اشکوں سے بھرا دامن

 مولانا بدر الحسن القاسمی (کویت)
ان العین لتدمع وان القلب لیحزن ولا نقول الا ما یرضی ربنا وانا لفراقکم لمحزونون
دل زخموں سے بھرا ہو تو آنکھوں کا آنسو بہانا طبعی ہے، چنانچہ شریعت نے غم کے ان آنسوؤں پر بابندی نہیں لگائی اور ننھے ابراہیم ؑ کی وفات پر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی غم آگیں مبارک آنکھیں غم کے آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکیں اور یہ جملے آپ نے اسی موقع پر ارشاد فرمائے تھے ۔
میری شریک حیات ہو یا جواں سال بیٹوں اور بیٹی کی ماں، اچانک چلے جانے کا غم تو سبھوں کو طبعی ہے اور ان میں سے کسی کی آنکھیں موتی برسانے لگیں تو معذور ہی سمجھا جائے گا کہ اتنے بڑے حادثے میں دل کی کیفیت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی اور زخموں سے بھرا سینہ دامن کو بھی اشکوں سے بھرنے لگ جائے تو اس پر تعجب نہیں کیا جا سکتا ۔
میرے لئے تو قدرت نے بلکہ ہر غمزدہ انسان کیلئے صبر اور نماز کا نسخہ تجویز کیا ہے تاکہ غم ہلکا ہو کہ یہی تیر بہدف نسخۂ ہے اور ربانی علاج ہے اور اسی میں روحانی شفا ہے ۔
استعینوابالصبر والصلاہ کا یہی وہ قدرتی شفا خانہ ہے جہاں دکھ درد کے مریضوں کا خصوصی علاج ہوتا ہے اور معالج خود رب کائنات کی پاکیزہ ذات ہے اور نسخۂ قرآن میں مذکور ہے ۔
طاعت پر صبر اسی طرح معصیت کے ارتکاب سے باز رہنا یہ بھی صبر ہے اور پھر پیش آنے والی مصیبتوں پر صبر ایک مکمل تربیت گاہ ہے، جس میں دکھ دینے اور درد لینے کا کام ہوتا ہے لیکن جب غم ہی جانگداز ہو تو اس کی شدت تو محسوس ہونا یقینی ہے تا آنکہ رب کائنات اپنے لطف خاص سے نہ نوازے اور اپنی آغوش رحمت میں نہ لے لے ۔
نماز ایک کامل اور خاص شان کی عبادت ہے آدمی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے لگے تو خدا اسے اپنی حفاظت میں لے لیتا ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حدیث میں ہے کہ کان اذا حزبہ امر فزع الی الصلاة کہ جب بھی آپ کو کوئی پریشان کن معاملہ پیش آتا تو آپ نماز کی طرف تیزی سے لپک کر جاتے ۔
نعمتوں کے ساتھ کبھی قدرت کی طرف سے آزمائشوں اور مصائب کا رشتہ جڑا ہوتا ہے اور اس کا تحمل صبر کے بغیر نہیں ہو سکتا ، آدمی کبھی نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اورکبھی پیش آنے والی مشقتوں پر صبر کرتاہے اور اس کی زندگی صبرو شکر کے درمیان ہی گزرتی ہے، صبر آسان نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالی کی طرف سے اس پر بڑے اجر کا وعدہ ہے ۔
نماز تو سرتاپا مناجات اور سرگوشی ہی ہے ، نماز میں ہی انسان اللہ سے زیادہ قریب ہوتا ہے ۔ اللہ کی ہیبت اور اس کے جلال کا بھی احساس نماز میں ہی زیادہ ہوتا ہے، اس لئے نفس کے اطمینان اپنے کرب اور بےچینی کے اظہار اور ہر طرح کے غم و الم کے اظہار اور اس کے دور کرنے کے لئے فریاد کی سب سے اچھی جگہ نماز ہے، راز و نیاز بھی وہیں ہے اور کامل عبودیت کے اظہار کے ساتھ عاجزی سے مانگنے کی جگہ بھی نماز ہی ہے، اسی لئے صبر و نماز ہی کو ہر درد کے مداوا اور ہر پریشانی کے علاج کے طور پر تجویز کیا گیا ہے، اللہ رب العزت صبر کرنے والوں کی مدد کرتا ہے، ان کی فریاد سنتا ہے، ان کے کرب کو دور کرتا ہے ۔
انفرادی کام ہو یا اجتماعی ان کی انجام دہی صبر کے بغیر ممکن نہیں ؛ صبر کا پھلا تقاضا قضاء و قدر پر ایمان مصیبت پر اللہ کی طرف سے اجر کی امید اور زبان پر (انا للہ واناالیہ راجعون ) کا زبان سے ورد ہے ، پھر اللہ تعالی کی طرف سے بے حساب اجر کی امید اور رحمت و مغفرت کا ملنا قرآن کے وعدہ کے مطابق یقینی ہو جاتا ہے۔ نفس کو سکینت بھی اسی حالت میں حاصل ہوتی ھے ورنہ سوائے کرب و بلا اور مایوسی واضطراب کے کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔
قضا و قدر پر ایمان اور اللہ کے حاکم مطلق ہونے کے ساتھ اس کے حکیم ہونے پر ایمان ہر طرح کے وسوسے سے انسان کو نجات دیتا ہے اور اللہ کے ہر فعل میں اس کی حکمت کی کار فرمائی اسے مایوسی کے دلدل میں پھنسنے نہیں دیتی ۔
فا للہ خیر حافظا وھو ارحم الراحمین ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں