ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
حکومت تلنگانہ کی جانب سے پی وی نرسمہا ر اؤ کی پیدائش کی صد سالہ تقاریب کے اہتمام کا اعلان کیاگیا ہے۔ حسب روایت ہم مسلمانوں کی جانب سے اِس کی بڑے پیمانہ پر شدت سے مخالفت کی جارہی ہے۔ کے سی آر حکومت سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ اس جشن صدسالہ سے دستبرداری اختیار کرلیں۔ مسلمانوں کا مطالبہ اپنی جگہ فطری ہے کیوں کہ بحیثیت وزیر اعظم نرسمہا راؤ نے بابری مسجد کی شہادت کے سانحہ کے وقت مجرمانہ خاموشی اختیار کی تھی بلکہ جب تک مسجد شہید کی جاتی رہی وہ خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے۔ 6/دسمبر سے بہت پہلے اگر وہ چاہتے تو اڈوانی اور دوسرے رام جنم بھومی تحریک پر پابندی عائد کرسکتے تھے یا ایودھیا کو جانے والے راستوں کی ناکہ بندی کی جاسکتی تھی۔ کرفیو نافذ کیا جاسکتا تھا۔ مگر ایسا کچھ نہیں کیا گیا کیوں کہ انہیں وزارت عظمیٰ کی میعاد کی تکمیل کے بعد ملک کا صدر جمہوریہ بننا تھا۔ انہیں اس بات کا یقین تھا کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندوتوا طاقتوں کو ا ستحکام ملے گا اور کانگریس کا اقتدار ختم ہوگا۔ بی جے پی عنان اقتدار سنبھالے گی تو انہیں ان کی خاموشی مندر کی تعمیر کے لئے راہ ہموار کرنے کا صلہ مل جائے گا۔
پی وی نرسمہا راؤ…. جنہیں ہندوستانی سیاست کا ”چانکیہ“ اور ”بابائے معاشی اصلاحات“ بھی کہا جاتا رہا‘ جنہوں نے ڈاکٹر منموہن سنگھ کو زیر فینانس کا قلمدان دیا‘ جو ماہر اقتصادیات ضرور تھے مگر سیاست دان نہیں۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ تو غلط نہ ہوگا کہ منموہن سنگھ کو وزارت عظمیٰ کی کرسی اگر ملی ہے تو اس کی بنیاد پی وی نرسمہا نے رکھی تھی۔
پی وی نرسمہا راؤ جو 17زبانیں جانتے تھے۔ عربی، اردو اور فارسی میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ اس لئے عالم عرب میں بھی ان کا شمار تھا‘ اور مسلمانوں کے مخصوص حلقہ میں بھی۔ حالانکہ وہ کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں رہے۔ نظام کی حکومت کے خلاف تحریک میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ہند۔پاک جنگ کے دوران کہا تھا کہ ریڈیو پاکستان سننے والوں کے کان میں سیسہ پگھلاکر ڈال دیا جانا چاہئے۔ 1971ء میں آندھراپردیش کے چیف منسٹر کی حیثیت سے اصلاحات اراضیات قانون کے تحت انہوں نے نظام خاندان کی اراضیات کو حاصل کرلیا۔ شاید اس قانون کو متعارف کرنے کا ایک مقصد یہ بھی رہا ہو۔ بہرحال! راجیو گاندھی کی ہلاکت کے بعد وہ وزیر اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے تو جنوبی ہند سے تعلق رکھنے والے وہ پہلے وزیر اعظم تھے اور ان کا تعلق نہرو گاندھی خاندان سے نہیں تھا۔ اس منصب پر فائز ہونے کے لئے ہندوستانی سیاست کے اس چانکیہ نے جانے کیا کچھ کیا تھا کہ ان کی اپنی پارٹی کانگریس اگرچہ انہیں ان کے مقام سے ہٹا تو نہیں سکی مگر ان کی خدمات کے اعتراف سے بھی گریز کرتی رہی۔ حتیٰ کہ سونیا گاندھی نے اپنی ایک 15منٹ کی تقریر میں کانگریس سے تعلق رکھنے والے تمام وزرائے اعظم کی خدمات کا اعتراف کیا، مگر نرسمہا راؤ کا غلطی سے نام بھی نہیں لیا بلکہ انہوں نے اشارتاً یہ کہا کہ راجیو گاندھی نے جو معاشی پالیسیاں روشناس کروائی تھیں‘ اس پر حکومت عمل پیرا رہی۔
1957ء سے 2004ء تک ا یم ایل اے‘ چیف منسٹر آندھراپردیش، رکن رپالیمنٹ، مرکزی وزیر داخلہ، وزیر دفاع، وزیر خارجہ اور پھر وزیر اعظم کے عہدوں پر فائز رہنے والے نرسمہا راؤ نے کچھ نئے کام ضرور کئے جیسے پہلی بار اپوزیشن لیڈر واجپائی کو اقوام متحدہ کے اجلاس میں ہندوستان کی نمائندگی کے لئے جنیوا روانہ کیا۔ اور اپوزیشن لیڈر سبرامنیم سوامی کو کابینی درجہ عطا کرتے ہوئے کمیشن آن لیبر اسٹینڈر اینڈ انٹرنیشنل ٹریڈ کا چیرمین مقرر کیا۔ اگرچہ کہ بظاہر یہ ان کی سیاسی بصیرت، دور اندیشی تھی مگر یہ اس لئے بھی تھا کہ تینوں ہی ایک ذہنیت کے حامل تھے۔ اور بعد میں چل کر ثابت ہوا کہ واجپائی جو چاہتے تھے پی وی نرسمہا راؤ نے وہ کردکھایا۔
پی وی نرسمہا راؤ نے مسلمانوں اور ہندوستان کے سیکولر کردار اور مزاج کو اپنی مجرمانہ خاموشی، فرائض سے کوتاہی کے ذریعہ پامال کیا۔ اسی لئے آج مسلمانوں ان کے جشن کی مخالفت کررہے ہیں مگر اب یہ مخالفت بے کار ہے کیوں کہ آج ہم واقعی بے وزن ہوکر رہ گئے ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت کے لئے نرسمہا راؤ جتنے ذمہ دار ہیں اتنے ہی راجیو گاندھی بھی ہیں جنہوں نے دیوراہا بابا آشیرواد (سر پر پیر رکھواکر) لے کر اس وقت کے وزیر داخلہ ارون نہرو کو بابری مسجد کا تالا کھلوانے کی اجازت دی۔ پھر شیلانیاس بھی پوری دھوم دھام سے کی گئی۔ اِسی طرح سیکولرزم کے علمبردار کہلائے جانے وا لے وی پی سنگھ بھی اس کے لئے اتنے ہی ذمہ دار ہیں‘ جنہوں نے اڈوانی کی رتھ یاترا کو بہار میں رکوایا اور اڈوانی کو گرفتار کیا جس سے فسادات بھی ہوئے۔ اڈوانی ہیرو بنے، جنتادل حکومت گرگئی اور بی جے پی ایک زبردست طاقت بن کر ابھری۔
بابری مسجد کی شہادت کے لئے وہ مسلم قائدین بھی کم ذمہ دار نہیں ہیں‘ جنہیں ہندوستانی مسلمانوں کی قیادت کی حرص تھی اور انہوں نے اپنی اپنی اَنا پر مسلمانوں کے وقار اور مفادات کو قربان کردیا۔ بابری مسجد تحریک کو کمزور کردیا گیا۔ الیکشن کمیٹی اور بابری مسجد رابطہ کمیٹی کے نام پر دو ٹکڑے ہوگئے۔ مسلمانوں کی قیادت کا رول بھی مجرمانہ رہا۔ انہوں نے مسلمانوں کے مفادات کا اگر سودا نہ بھی کیا تو اِن کے اعتماد کوٹھیس پہنچایا۔ کتنی قدآور ہستیاں تھی سب نے خاموشی اختیار کی۔ کسی نے احتجاجی اقدام کے طور پر استعفیٰ نہیں دیا۔ کسی نے قربانی نہیں دی۔ سڑکوں پر عام مسلمان کا خون بہتا رہا۔ عام مسلمان جیلوں میں سڑتا رہا۔ مسلم قیادت ”سیلف کورنٹائن“ میں چلی گئی تھی۔
بابری مسجد کی شہادت،بدترین فسادات کے بعد دہلی کے ایک دلال نے نرسمہا راؤ کے لئے ہندوستان بھر کی مساجد کے اماموں کو ا س کی حمایت میں لاکھڑا کیا۔ بابری مسجد کی شہادت کا غم منانے والے اور مساجد کے امام کوڑیوں کے مول بک گئے…. اماموں کو اپنی تنخواہ‘ مشاہرہ یا اعزازیہ زیادہ عزیز تھا۔ چاہے دینے والا بابری مسجد کا قاتل ہی کیوں نہ ہو۔
مسلم قیادت‘ اکابرین‘ ائمہ سب ہی تو ذمہ دار رہے بابری مسجد کی شہادت کے لئے۔ ہم اپنے آپ کو تسلی دیتے ہیں کہ نرسمہا راؤ کی نعش چتا سے جانوروں کی خوراک بنی۔ یہ ہمارے اپنے تاثرات ہیں۔ ویسے آندھراپردیش قانون ساز اسمبلی میں نرسمہا راؤ کی تعزیتی قرارداد کی مخالفت اکبرالدین اویسی نے ضرور کی تھی۔ بہرحال! عام ہندوستانی مسلمان نرسمہا راؤ سے ناراض تھا‘ ہے اور رہے گا۔ مگر تلنگانہ کے عوام ہندوستان کے دوسرے مذاہب کے شہری کیوں مخالفت کریں گے۔ 1991ء میں جب نندیال سے پی وی نے مقابلہ کا اعلان کیا تو این ٹی آر نے انہیں تلگو سرزمین کا مایہ ناز بیٹا قرار دیتے ہوئے تلگو دیشم کے امیدوار کو میدان میں نہیں اُتارا اور ان کی تائید کی جس کی بدولت نرسمہا راؤ پانچ لاکھ سے زائد ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ آج کے سی آر وہی کررہے ہیں اور اس کے لئے حق بجانب ہیں۔ حالانکہ نظام کو خراج عقیدت پیش کرنے والے کے سی آر جانتے ہیں کہ نظام کے سخت ترین مخالفین میں سے ایک تھے ”پی وی نرسمہا راؤ“۔ ان کے لئے اور تلنگانہ کے دوسرے عوام کے لئے نرسمہا راؤ اس سرزمین کے عظیم سپوت ہیں۔ مسلمان جس کی مخالفت کرتے ہیں‘ دوسرے اسے اپنا ہیرون بنالیتے ہیں۔
جس نے مسلمانوں پر ظلم کیا، اسے اقتدار ملا۔ تاریخ آپ کے سامنے ہے۔ گجرات سے دہلی تک کے حالات کا جائزہ لیجئے۔ مسلمانوں کی جانب سے مخالفت واجبی ہے مگر یہ لاحاصل ہے۔ ہاں! پارلیمنٹ میں بیرسٹر اسدالدین اویسی اور دوسرے مسلم قائدین آواز اٹھائیں یا تلنگانہ اسمبلی میں اکبرالدین اویسی اپنی تاریخ دہراتے ہیں تو اور بات ہے۔ دوسرے قائدین اگر بیان بازی کرتے ہیں تو اردو اخبارات میں ا پنا نام پڑھ کر خوش ہونے کے مترادف ہے۔ کیوں کہ نہ تو اس کی کوئی قدر و قیمت ہے اور نہ ہی کسی کو اس کی پرواہ۔
بابری مسجد ہو یا ایک خانہ کی مسجد… اللہ کے گھر ہیں۔ کل بھی ہماری قیادت نے مصلحت کی چادر اوڑھ رکھی تھی آج بھی خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ خاموشی اختیار کریں‘ کم از کم اپنی نظروں سے تو خود نہیں گریں گے۔ ورنہ آپ جتنی مخالفت کرتے جائیں گے نہ صرف ٹی آر ایس بلکہ دوسری جماعتیں بھی جوش و خروش کے ساتھ اس میں حصہ لیتی رہیں گی۔
نرسمہا راؤ کی مخالفت اس کی زندگی میں کسی نے نہیں کی‘ ہاں! خود ان کی پارٹی نے کنارہ کشی ا ختیار کرلی۔ آخری دنوں میں ان کا حال‘ آج کے اڈوانی جیسا ہوگیا تھا۔ زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ کمال الدین احمد، عبدالرحمن انتولے جیسے قائدین نے بابری مسجد سانحہ کے بعد نرسمہا راؤ کی شان میں قصیدے پڑھے۔ سب اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں‘ اس لئے ان کے بارے میں کیا کہیں‘ اللہ ہمیں عقل ناخن عطا کرے۔ آمین
(مضمون نگار گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد کے ایڈیٹر ہیں)
فون: 9395381226






