفہ حضرت تھانوی صاحب ؒ ) علمی اور روحانی دنیا کی عظیم شخصیت حضرت مفتی مظفر حسین صاحب قدس سرہ¾ ناظم مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور نے انہیں تڑپتی روحوں کی تسکین اور جلائے قلب اور دوائے دل بانٹنے کےلئے انہیں ساقی بنادیا تھا اور وہ ان کے مجاز بیعت و ارشاد تھے۔ چنانچہ وہ اپنی علمی اور روحانی مجالس میں روح شریعت و تصوف کا جام بھی تقسیم کرتے تھے ۔
یہ میرے لئے خوش بختی رہی کہ ازہر ہند دار العلوم دیوبند کا اگر چہ میرے حصے میں شرف تلمذ کا کوئی رسمی سلسلہ نہ رہا لیکن جن اکابر علماء دار العلوم دیوبند سے میری راہ و رسم کا شرف رہا ان میں حضرت علامہ مفتی سعید احمد پالنپوریؒ کے ساتھ خاص انس و لگاؤ اور عقیدت ومؤدت کا مضبوط رشتہ رہا جو میرے لئے سدا سرمائے افتخار رہے گا۔
اسی سلسلہ کی ایک کڑی کہ بندہ کی دعوت پر وہ ۲۳ شوال ۱۴۴۰ھ میں مدرسہ قادریہ مسروالا تشریف لائے اور تین روزہ قیام کے دوران علاقہ کے کئی گاؤں میں تشریف لے گئے اور ہر طبقۂ فکر کے لوگوں میں ان کا موئثر بیان ہوا ، طلبہ اور اساتذہ کو بھی اپنے ذوق و مزاج کے مطابق شریعت کے جام شیریں سے سیراب فرمایا ۔اپنے دلپزیر خطاب میں بچوں کے ذوق و مزاج کی رعایت کےساتھ پڑھانے کا سلیقہ اور کامیاب استاذ کا گر بھی بتایا اس میں اشارہ تھا کہ بچہ ہر وقت کھیلتا ہے اس لئے کامیاب استاذ وہ ہے جو بچوں کو کھیلنے کے طر ز پر پڑھائے آپ مدرسہ قادریہ مسروالا کے شب و روز کو رجسٹر معائنہ پر یوں رقم فرمایا ۔ ” صوبہ ہماچل پردیش پہاڑی علاقہ ہے لو گ پہاڑوں کی بلندی پر متفرق طور پر بسے ہوئے ہیں لوگ عام طور پر دین کی بنیادی باتوں سے بھی ناواقف ہیں اسی ضرورت کو پورا کرنے کےلئے قرعہ فال بنام استاذی محترم حضرت مفتی عبد العزیز صاحب رائے پوری نکلا اور حضرت مفتی صاحب نے مسروالا میں جو ہماچل پریش میں مسلمانوں کا جو سب سے بڑا گاؤں ہے مدرسہ قادریہ مسروالا کی بنیاد رکھی جس کا ناظم مولانا کبیر الدین فاران صاحب کو بنایا گیا ۔ جب میں پہلی بار مدرسہ میں حاضر ہوا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ مدرسہ نے تعمیری ، تربیتی اور تعلیمی لحاظ سے جتنی ترقی کی ہے عام طور پر مدار س پچیس سال میں کرتے ہیں ۔ امید ہے کہ جلد وہ دن آئے گا کہ جس طرح یہ صوبہ قدرتی درختوں سے سر سبز و شاداب ہے دین کی بہاروں سے بھی ہمکنار ہوجائے گا “
حضرت مفتی سعید احمد پالنپوری ؒ کو مدرسہ قادریہ کے نظم و انصرام پر بڑا اعتماد تھا اور وہ آنے جانے والوں سے یہاں کے کوائف و احوال دریافت فرماتے اور جب بندہ کو ان کی در دولت کدہ پر حاضری میسر آتی تو وہ پالنپوری مہمان نوازی اور سادگی کا دسترخوان بچھا دیتے اور فرماتے کہ فاران صاحب کبھی کبھی آپ کے اخباری بیانات میری نظروں سے گذرتے رہتے ہیں اور میں اس سے بڑا متفق ہوں، میری ان سے مدارس اسلامیہ کی تعلیمی اور تربیتی گراوٹ پر دیر تلک گفتگو ہوتی گویا ہم ایک رائے ہوتے مدارس کی درسگاہوں کی کمزوری کا ایک سبب ان کے نزدیک مہتمم حضرات کی کوتاہی اور تنگ نظری تھی ۔
اس فکر کا اظہار انہوں نے میری تالیف ”استاذ فرش سے عرش تک لیجانے والی ذات “ کی دوسری اشاعت کی تقریظ میں لکھا تھا۔ ”ہمارے حضرت مولانا کبیر الدین فاران صاحب زید مجدہ نے بقامت کہتر بقیمت بہتر ” استاذ “ نامی رسالہ لکھا ہے میں نے اسے پڑھا بڑی قیمتی باتیں جمع کی ہیں مگر میں پڑھتے ہوئے سوچتا رہا کہ استاذ کہاں ؟ مٹی کے چراغ لیکر ڈھونڈوگے تو بھی نہیں ملیں گے۔ پہلے طالب علم استاذ کا انتخاب کرتے تھے اب مہتمم صاحبان انتخاب کرتے ہیں ۔پہلے طالب علم اور استاذ میں رشتہ ہوتا تھا اب طلبہ کا استاذ کے ساتھ تعلق درسگاہ ، تپائیوں اور مہتمم کے واسطے سے ہوتا ہے ظاہر ہے بلا واسطہ اور بلواسطہ کا فرق پڑتا ہے پھر ابتدائی تعلیم جس کا مرحلہ عربی چہارم تک ہے ان درجات کو پڑھانے کےلئے مہتمم صاحبان ایسے اساتذہ کو رکھتے ہیں جن کو ابھی پڑھانا ہی نہیں آیا مہتمم صاحبان کے پیش نظر استاذ کی نہ وجاہت ہوتی ہے نہ استعدداد نہ پڑھانے کا طریقہ پیش نظر ہوتا ہے ۔ بس ایک ہی بات پیش نظر ہوتی ہے کہ اینٹ گارے کے مزدور سے بھی کم دہاڑی لیتا ہے ایسی صور ت میں یہ قیمتی رسالہ صحراء میں صدا ثابت ہو گا۔ رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی ۔ ”میں دعا کرتاہوں اللہ تعالیٰ اس رسالہ کو قبول فرمائے ، نافع بنائے ، پرانی ریت واپس لوٹ آئے اور مہتمم صاحبان کو فہم عطا فرمائے ۔ کہ وہ ابتدائی تعلیم کے لئے اچھی تنخواہیں دیکر مَنجھے ہوئے اساتذہ رکھیں تاکہ نئی نسل برباد نہ ہو “ سعید احمد عفااللہ عنہ پالنپوری خادم دار العلوم ۲۴ ذی الحجہ ۱۳۳۵ء ۔
مدارس کے تعلیمی انحطاط اور انتظامی کمزوریوں اور مدارس کی صحت کی خرابی کے وہ بڑے شاکی رہتے حزن و ملال سے فرماتے کوئی ان کے حالات درست کرنے والا دور تک نظر نہیں آتا ۔
کچھ دنوں قبل حاضری پر بھری مجلس میں فرمایا ” مولانا فاران مجھے آپ سے محبت ہے “۔ یہ وہ توصیفی سند ہے جو بندے کےلئے سرمایۂ افتخار ہے۔
میری ذاتی زندگی میں کئی اہم موڑ بھی آئے جن فراخ دل اور بالغ نظر غیر متعصب شخصیات سے مجھے مراجعت کی سعادت ملی ان میں حضرت مفتی صاحب ؒ کا نام بھی سر فہرست ہے وہ حالات سنتے ،مشورے دےتے حوصلہ اور ہمت باندھتے جس سے میری کڑھن تعب اور دل شکنی دو ر ہوتی اور پھر حوصلہ کےساتھ سر پٹ رخت سفر باندھ لیتا ۔
آج جبکہ وہ ہمیشہ کےلئے ہم سے روپوش ہوگئے ہیں لیکن ان کی باتیں ، ان کی ادائیں ،ان کا باک پن ،دلجوئی اور دل بستگی ،داد و دہش کی وہ کریمانہ روش اور ان کا اسوہ ہمارے لئے زاد راہ ہے کیونکہ بے غرض اور مخلص حضرات کی رتی بھر یاد بھی عمر بھر کےلئے زادراہ بن جاتی ہے۔
ان کی شان استغنی، دریا دلی اور خدمت بے لوث کی مولانا ڈاکٹر افضل حسین قاسمی نے یوں ترجمانی فرمائی ۔
آپ تو لیتے نہ تھے تدریس کا کوئی عوض
ہر مہینہ کچھ نہ کچھ کرتے رہے خود ہی عطا
اللہ نے انہیں منفرد انعامات سے مالا مال فرمایا تھا وہ خود حافظِ قرآن، ان کی اہلیہ محترمہ حافظہ ، ان کے صاحبزادے حافظ ان کی صاحبزادیاں حافظہ، اور ا ن کی بہوئیں بھی حا فظہ تھیں گویا گھر کا ماحول قرآنی اور انوار و برکات سے عطر بیز رہتا تھا ۔
زمیں کی رونق چلی گئی ہے، افق پہ مہر مبیں نہیں ہے
تری جدائی سے مرنے والے، وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
بلا شبہ مسند حدیث کی آبرو اور جماعت دیوبند کے علمی سالار فکر نانوتوی ؒکے ماہر شناور چمنستان قاسمی کے بے مثال باغباں سے حقیقی تعلق اور مخلصانہ محبت کا حق ہے کہ ہم مرثیہ خوانی کی بجائے ان کی انمول زندگی کے کارآمد نقوش،علم و فن کا ایک اعلیٰ مقتدا ، لشکر نانوتوی کا ایک جرنیل ، سادہ اور سپاہیانہ زندگی کا نمونہ ، اخلاص و معرفت کا مرقع ، سلف و خلف کا نشان، عبقری اور عقابی نظر ، ہمالیائی ارادوں سے متصف ، رجال کار اور مرد م ساز ہنر ، بلند و بالا معیار زندگی ،شفقت و مؤدت کا سائبان شہ دین کا ترجمان ، عظمت بھری داستانِ حیات اور پیام حق کا تعمیری شمارہ کو زاد راہ بنائیں یہی ان کے حق میں تعزیت کا صحےح حق ہے رب کریم امت مسلمہ ، بالخصوص دا رالعلوم کو اس کا نعم البدل اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین یارب العالمین بجاہ سید المرسلین ﷺ۔
کئی دماغوں کا ایک انساں ،میں سوچتا ہوں کہاں گیا ہے
قلم کی عظمت اجڑ گئی ہے ، زباں کا زور بیاں گیا ہے
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں ان کے طرز زندگی کو اپنانے، ان کے افکار و کڑھن کو اوڑھنے، ان کی ڈگروں کے نشانات پر چلنے کی سعادت بخشے اور ان کی خدمات کو ہمارے لئے مشعل راہ بنائے ۔ آمین۔
رب ذوالجلال رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے اس جاں نثار کے مرقد کو اپنی رحمتوں سے ڈھانپ لے ۔آمین۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں،کہ اے لئیم
تونے وہ گنجہائے گراں مایہ کیا کئے
(مضمون نگار معروف عالم دین اور مدرسہ قادریہ مسروالا ضلع سرمور ہماچل پردیش کے ناظم ہیں )
E-mail:faran78699@gmail.com