کشن گنج اور کٹیہار کی ندیاں بے قابو، سیلاب کا خوف

کشن گنج :کٹاؤ اور سیلاب سےعوام دہشت میں، رمضان ندی کا پانی نشیبی علاقوںمیں داخل، عوام محفوظ مقامات پر پناہ لینے پر مجبور، دیہی علاقوں میں کٹاؤ سے زیادہ خطرہ، ٹیڑھا گاچھ میں پل کے اوپر سے پانی بہہ رہا ہے ۔ کٹیہار : امداباد میں گنگا اور مہانندا کی سطح میں اضافہ، دونوں ندیاں خطرے کے نشان کے قریب۔

بہار کے سیمانچل خطے کےکشن گنج اور کٹیہار ضلع کی ندیاں چھلک گئی ہیں ۔ ندی کے کنارے کی بستیاں سیلاب کی زد میں ہیں۔
کشن گنج ضلع کی تمام ندیاں میں طغیانی ہے۔ ڈونک،کنکئی، میچی، مہانندا اور رمضان کا قہر جاری ہے ۔ شہر میں رمضان ندی کا پانی کئی علاقوں میں داخل ہوگیا ہے۔ کنکئی، ڈونک، میچی اور مہانندا کے تیز بہاؤ کی وجہ سے کٹاؤ ہورہا ہے جس سے کئی قبرستان، قابل کاشت زمین اور کئی گاؤں ندیوں میں سماچکے ہیں۔رمضان ندی کی وجہ سے شہر کے نشیبی علاقوں کے باشندے گھر چھوڑ کر اونچے مقامات پر اسکول وغیرہ میں پناہ لے رہے ہیں۔ بیلوا میں مہانندا اور ڈونک کےکٹاؤ سے ٹینگر ماری وارڈ نمبر ۳، اور ۴؍میں کھیتی کی زمین کٹنے سے کسان پریشان ہیں۔ پیکس کے چیئرمین اظہار اشرف اور پنچایت سمیتی کے رکن خالد رشید نے ضلع انتظامیہ سے جلد از جلد کٹاؤ کی روک تھام کے لئے ضروری اقدام کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ وہیں ٹیرھا گاچھ میں پل پور کے قریب پل کے اوپر سے پانی بہنے سے مقامی باشندوں کو آمدورفت میں پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ٹھاکر گنج میں میچی ندی کا قہر جاری ہے۔ کوچا دھامن میں مہانندا اور ڈونک ندی سے بلیا کے قریب قبرستان اور گاؤں کے کٹنے کا خطرہ لاحق ہوگیا ہے، حالانکہ اتوار کو بارش کم ہونے سے ضلع کے عوام نے راحت کی سانس لی ہے ۔
کٹیہار ضلع کے امداباد بلاک میں گنگا اور مہانندا ندی کی سطح میں اضافہ لگاتار جاری ہے۔ مہانندا کی سطح میں اضافہ کی وجہ سے مہانندا سے متصل علاقوںمیں پانی پھیل گیا ہے۔ برسات کا موسم شروع ہوتے ہی گنگا اور مہانندا کی سطح بڑھنے لگتی ہے۔ بلاک میں ان دو ندیوں کی سطح بڑھنے سے سیلاب کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
سری طرف کدوا بلاک میں مہانندا کی سطح میں اضافہ کے ساتھ ہی دھنگاما پنچایت کے باشندوں کی پریشانی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ پنچایت کو دو حصوںمیں تقسیم کرنے والے لیلجی دھار پر کشتیوں کو چلانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ پنچایت کے نصف درجن سے زیادہ گاؤں کے افراد لیلجی دھار میں کشتیوں سے آمدورفت کرنے پر مجبور ہیں۔ مہانندا کی سطح میں اضافہ ہونے سے پانی پھیلنے کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ ۳؍ دہائی سے مقامی افراد نے دھار پر پل تعمیر کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ پل نہیں ہونے کی وجہ سے پنچایت کے باشندوںکو سال کے ۴؍ مہینے کشتیوں سے آمدورفت کرنی پڑتی ہے۔ پنچایت سے باہر نکلنے کا واحد راستہ پر پل نہیں ہونے کی وجہ سے عوام کو پنچایت بھون کے ساتھ بلاک اور اسپتال جانے کے لئے کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دھار میں پانی آجانے کے بعد پنچایت دوحصوںمیں تقسیم ہوجاتی ہے۔ ۵؍ برس پہلے وہاں کشتی حادثات میں۲؍افراد کی موت ہوگئی تھی۔سرکاری کشتی نہیں ہونے کی وجہ سے لوگ کرایہ دے کر پرائیویٹ کشتیوں کے سہارے آمد و رفت کرتے ہیں۔ بلاک کی سرحدی پنچایت ہونے کی وجہ سے دھار میں پل تعمیر کے لئے اب تک عوامی نمائندوں کے ذریعہ بھی خصوصی دلچسپی نہیں لی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ اس پنچایت کے بعد پورنیہ ضلع کا ڈگروا بلاک شروع ہوجاتا ہے۔ اس بارے میں مقامی مکھیا سوتیش بوساک ، سماجی کارکن چمرو یادو اور کئی افراد نے بتایا کہ لوک سبھا اور ودھان سبھا انتخابات کے وقت عوامی نمائندے یقین دہانی کراتے ہیں لیکن الیکشن جیتنے کے بعد یہ مسئلہ جوں کا توں رہ جاتا ہے۔
(انقلاب)