عید الاضحیٰ اور موجودہ مشکلات میں قربانی کا عمل

مفتی اشفاق احمد اعظمی 

 عید الاضحٰی دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے اسلامی تہوار اور سنت ابراہیمی قربانی پیش کرنے کا دن ہے ذی الحجہ کے چاند دیکھنے کے بعد قربانی کی عملی تیاری شروع ہوجاتی ہے، بال بنوانا ناخن ترشوانا مسلمان چھوڑ دیتا ہے ، قربانی کا جانور خرید کر پالتا ہے، کھلاتا ہے پلاتا ہے اور انس پیدا کرتا ہے ،دس دن عبادت و ریاضت میں اضافہ کرکے توبہ واستغفار و صیام نہار و قیام الیل کے ذریعے اپنے جذبات کو پاکیزہ اور خالق کائنات کی بارگاہ میں پیشی کے لیے یکسو بناتا ہے اور عید الاضحی کے تین دنوں میں اپنے ہاتھوں جانوروں کی قربانی اللہ کی جناب میں پیش کرکے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا نذرانہ پیش کرتا ہے 

مگر افسوس کہ اس وقت ملک اور دنیا میں کورونا وائرس کی وجہ سے جو حالات پیدا ہوگئے ہیں اور ملک میں برسراقتدار حکومتوں کا مسلمانوں کے تئیں جو رویہ چل رہا ہے انتہائی تکلیف دے اور تشویشناک ہے، ملک میں لاک ڈاؤن کے نام پر مسلمانوں کو جس طرح نشانہ بنایا جارہا ہے اور مذہبی بندشوں سے جس طرح دوچار کیا جارہا ہے اس کی مثال اس سے پہلے اس ملک میں میں ملنی مشکل ہے ، رمضان اور عید میں لاک ڈاؤن کو بڑھانےاور گھروں میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے پر مجبور کیا گیا جبکہ گائیڈ لائن کے حساب سے سوشل ڈسٹینسنگ کے ساتھ مساجد و عید گاہ میں گنجائش کے اعتبار سے نماز ادا کرنے میں کوئی دشواری نہیں تھی مگر پانچ آدمیوں کی قید لگا کر مسجدوں کو حسب سابق عام نمازیوں کے لئے بندش پیدا کر دی گئی ۔

 اب بقرعید کے موقع پر مسلمانوں کے مسلسل مطالبے کے باوجود مسلم تنظیموں نے یوپی سرکار کے سامنے مطالبہ رکھا، مختلف اداروں اور سوسائٹیوں نے مطالبہ رکھا ، جمعیۃ علماء ہند اور دارالعلوم دیوبند نے بھی مطالبہ رکھا مگر یوگی جی کی سرکار پر مسلمانوں کے درد و کرب کا کوٸ احساس نہیں ہوا ، مذہبی آزادی کو چھین کر صرف ایک مذہب کی سہولت کے علاوہ انہیں کوئی فکر نہیں ہے بالآخر وہی پرانا طریقہ کار پھر سرکار کی طرف سے جاری ہوگیا نماز عید الاضحی گھروں میں پڑھی جائے مسجدوں میں اجتماعی عمل نہ ہو پانچ سے زیادہ لوگوں کے اکٹھا ہونے پر نظر رکھی جائے ، اجتماعی طور پر قربانی کا عمل نہ ہو ، اپنے گھروں یا احاطہ میں قربانی کی جائے کھلے میدان میں قربانی نہ کی جائے ، گائے یا گائے کی نسل کے جانوروں کی آمد و رفت پر کڑی نگرانی کی جائے حکومت نے پہلے ہی سخت قانون بنا دیا ہے پانچ لاکھ جرمانہ 10 سال کی سزا رکھی ہے تاکہ پولیس کو مسلمانوں کے خلاف بھاری رشوت اور سخت اور فرضی کارواٸ کا کھلا موقع فراہم ہو ، ادھر سخت گیری اور فرضی کارروائیوں کے سبب قریشی برادری کے لوگ گھر چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور ہوگئے ہیں سلاٹر ہاؤس پہلے سے بند ہیں ذبیحہ پر پابندی نے بھینس اور بھینسے کی قربانی پر بھی خوف طاری کر دیا ہے ڈر لگنے لگاہے کہ بھینس کے گوشت کو گؤ ونش بنانے میں کچھ دیر نہیں لگے گی پھر بھی مسلمانوں کو خوف زدہ نہیں ہونا چاہئے ، گائے اور گائے کی نسل کی قربانی پر ہر گاؤں میں خود سے پابندی لگانا چاہیے اور جو لوگ باز نہیں آتے ہیں ان کا بائیکاٹ کرنا چاہیے اس وقت مسئلہ قربانی کا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے وجود کا ہے، مسلمانوں کے وجود کے لئے گائے کے گوشت یا اس کی قربانی کو قربان کرنا آسان ہے ، لوگ قربانی ضرور کریں ،قربانی کا کوئی بدل نہیں ہے، واجب قربانی کے علاوہ ثواب کی غرض سے قربانی نہ کرائیں تو بہتر ہے ،اپنے گھر اور احاطہ میں قربانی کرائیں ، سوشل ڈیسٹنسنگ کا خیال رکھیں، کھلی جگہ قربانی سے احتیاط کریں، مدارس میں قربانی کا اجتماعی انتظام امسال نہ رکھیں تو بھتر ہے ،عیدکی طرح عید الاضحی کی نماز بھی لوگ اول وقت میں مساجد میں یا گھر کے باہری حصہ صحن دروازہ وغیرہ میں ادا کریں ، عیدگاہ میں اجتماعی نماز نہ کریں ،قربانی اور بقیات کے سلسلے میں صفائی کا خصوصی خیال رکھیں ،ایک جگہ سے دوسری جگہ گوشت ڈھک کے لے جائیں، چمڑے اور فضلات کو ادھر ادھر پھینکنے کے بجائے زمین میں دفن کردیں۔