تین طلاق پہ پابندی!ایک سازش ہے فقط دین ومروت کے خلاف

احمد شہزاد قاسمی
ہندوستان میں مغل حکومت کے زوال کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی اور بر طانوی عہدِ اقتدار میں ملک کی بسنے والی مذہبی اکائیوں کو کچھ محدود معاملات میں اپنے مذہبی قوانین پر عمل پیرا رہنے کی آزادی حسبِ سابق حاصل رہی نیز آزادی کے بعد دستورِ ہند نے مذہبی آزادی کو شہریوں کا بنیادی حق تسلیم کیا جس کی رو سے مسلما نوں کے نکاح طلاق خلع ازدواجی زندگی کے حقوق وفرائض وراثت وصیت اور وقف وغیرہ کے معاملات میں قانونِ شریعت (مسلم پرسنل لاء ) کو واجب العمل تسلیم کرنا ملکی قانون پر عمل کرنے کے مساوی ہوگا اسکے برعکس اگر قانونِ شریعت (مسلم پرسنل لاء ) کے بجائے مشترک قانون (یکساں سول کوڈ) کے نفاذ کی راہ ہموار کی جائے یا مسلم پرسنل لاء کو آہستہ آہستہ ختم کر نے کی کوشش کی جائیتو نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کی ملی انفرادیت کو ختم کرنا ہوگا بلکہ مسلماموں کے مذہبی معاملات میں مداخلت اور آئینِ ہند میں دی ہوء مذہب وتہذیب کی آزادی پر حملہ ہو گا ان دنوں مرکزی سرکار کی طرف سے تین طلاق پہ پابندی اور طلاقِ ثلاثہ کو ایک ماننے کا رجحان سامنے آیا ہے یہ بدیہی طور پہ مسلم پرسنل لاء میں مداخلت اور قانونِ شریعت میں تبدیلی کی کوشش ہے ملک میں صرف مسلمانوں کاہی پرسنل لاء نہیں ہے دیگر مذاہب کا بھی اپنا اپنا پرسنل لاء اور اپنا اپنا کلچر ہے
ہندوؤں کو میرج کوڈ سیکھوں کو کرپان (خنجر نماں دھار دار ہتھیار) رکھنے اور جین مذہب کے پیشوا کو مادر زاد برہنہ رہنے کی اجازت مذہبی معاملات (پرسنل لاء ) کے تحت ہی دی گئی ہے ۔تمام شہریوں کے لئے یکساں قانون کا مطالبہ بارہا کیا جاتا رہا ہے ظاہر ہے کہ اس مطالبہ سے تمام مذاہب کے پرسنل لاء کے ساتھ ساتھ علاقاء اور قبائلی رسوم کو بھی کالعدم تصور کیا جائیگا لیکن جب بھی مشترک قانون کا مطالبہ اٹھتا ہے تو صرف مسلم پرسنل لاء ہی کو نشانہ بنایا جاتاہے سماجی اصلاح اور تبدیلی کی جب بھی بات کہ جاتی ہے تو قانونِ شریعت کو ہی ہدفِ ملامت بنایا جاتا ہے قانونِ شریعت کو عدمِ انصاف پر مبنی بتا کر یکساں سول کوڈ کی وکالت کرنے والے کبھی دیگر مذاہب کے پرسنل لاء اور علاقاء وقبائلی رسوم کو عدمِ مساوات اور سماجی نا انصافی پر مبنی بتاکر مشترکہ قانون کے نفاذ کی ہمت نہیں کر پاتے۔کیا یہ محض اتفاق ہے؟ یا اسکے پیچھے کوئی سیاسی یا انتخابی مصلحت ہے؟جو لوگ شاہ بانو کیس کے مالہ وماعلیہ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اسکو محض اتفاق کہدینا صریح حقائق کو جھٹلانے کے مترادف ہوگا ۔
واقعہ یہ ہیکہ مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کا شوشہ حکومتوں کے لئے ہندو عوام میں مقبولیت کے ساتھ ساتھ انتخابی وسیاسی فوائد کا ذریعہ رہا ہے نیز مسلمانوں کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرنے نئی نسل کو دین سے بیزار کرنے اور مسلمانوں کو ایسے مسائل میں الجھا کر سیاسی معاشی اور تعلیمی ترقیات سے درکنار کر نے کا بھی ایک آزمودہ پتھیار رہاہے
1980 کی دہاء میں مدھیہ پردیش کی شاہ بانو کو جب 62 سال کی عمر میں طلاق ہوگئی تو وہ اپنے طلاق دینے والے شوہر کے خلاف کورٹ میں چلی گئیں اور عدالت میں جاکر یہ کہا کہ میرے اور بچوں کے اخراجات کا بندوبست اور گزارہ بھتہ طلاق دینے والے شوہر پر عائد کیا جائے عدلیہ نے شاہ بانو کے حق میں فیصلہ دیا اور ایک ماہانہ معینہ رقم انکے طلاق دینے والے شوہر کو نان ونفقہ کے طور پہ ادا کر نے کا حکم دیا یہ واضح طورپہ مسلم پرسنل لاء میں مداخلت تھی کیونکہ جب میاں بیوی میں طلاق ہو جائے تو وہ دونوں اجنبی ہو جاتے ہیں اور شر عی قانون کے لحاظ سے مردپہ کسی طرح کی کوئی بھی ذمہ داری باقی نہیں رہ جاتی ۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی قیادت نے اسکے خلاف سخت مزاحمت کی یہاں تک کہ سرکار کو ایک قانون بناکر اس فیصلہ کو منسوخ کرنا پڑا لیکن سرکار کے اس عمل سے ملک کی اکثریت ناراض ہو گء چنانچہ اکثریت کو راضی کر نے کے لئے راجیو گاندھی جی نے بابری مسجد کا سرکاری تالا کھلواکر رام جنم بھومی اور بابری مسجد کا قضیہ پیدا کر دیا اور پھر ملک میں مسجد و مندر کی سیا ست شروع ہوگئی۔
حالیہ معاملہ اترا کھنڈ کی سا ئرہ کا ہے اسی سال مارچ میں سائرہ بانو نے سپریم کورٹ میں تین طلاق کے خلاف عرضی دائر کی تھی اس پر سماعت کرتے ہوئے جون میں سپریم کورٹ نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور حکومت دونوں کو حلف نامہ داخل کر نے کو کہا تھا ۔حکومت نے اپنے حلف نامہ میں یہ کہا ہے کہ ایک سیکولر ملک میں تین طلاق کی کوء گنجائش نہیں ہے اگر سپریم کورٹ کا فیصلہ سرکار کے موافق آیا تو پھر تین طلاق پانے والی عورت ملکی قانون کی رو سے رجعت کے بعد اپنے شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہے جبکہ شر عی قانون کے لحاظ سے یہ عورت شوہر کے لئے بالکل حرام ہوجائیگی اور بغیرحلالہ کے شوہرِ اول سے نکاح بھی نہیں ہوسکتا ۔ہم نے اوپر لکھا تھا کہ صرف مسلمانوں کے ہی پرسنل لاء سے چھیڑ چھاڑ کر نا محض اتفاق نہیں ہے بلکہ اس کیپیچھے کوء مقصد ہو تاہے
کیونکہ جب صرف مسلمانوں کے پرسنل لاء کو ہی معتوب بنایا جائے گا تو ظاہر ہے کہ مسلمان ہی اس کے خلاف احتجاج کرینگے اور کسی قیمت پر اپنے پرسنل لاء کی منسوخی یا تبدیلی کو گوارا کر نے کے لئے تیار نہیں ہو نگے تو سرکار کو یہ موقع مل جائے گا کہ وہ مسلمانوں کو علیحد گی پسند اور شدت پسند کے طور پہ پہش کر کے ایک خاص تہذیب کے دلدادہ افراد کو لبھانے اور اپنے سیاسی فوائد حاصل کر نے میں کامیاب ہوجائے
اس دلیل کی بنیاد پر طلاقِ ثلاثہ کے بارے میں موجودہ سرکار کے موقف کو یوپی انتخابات کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے
اسلام کے قانونِ طلاق کو عورتوں کے ساتھ زیادتی نا انصافی اور عدمِ مساوات پر مبنی قرار دیکر مسلم پرسنل لاء میں ترمیم.وتنسیخ کے ذریعہ مسلم عورتوں سے ہمدردی جتانے والے آخر یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ
………..یہ وہی مسلمان عورت ہے جو ملک کے طول وعرض میں آخری درجہ کی بے رحمی کے ساتھ ماری اور کاٹی جاتی ہے جو آن کی آن میں اپنے شوہر باپ بھاء بیٹوں اور گھروں سے محروم کر دی جاتی ہے جسکے شیر خوار بچے اسکی گود سے چھین کر آگ میں پھینک دئے جاتے ہیں جسکی آبرو ان وحشی غولوں کے رحم وکرم پر ہے جو کسی بھی وقت کسی بھی جگہ نمودار ہو کسکتے ہیں اور جسکا حالِ زار کسی بھی پہلو سے سننے اور دیکھنے کے لئے پتھر کا جگر چاہئے ……(اقتباس)…کیا مساوات اور سماجی اصلاح کے لئے صرف قانونِ شریعت ہی رہ گیا دوسرے معاملات میں عدل وانصاف ہمدردی جتانے اور حقوق کی بازیابی کے لئے کوء تحریک ہے نہ جدو جہد
یہ علم یہ حکمت یہ تدبر یہ حکو مت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
ہماری عدلیہ حکومت انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مساوات کہ دہاء دینے والے افراد پہلے فسادات کا زخم کھانے اور سراپا فریاد نظر آنے والی عورتوں کے شہری حقعق (جان مال عزت وآنرو) کے تحفظ کی بات کریں ۔پرسنل لاء کی مصیبتوں کو کتنا ہی بڑھا چڑھا کر بیان کر لیجئے یقیناً یہ گو رکشکوں کی غنڈہ گردی اور حیوانیت سے بڑھ کر نہیں ہو سکتی ۔
جب تک مسلمان عورت کے شہری حقو ق کے تحفظ کو یقینی نہیں بنا یا جائے گا لو جہاد گھر واپسی اور بیف کی آڑ میں اسکا استحصال بند نہیں کیا جائے گا اس وقت تک مسلم عورتوں کے ساتھ مسلم پرسنل لاء کے تعلق سے کوء بھی ہمدردی شک وشبہ سے بالا نہیں سمجھی جائیگی اور اس کے لئے چاہے کتنی مخلصانہ کوششیں کر لیں جا ئیں اسکو صرف یہی سمجھا جائے گا کہ یہ دین اور اہلِ دین کے خلاف ایک سازش ہے(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے بیوروچیف ہیں)